دالوں کی درآمد میں مسلسل اضافہ: پاکستانی کسانوں کے لیے دالیں کاشت کرنا کیوں منافع بخش کام نہیں رہا؟

postImg

آصف ریاض

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

دالوں کی درآمد میں مسلسل اضافہ: پاکستانی کسانوں کے لیے دالیں کاشت کرنا کیوں منافع بخش کام نہیں رہا؟

آصف ریاض

loop

انگریزی میں پڑھیں

مغربی پنجاب کے ضلع بھکر سے تعلق رکھنے والے کاشت کار محمد نعیم ظفر سالہا سال 20 ایکڑ زمین پر چنے اور مونگ کی دال کاشت کرتے رہے ہیں لیکن اس سال انہوں نے صرف 10 ایکڑ زمین پر یہ فصلیں کاشت کی ہیں کیونکہ 21-2020 میں انہیں مونگ کی فصل سے اچھی آمدنی نہیں ہوئی۔

پاکستان بھر کے کاشت کار انہی کی طرح دالوں کے زیر کاشت رقبے میں کمی کرتے جا رہے ہیں۔ پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل، یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا اور آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے ماہرین کی ایک مشترکہ تحقیق اس تبدیلی کی توثیق کرتے ہوئے کہتی ہے کہ دالوں کے زیر کاشت پاکستانی زرعی رقبے میں 2014 اور 2017 کے درمیان ہر سال 1.3 فیصد کمی ہوئی جبکہ اس دوران دالوں کی ملکی پیداوار میں مجموعی طور پر 6.2 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔

اکنامک سروے آف پاکستان کی رپورٹ بھی ان اعداد و شمار کی تائید کرتی ہے۔ اس کے مطابق  2019-20 میں 23 لاکھ 60 ہزار ایکڑ پر چنے کی فصل لگائی گئی تھی لیکن 21-2020 میں اس کے زیرکاشت رقبے میں آٹھ فیصد اور اس کی پیداوار میں 48 فیصد کمی ہوئی۔اسی عرصے میں مسور اور ماش کی دالوں کا زیر کاشت رقبہ بھی بالترتیب 32 فیصد اور 20 فیصد کم ہوا۔

مختلف فصلوں کے زیر کاشت رقبے اور ان کی پیداوار کا تخمینہ لگانے والے پنجاب حکومت کے ادارے کراپ رپورٹنگ سروس کا بھی یہی کہنا ہے۔ اس کے جاری کردہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ 21-2020 کے موسم خریف میں کاشت کی جانے والی ماش کی دال کا زیر کاشت رقبہ 11 ہزار چھ سو 69 ایکڑ تھا جو 22-2021 میں کم ہو کر محض چار ہزار دو سو ایکڑ رہ گیا۔ درحقیقت 22-2021 میں مونگ کے سوا دیگر تمام دالوں کے زیر کاشت رقبے میں مجموعی طور پر 46 فیصد کمی آئی۔

شمالی پنجاب کے ضلع چکوال کے گاؤں بلکسر سے تعلق رکھنے والے دالوں کے کاشت کار احمد فراز اس رجحان کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے علاقے کے جو کسان چند سال پہلے مسور، ماش اور مونگ کی دالیں کاشت کر رہے تھے وہ اب سرسوں، رایا، تارامیرا اور کینولا جیسے تیل والے بیج اور گندم اگانے کو ترجیح دے رہے ہیں کیونکہ، ان کے بقول، "ان فصلوں سے انہیں زیادہ منافع ملتا ہے"۔ مزید برآں وہ کہتے ہیں کہ پنجاب حکومت تیل والے بیجوں کی کاشت پر پانچ ہزار روپے فی ایکڑ کے حساب سے مالی امداد بھی دیتی ہے۔

مستحکم قیمتیں، خوش حال کسان

زراعت اور خوراک کے حوالے سے اعداد و شمار مرتب کرنے والی ایک نجی ویب سائٹ، نیشن ماسٹر، کا کہنا ہے کہ 2017 میں پاکستان میں ایک ارب 36 کروڑ 70 لاکھ کلو گرام (13 لاکھ67 ہزار میٹرک ٹن ) دالیں استعمال کی گئیں۔ اس حساب سے ہر پاکستانی نے اس سال تقریباً سوا چھ کلوگرام دالیں کھائیں۔

اس طلب کو پورا کرنے کے لیے ہر روز 26 کروڑ 68 لاکھ روپے کی دالیں درآمد کی جاتی ہیں۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کا کہنا ہے کہ اس درآمد میں پچھلے چند سالوں میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ اس کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2017 اور 2021 کے درمیان دوسرے ملکوں سے منگوائی جانے والی دالوں کی مقدار میں اوسطاً 24.3 فیصد سالانہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2008 تک پاکستان خود چنے اور دالیں برآمد کر رہا تھا۔ لیکن 2007 میں جب عالمی منڈی میں ان اجناس کی قلت پیدا ہوئی تو پاکستانی حکومت نے ان پر 35 فیصد برآمدی  ٹیکس عائد کر دیا تاکہ ان کی برآمد کی حوصلہ شکنی کر کے ملک کے اندر ان کی دستیابی یقینی بنائی جا سکے۔ لیکن اس ٹیکس کے لگنے کے بعد نہ صرف ان کی برآمد بند ہو گئی بلکہ ان کی درآمد بھی ہر سال بڑھنے لگی۔

فیصل آباد میں قائم ایوب ایگریکلچرل پلس ریسرچ انسٹیوٹ کے سابق سینئر سائنسدان ڈاکٹر کاشف رشید اس تبدیلی کی ذمہ داری دالیں درآمد کرنے والے تاجروں پر ڈالتے ہیں۔ ان کے بقول یہ تاجر "رسد اور طلب میں فرق پیدا کرتے ہوئے جب چاہتے ہیں قیمتیں اوپر لے جاتے ہیں اور جب چاہتے ہیں قیمتیں گرا دیتے ہیں"۔ ان کے خیال میں قیمتوں میں کمی خاص طور پر اس وقت کی جاتی ہے ''جب مقامی فصل مارکیٹ میں آنا شروع ہوتی ہے''۔ اس کے نتیجے میں مقامی کسانوں کو ان کی پیداکردہ دالوں کی اچھی قیمت نہیں ملتی اور وہ ان کی کاشت میں کمی کر دیتے ہیں۔

کاشف رشید سمجھتے ہیں کہ اگر دالوں کی درآمد محدود کردی جائے تو مقامی منڈی میں ان کی قیمتیں مستحکم رہیں گی جس سے پاکستانی کاشت کاروں کو فائدہ ہو گا اور وہ زیادہ دالیں کاشت کرنے کی طرف راغب ہوں گے۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ دو سال پہلے عالمی منڈی میں مونگ کی دال کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کے نتیجے میں مقامی طور پر کاشت کردہ مونگ کی دال دو سو روپے سے ڈھائی سو روپے فی کلوگرام کے حساب سے فروخت ہونے لگی تھی۔

لیکن، ان کے مطابق، مقامی کسانوں نے اس سے غلط نتیجہ اخذ کرتے ہوئے 21-2020 میں پہلے کی نسبت کہیں زیادہ مونگ کی فصل کاشت کر لی جس کے باعث اس کی پیداوار اس کی طلب کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑھ گئی اور اس کی قیمت کم ہو کر صرف 80 روپے فی کلوگرام رہ گئی۔

دالوں کی پیداوار کیوں گر رہی ہے؟

پاکستان میں دالوں کا شمار چھوٹی فصلوں میں ہوتا ہے جو زیادہ تر بارانی علاقے میں اگائی جاتی ہیں جہاں کسان کاشت کاری کے لیے بارش کے پانی پر انحصار کرتے ہیں۔ ان کی چار اہم اقسام، چنا، مسور، مونگ اور ماش، دو مختلف موسموں میں کاشت کی جاتی ہیں جنہیں ربیع (بہار) اور خریف (خزاں) کہا جاتا ہے۔

چنے اور مسور کی دالیں ربیع کے موسم میں گندم اور مکئی جیسی بڑی فصلوں کے ساتھ اگائی جاتی ہیں۔ یہ دونوں دالیں زیادہ تر مغربی پنجاب میں تھل کے صحرا اور شمالی پنجاب کے بارانی علاقوں میں لگائی جاتی ہیں۔ دراصل ملک میں چنوں کے زیرکاشت کل اراضی کا 85 فیصد سے زیادہ حصہ تھل کے پانچ اضلاع، بھکر، خوشاب، جھنگ، لیہ اور میانوالی، میں پایا جاتا ہے۔

مونگ اور ماش کی دالیں خریف کے موسم میں کاشت کی جاتی ہیں جس میں کپاس، چاول، گنے اور مکئی جیسی اہم فصلیں بھی کاشت کی جاتی ہیں۔ یہ دالیں ایسی زمینوں پر کاشت ہوتی ہیں جہاں پانی زیادہ دیر تک کھڑا ہو سکتا ہو۔ پنجاب میں کاشت کی جانے والی مونگ کی دال کا 50 فیصد صرف ایک ضلعے، بھکر، میں لگایا جاتا ہے جبکہ اس کا 34 فیصد لیہ اور میانوالی کے اضلاع میں اگایا جاتا ہے۔ ماش کی دال کی سب سے زیادہ کاشت نارووال، سیالکوٹ اور راولپنڈی کے اضلاع میں ہوتی ہے جبکہ مسور کی دال کا بڑا حصہ راولپنڈی اور چکوال میں بویا جاتا ہے۔

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال 30 لاکھ ایکڑ سے زیادہ رقبے پر دالیں کاشت کی جاتی ہیں جن میں سے 21 لاکھ ایکڑ سے زیادہ اراضی پر صرف چنے کی فصل لگائی جاتی ہے۔ اس اعتبار سے پاکستان دالیں کاشت کرنے والا سولہواں بڑا ملک ہے تاہم ان کی فی ایکڑ پیداوار کے لحاظ سے اس کا نمبر ایک سو 61 واں ہے۔

پاکستان کے اندر بھی دالوں کی فی ایکڑ پیداوار دوسری فصلوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ مثال کے طور پر 1947 سے لے کر اب تک گندم کی فی ایکڑ مقامی پیدوار میں 243 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ اسی عرصے میں گنے کی فی ایکڑ پیداوار میں 134 فیصد، چاول کی فی ایکڑ پیداوار میں 174 فیصد اور مکئی کی فی ایکڑ پیداوار میں 478 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ لیکن دوسری طرف مونگ کے سوا تمام دالوں کی پیداوار میں اضافہ برائے نام رہا ہے (حالانکہ مونگ کی پیداوار بھی پچھلے 74 برسوں میں صرف 67 فیصد بڑھی ہے اور ایک سو 80 کلو گرام فی ایکڑ سے بڑھ کر تین سو کلو گرام فی ایکڑ ہو گئی ہے)۔

محمد نعیم ظفر کے خیال میں اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ دالیں عموماً ایسے علاقوں میں کاشت ہوتی ہیں جہاں آبپاشی کے لیے نہری یا زیر زمین پانی دستیاب نہیں۔ مونگ کی پیداوار میں ہونے والے حالیہ اضافے کی نشان دہی کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ایسا اس لیے ممکن ہوا کہ اس کی کاشت تھل سے نکل کر ایسے علاقوں میں جا پہنچی جہاں آبپاشی کے لیے نہری پانی موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

کپاس کی فصل کو درپیش موسمیاتی خطرات:حکومت کو نئے ایٹمی بیج سے معجزوں کی توقع۔

کراپ رپورٹنگ سروس کے اعداد و شمار ان کے نکتہِ نظر کی تائید کرتے ہیں۔ ان کے مطابق 2019-20 میں ساہیوال ڈویژن میں صرف 12 سو ایکڑ پر مونگ کاشت کی گئی تھی لیکن اس سے اگلے سال اس کا زیر کاشت رقبہ 13 ہزار دو سو 94 ایکڑ تک پہنچ گیا۔ اسی عرصے میں ملتان ڈویژن میں اس کا زیر کاشت رقبہ  دو ہزار تین سو 32 ایکڑ سے بڑھ کر 31 ہزار ایکڑ اور بہاولپور ڈویژن میں پانچ ہزار ایکڑ سے بڑھ کر 14 ہزار ایکڑ ہو گیا۔

اِن آب پاش علاقوں میں اس کی اوسط فی ایکڑ پیداوار نو من (تین سو 60 کلو گرام) ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ بارانی علاقوں میں یہ پیداوار کبھی تین من (ایک سو 20م کلو گرام) فی ایکڑ سے زیادہ نہیں رہی۔

چکوال کے کاشت کار احمد فراز کے خیال میں پانی کی کمی کے علاوہ دالوں کی فی ایکڑ پیداوار کم رہنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں میں زرعی تحقیق و ترقی اور محکمہ زراعت کی طرف سے کسانوں کو دیے جانے والے مشوروں میں انہیں بڑی حد تک نظر انداز کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق اس کا ثبوت یہ ہے کہ سرکاری تحقیقی اداروں نے دالوں کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کے لیے نہ تو خود کوئی نیا بیج تیار کیا ہے اور نہ ہی باہر سے کوئی اچھا بیج منگوایا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ گندم، مکئی اور تیل والے بیجوں کی کاشت اور برداشت میں مدد دینے والی جدید مشینیں اور دیگر ٹیکنالوجی تو پاکستان میں موجود ہے لیکن ''دالوں کے شعبے میں ہم ان سب چیزوں سے محروم ہیں''۔ یہی وجہ ہے کہ کسانوں کو ان کی کاشت اور برداشت کے لیے مزدوروں کی خدمات لینا پڑتی ہیں جو ''پہلے تو آسانی سے دستیاب نہیں ہوتے لیکن اگر ہو بھی جائیں تو ان کی خدمات کے معاوضے کی وجہ سے فصل پر اٹھنے والے اخراجات بہت بڑھ جاتے ہیں"۔
نتیجتاً دالیں اگانا کسانوں کے لیے منافع بخش نہیں رہتا۔

تاریخ اشاعت 16 فروری 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد آصف ریاض رپورٹر ہیں اور ان کا کام کھیت سے منڈی اور صارف تک زرعی شعبے کے جملہ امور اور مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.