ضلع قلعہ عبداللہ: 'میری اہلیہ کو لیڈی ڈاکٹر میسر آتی تو اس کی جان بچ سکتی تھی'

postImg

مطیع اللہ مطیع

postImg

ضلع قلعہ عبداللہ: 'میری اہلیہ کو لیڈی ڈاکٹر میسر آتی تو اس کی جان بچ سکتی تھی'

مطیع اللہ مطیع

قلعہ عبداللہ کے عبدالمالک کی اہلیہ اپنے 10ویں بچے کی پیدائش کے دوران زندگی کی بازی ہار گئیں۔

جب ان کے ہاں بچے کی پیدائش کا وقت آیا تو عبدالمالک انہیں عبداللہ خان بازار میں واقع دیہی مرکز صحت لے آئے مگر وہاں کوئی ڈاکٹر نہیں تھا۔ چنانچہ انہیں ایک نجی کلینک سے رجوع کرنا پڑا۔

عبدالمالک کا کہنا ہے کہ بچے کی پیدائش نارمل ہوئی اور وہ گھر واپس آ گئیں لیکن انہیں ہائی بلڈ پریشر کی شکایت تھی اور اسی رات ان کی حالت بگڑ گئی۔ عبدالمالک بھاگم بھاگ ڈاکٹر کو لینے کلینک پر گئے مگر کچھ ہی دیر میں ان کی اہلیہ انتقال کر گئیں۔

"میری اہلیہ کو بنیادی مرکز صحت میں لیڈی ڈاکٹر میسر آتی تو اس کی جان بچ سکتی تھی۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے جب پوچھتے ہیں کہ ماں کدھر گئی تو میرے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔''

لوگوں کی بنیادی صحت سے متعلق اقدام (پی پی ایچ آئی) کے مطابق پاکستان میں دوران زچگی ہر ایک لاکھ میں سے 186 خواتین کی موت ہو جاتی ہے لیکن بلوچستان میں یہ شرح 298 ہے۔

بلوچستان کے صوبائی صدر مقام کوئٹہ سے 80 کلومیٹر دور ضلع قلعہ عبداللہ کی آبادی سات لاکھ 58 ہزار ہے جس میں 98 فیصد لوگ پشتون ہیں۔2017 ء کی مردم شماری کے مطابق اس ضلعے کی آبادی میں چار فیصد کی شرح سے سالانہ اضافہ ہو رہا ہے۔

محکمہ خزانہ کے اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ قلعہ عبداللہ میں چیف لیڈی میڈیکل افسر اور خواتین گائنا کالوجسٹ کی 28 اسامیاں ہیں جبکہ یہاں کی آبادی میں 18سال سے زیادہ  عمر کی خواتین کی تعداد تقریباً 95 ہزار ہے۔

ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر سید عبدالحنان آغا کے مطابق ضلعے میں اس وقت صرف پانچ مستقل گائناکالوجسٹ تعینات ہیں جبکہ غیرسرکاری تنظیموں (این جی اوز) کے زیراہتمام طبی سہولیات کی فراہمی کے تحت آٹھ لیڈی ڈاکٹر کام کر رہی ہیں۔

پی پی ایچ آئی کے مطابق قلعہ عبداللہ میں پانچوں گائناکالوجسٹ اگر کوئی ناغہ کئے بغیر کام کریں تو ایک ڈاکٹر کو روزانہ کم از کم آٹھ کیس دیکھنا پڑیں گے۔

پہلے قلعہ عبداللہ کا ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال چمن میں تھا۔ جب چمن کو علیحدہ ضلع بنایا گیا تو قلعہ عبداللہ میں نئے ہسپتال کی ضرورت تھی۔ چنانچہ تحصیل گلستان کے انتظامی مرکز عبدالرحمٰن زئی میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال (ڈی ایچ کیو) قائم کرنے کا فیصلہ ہوا جس کی عمارت تاحال زیرتعمیر ہے۔ اسی لیے ڈی ایچ کیو کو عارضی طور پر تحصیل ہسپتال میں ہی چلایا جا رہا ہے۔

ڈی ایچ کیو کے ایک ڈاکٹر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ضلعے میں ورلڈ بینک کے تعاون سے 23 لیڈی میڈیکل افسر اور آٹھ ڈاکٹر تعینات  کی گئی ہیں لیکن عموماً یہ ڈاکٹر اپنی ڈیوٹی پر حاضر نہیں ہوتیں۔

"ڈی ایچ کیو میں نارمل ڈلیوری کے لیے بھی ڈاکٹر نہیں ہوتیں۔ اگر ہوں بھی تو مناسب سہولتیں موجود نہیں ہیں حتیٰ کہ ضرورت کے وقت اہم دوائیں بھی دستیاب نہیں ہوتیں۔ مشینری اور ماہر عملے کا فقدان ہے۔ اسی لئے بہت سے لوگوں کو نجی ہسپتالوں میں لے جانا پڑتا ہے اور اگر کوئی بہت پیچیدہ کیس آ جائے تو اسے کوئٹہ ریفر کر دیا جاتا ہے۔''

 ان کا کہنا ہے کہ سہولیات کی کمی کے باعث بہت سے ڈاکٹر یہاں سے اپنا تبادلہ کرا لیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

پورے ضلع صحبت پور میں ایک لیڈی ڈاکٹر: 'ایسا نہ ہوتا تو بیٹی کے سر پر ماں کا سایہ سلامت ہوتا'

دوسری جانب محکمہ صحت کے پبلک ہیلتھ ڈائریکٹر ڈاکٹرخالد قمبرانی بتاتے ہیں کہ حال ہی میں 800 سے زیادہ ڈاکٹروں کو ان کے متعلقہ اضلاع میں ایڈہاک بنیادوں پر تعینات کیا گیا ہے۔ قلعہ عبداللہ میں بھی ایسی 17 لیڈی ڈاکٹروں کی چھ ماہ کے لئے تعیناتی عمل میں آئی ہے اور اس مدت میں ان کا کہیں تبادلہ نہیں ہو سکتا۔

ڈی ایچ کیو کی لیڈی ڈاکٹر گل پری (فرضی نام) کہتی ہیں کہ کیس نارمل ہو تو اکثر لوگ اپنے گھر پر ڈلیوری کرا لیتے ہیں لیکن پیچیدگی یا زیادہ درد کی صورت میں ڈاکٹروں کے پاس آتے ہیں۔

''ڈی ایچ کیو میں ہر ہفتے تین سے چار خواتین کی ڈلیوری ہوتی ہے۔ ضروری دوائیں لوگوں کو خود لانا پڑتی ہیں۔ اگر ادویات اور مشینری کا انتظام ہو جائے تو ہسپتال میں روزانہ بہت لوگوں کو ڈلیوری کی سہولت دی جا سکتی ہے۔''

خالد قمبرانی کا دعویٰ ہے کہ محکمہ صحت زچگی کے دوران شرح اموات  کنٹرول کرنے کے لئے بھرپور کوششیں کر رہا ہے۔ اسی سلسلے میں 35 گائنا کالوجسٹ ڈاکٹروں کی تعیناتی کے لئے سمری حکومت کو بھیج دی گئی ہے۔

تاریخ اشاعت 1 مئی 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

مطیع اللہ مطیع کوئٹہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی، خواتین اور بچوں کی حقوق سے متعلق مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

چراغ تلے اندھیرا: سندھ میں شمسی توانائی کا 'انوکھا' منصوبہ

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

پنجاب: زرعی ٹیوب ویلوں کو سولر پر چلانے کے منصوبے پر ماہرین کیوں تقسیم ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.