پاکستان کے دریاؤں کے 'نئے مالک' سے ملیے! ارسا ایکٹ 1992ء اور ارسا آرڈیننس 2024ء کا ایک تقابلی جائزہ

postImg

عبداللہ چیمہ، کلیم اللہ

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

پاکستان کے دریاؤں کے 'نئے مالک' سے ملیے! ارسا ایکٹ 1992ء اور ارسا آرڈیننس 2024ء کا ایک تقابلی جائزہ

عبداللہ چیمہ، کلیم اللہ

loop

انگریزی میں پڑھیں

پاکستان کے دریاؤں میں ایک نئی طغیانی کے آثار نمودار ہو رہے ہیں لیکن متوقع سیلاب اس بار کچے کے علاقوں میں تباہی نہیں مچائے گا بلکہ یہ پاکستان کے وفاق کے بنیادوں کو ڈبو سکتا ہے۔

اپنے عہدے کا حلف لینے کے ایک ہفتے بعد ہی وزیر اعظم شہباز شریف نے ظفر محمود کو ارسا (انڈس ریور سسٹم اتھارٹی) کا سربراہ مقرر کرنے کا حکم جاری کر دیا۔

ظفر 22ویں گریڈ کے ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہیں۔ وزیر اعظم نے ان کی تقرری کا حکم اپنے ان اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے کیا جو انہیں ارسا آرڈیننس 2024ء نے تقویض کیے ہیں۔ یہ آرڈیننس نگران حکومت نے اپنی معیاد کے ختم ہونے سے کچھ روز پہلے 14 فروری کو جاری کیا تھا۔

پاکستان کے دریا جنہیں مجموعی طور پر انڈس ریور سسٹم کہا جاتا ہے اس کی چاروں وفاقی اکائیوں یعنی صوبوں کی مشترکہ ملکیت ہیں۔ ارسا ایکٹ 1992ء ان دریاوں کے انتظام اور صوبوں کے درمیان ان کے پانیوں کی تقسیم کا مرکزی معاہدہ ہے۔

سبھی صوبوں کے لیے یہ بہت حساس معاملہ ہے کیونکہ پانی کی فراہمی میں معمولی ردوبدل بھی ایک علاقے کو سرسبز اور دوسرے کو بنجر کر سکتی ہے۔

ارسا آرڈیننس 2024ء نے بتیس سال پرانے ارسا ایکٹ 1992ء میں کوئی معمولی تبدیلی نہیں کی بلکہ اس کی اصل کو اکھاڑ پچھاڑ کر یکسر بدل دیا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے ظفر محمود کی تقرری پر احتجاج کرنے میں دیر نہیں لگائی۔ پارٹی کے رہنما نوید قمر نے وزیراعظم کو آرڈیننس کے تحت ملنے والے اختیارات کو استعمال کرنے پر قومی اسمبلی میں آڑے ہاتھوں لیا اور سندھ اسمبلی نے بھی وفاق کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔

اس کڑی اور فوری تنقید کے پیچھے شاید مسلم لیگ نواز کے ایسے ہی ایک پرانے اقدام نے بھی کچھ کردار ادا کیا ہو گا۔

1998ء میں اس پارٹی کو قومی اسمبلی میں دو تہائی سے زیادہ اکثریت حاصل تھی اور چاروں ہی صوبوں میں بھی اسی کی حکومتیں تھیں۔ پھر بھی اس نے آرڈیننس کا سہارا لیتے ہوئے ارسا ایکٹ 1992ء میں بنیادی تبدیلیاں کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ آرڈیننس اسے تین ماہ کے اندر واپس لینا پڑا تھا۔

2024ء میں پیپلز پارٹی، وفاق میں مسلم لیگ نواز کی سب سے بڑی اتحادی ہے۔اس کے احتجاج پر وزیراعظم نے ارسا سربراہ کی تقرری کے احکامات 48 گھنٹے کے اندر واپس لے لیے۔
اس سے طوفان بپھرنے سے پہلے ہی تھم تو گیا لیکن کیا یہ مکمل طور پر ٹل گیا ہے؟

آرڈیننس کی آئینی مدت 120 دن ہے جس میں قومی اسمبلی سے ایک قرارداد پاس کروا کر دو بار اتنی ہی مدت کا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔اس کے بعد یہ خودبخود ایک بل (مجوزہ قانون) بن کر قومی اسمبلی میں پیش ہو جائے گا اور پھر اسے مستقل قانون کا درجہ حاصل کرنے کے لیے عمومی پارلیمانی عمل سے گزرنا ہو گا۔

یہ آرڈیننس ایک انتہائی کمزور نگران حکومت نے جاتے جاتے نافذ کیا۔ سابق صدر عارف علوی نے بھی پانیوں کی تقسیم جیسے اہم معاملے کو یوں کسی جمہوری عمل سے گزارے بغیر یکسر بدل دینا درست نہیں سمجھا۔

انہوں نے اس آرڈیننس کو منظور نہیں کیا لیکن ان کے انکار کے دس روز بعد آئین کے آرٹیکل 89 کے تحت یہ آرڈیننس بہرحال نافذالعمل ہو گیا۔

موجودہ حکومت جب چاہے اس آرڈیننس کو واپس لے سکتی ہے اور یہ بھی فیصلہ کر سکتی ہے کہ اسے مستقل قانون میں تبدیل کرنے کے لیے اسمبلی میں پیش ہی نہ کیا جائے۔

لیکن جب تک حکومت ایسا نہیں کرتی، آرڈیننس نافذالعمل رہے گا اور وزیراعظم کو وہ اختیارات حاصل رہیں گے جو اس نے انہیں دے دیئے ہیں۔

ہمیں نہیں معلوم کہ اس بارے میں حکومت کیا سوچ رہی ہے اور اس کا اگلا اقدام کیا ہو گا لیکن اس آرڈیننس کے مندرجات نے اس کے بنانے والوں کی سوچ کو ضرور آشکار کر دیا ہے۔ اب کسی کو بھی یہ بتانے کی تو ضرورت نہیں کہ کمزور ترین نگران حکومت نے یہ آرڈیننس کس کی مدد سے یا کس کے ایما پر پیش کیا ہو گا!

یہ آرڈیننس اس بات کا مظہر ہے کہ ہمارے مقتدر حلقوں کے پاس دریاؤں کے انتظام اور پانیوں کی تقسیم کا ایک بالکل نیا پلان موجود ہے جو کسی نہ کسی شکل میں اس اہم معاملے پر اثرانداز ہوتا رہے گا۔

اسی منظرنامے کو سامنے رکھتے ہوئے لوک سجاگ نے  ارسا ایکٹ 1992ء اور ارسا آرڈیننس 2024ء کا ایک تقابلی جائزہ تیار کیا ہے۔ جس کے اہم نکات یہ ہیں:

چیئرمین صاحب کی جے ہو!

پہلی بات جو آرڈیننس کے مندرجات سے کھل کر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ پانیوں کے معاملے کے اصل فریقوں یعنی صوبوں کو ارسا میں بے اختیار دیکھنا چاہتا ہے۔

 1992ء کے ایکٹ نے ارسا کو پانچ ممبران پر مشتمل ایک ادارہ بنایا تھا، ایک ممبر وفاقی حکومت کا نامزد کردہ اور چار صوبوں کے۔ ان میں سے ہر ممبر ایک طے شدہ ترتیب سے اپنی باری پر ایک سال کے لیے ادارے کا سربراہ یعنی چیئرمین متعین ہوتا ہے۔

فریقین میں سربراہی کی تقسیم ادارے کی ملکیت کو اجتماعی اور مساویانہ بناتی ہے اور یہی ارسا ایکٹ کی روح ہے۔

ارسا آرڈیننس 2024ء نے ادارے کی سربراہی باری باری صوبوں کو دینے والی شق پر قلم پھیر دیا ہے۔

اس میں دو ٹوک لکھ دیا گیا کہ ارسا اب پانچ ممبران اور ایک چیئرمین پر مشتمل ہوگا اور چیئرمین کا انتخاب وزیراعظم کرے گا۔ وزیراعظم، چیئرمین کا انتخاب 21 گریڈ یا اس کے مساوی یا اس سے اوپر کے ریٹائرڈ یا حاضر سروس افسران میں سے کرے گا۔

گویا ادارے کی سربراہی صوبوں کے نامزد ممبران سے لے کر ایک سول یا ملٹری بیوروکریٹ کو سونپ دی گئی ہے۔

آرڈیننس میں یہ تو واضح نہیں کہ نئے چیئرمین کے عہدے کی معیاد کتنی ہو گی البتہ ایک جگہ یہ ضرور لکھا ہے کہ وزیراعظم اس میں جتنی بار چاہے اضافہ کر سکتا ہے۔

ممبران کو سربراہ کے عہدے سے محروم کرنے کی تلافی کے لیے وائس چیئرمین نام کا ایک نیا عہدہ تخلیق کیا گیا ہے۔ یہ عہدہ ادارے کے پانچ ممبران میں اسی طرح گھومے گا جس طرح ارسا ایکٹ کے مطابق ان کے درمیان چیئرمین کا عہدہ  گھومتا ہے۔

تو گویا ارسا ایکٹ کی روح اب وائس چیئرمین کے عہدے میں پھونک دی گئی ہے۔ ہاں بس اس عہدے کو کسی بھی قسم کا اختیار اور طاقت نہیں دی گئی!

آرڈیننس میں کوئی ایک بھی شق ایسی نہیں جو واضح کر سکے کہ وائس چیئرمین کا کام ہو گا کیا۔ بس ایک جگہ ذکر ہے کہ وہ چیئرمین کی عدم موجودگی میں ممبران کی میٹنگ کی سربراہی کرے گا۔

'آزاد' ماہرین بمقابلہ 'مقید' ماہرین

آرڈیننس نے ارسا کے کاموں اور اختیارات میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے اور یہ سب کے سب انڈیپینڈنٹ ایکسپرٹس کمیٹی (آزاد ماہرین کی کمیٹی) نام کی ایک نئی باڈی کے حوالے کر دیے ہیں۔

یہ باڈی ایسے آٹھ 'آزاد' ماہرین پر مشتمل ہوگی جو پانی سے متعلق انجینئرنگ کے کسی نہ کسی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں گے۔ ان کا انتخاب چیئرمین کرے گا اور وہی ان کا سربراہ مقرر کرے گا۔

یہ کمیٹی چیئرمین کی آنکھیں کان اور دست و بازو ہو گی۔ چیئرمین اپنا تمام کام انہی کے توسط سے کرے گا اور یہ مکمل طور پر اسی کے تابع ہو گی۔

ممبران کا اس کمیٹی کی تشکیل اور کام کاج سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہو گا۔

ایسا اس امر کے باوجود ہو گا کہ صوبوں کی طرف سے نامزد ممبران بھی پانی سے متعلق انجینئرنگ کے شعبوں کے ہی ماہرین ہوتے ہیں۔

ارسا ایکٹ 1992ء نے یہ طے کیا تھا کہ ممبران آب پاشی اور متعلقہ شعبوں کے اعلیٰ ترین ماہرین ہوں گے۔

ان ماہرین کی موجودگی میں کام کرنے کے لیے مزید ماہرین کی کمیٹی ڈالنے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟

شاید آرڈیننس کے خالق صوبوں کے بھیجے ہوئے ماہرین کو اتنا 'آزاد' نہیں گردانتے کہ وہ وزیراعظم کے تعینات کردہ چیئرمین کی مناسب تابعداری کر سکیں۔

تو اگر ارسا کا تمام کام 'آزاد' ماہرین کی کمیٹی کرے گی تو صوبوں کے بھیجے 'مقید' ماہرین کیا کریں گے؟

آرڈیننس کے مطابق بس وہ اپنی ماہانہ میٹنگ کا سلسلہ جاری رکھ سکتے ہیں، اس امید کے ساتھ ارسا کا عملہ میٹنگ کے دوران انہیں چائے، بسکٹ پیش کرتا رہے گا!

<p>گرافکس: حمزہ ثاقب</p>

گرافکس: حمزہ ثاقب

ہم آہنگی کی تیس سالہ کوششیں، سیلاب کی زد میں

ارسا ایکٹ 1992ء نے ارسا کو یہ اختیار سونپا تھا کہ وہ صوبوں میں پانیوں کی تقسیم کی بنیادیں طے کرے گا اور وہ ایسا واٹر اکارڈ میں طے کیے گئے صوبوں کے حصوں اور پالیسیوں کے مطابق کرے گا۔

یہ واٹر ایکارڈ صوبوں کے درمیان 16 مارچ 1991ء کو طے ہوا تھا اور جس کے پانچ روز بعد مشترکہ مفادات کونسل نے اس کی توثیق بھی کر دی تھی۔

وفاق اور چاروں صوبوں کے درمیان ہونے والے اس تاریخی معاہدے نے پانیوں میں صوبوں کا حصہ واضح طور پر طے کر دیا گیا تھا اور ایسا ان کی زرعی ضروریات اور آب پاشی کے تاریخی اعداد و شمار کی روشنی میں کیا گیا تھا۔

دراصل اسی معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے ارسا نامی ایک ادارہ قائم کیا جائے گا جس میں چاروں صوبوں کی نمائندگی ہو گی۔ اس معاہدے کے ایک سال بعد ارسا ایکٹ 1992ء منظور ہوا تھا۔

لیکن ارسا آرڈیننس 2024ء ہم آہنگی کی کوششوں کی اس تیس سالہ تاریخ پر پانی پھیرنے کے درپے ہے۔ اس نے ارسا ایکٹ کے سب سیکشن 8 میں ایک 'وضاحت' کا اضافہ کیا ہے جس کے مطابق پانیوں کو ریگولیٹ اور صوبوں میں تقسیم کرنے کی تکنیکی بنیاد وہی آزاد ماہرین کی کمیٹی طے کرے گی جس کی تشکیل اور کام کاج میں صوبوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہو گا۔

اس سے بڑھ کر آرڈیننس ارسا کو یہ اختیار بھی دیتا ہے کہ وہ آب پاشی سے متعلق تمام وفاقی اور صوبائی اداروں کو احکامات جاری کر سکتا ہے جن کی تعمیل ان پر لازم ہو گی اور حکم عدولی کی صورت میں وہ انہیں سزا دینے کا بھی مجاز ہو گا۔

ارسا یہ احکامات کسی بھی صوبے میں موجود کسی بھی واٹر ریگولیشن پوائنٹ کے حوالے سے جاری کر سکتا ہے۔

یہ اختیارات آب پاشی سے متعلق تمام صوبائی محکموں کو ارسا کے ماتحت ذیلی دفاتر میں تبدیل کرنے کے مترادف ہے۔

لیکن اگر پانیوں کے اخراج اور استعمال کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کی ذمہ داری صوبائی محکموں کے پاس ہی رہتی ہے تو ارسا اپنے بے پناہ اختیارات استعمال کرنے میں پھر بھی انہی کا محتاج رہے گا۔

ذرا ٹھہریے، آرڈیننس میں اس کا تدارک بھی موجود ہے!

طغیانی کے آگے ڈیٹا کا بند

ارسا ایکٹ 1992ء میں یہ واضح طور پر طے کر دیا گیا تھا کہ صوبے کے تمام ممکنہ مقامات پر پانیوں کے بہاؤ اور اخراج کا ڈیٹا اکٹھا کرنا صوبائی اداروں کی ہی ذمہ داری ہو گی اور واپڈا جیسے ادارے بھی اپنے تئیں یہ کام جاری رکھ سکتے ہیں، ارسا بس ان سب کی مانیٹرنگ کرے گا۔
آرڈیننس 2024ء نے اس شق کو ہذف کر دیا ہے۔

اس کے مطابق اب یہ کام جدید ٹیکنالوجی کے استعمال (ٹیلی میٹری) کے ذریعے ارسا خود کرے گا۔ آرڈیننس نے یہ اہم کام بھی اپنی آزاد ماہرین کی کمیٹی کے کاندھوں پر ڈال دیا ہے۔

یعنی اب ارسا چاروں صوبوں کے تمام واٹر ریگولیشن پوائنٹس پر بہاؤ اور اخراج ماپنے کے آلات نصب کر کے خود ڈیٹا اکٹھا کرے گا اور اسے مرتب بھی خود کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

چوبارہ برانچ پر سندھ کا اعتراض: 'تھل میں ایک نئی نہر بنانے سے ہمارے حصے کا پانی اور بھی کم ہو جائے گا'۔

واٹر ریگولیشن پوائنٹ کی اصطلاح ارسا ایکٹ 1992ء میں استعمال نہیں ہوئی تھی۔ آرڈیننس میں یہ وضاحت موجود ہے کہ اس میں ڈیم، بیراج، کینال ہیڈ، ذخیرے شامل ہیں لیکن یہ اس تک محدود نہیں یعنی کسی بھی مقام کو واٹر ریگولیشن پوائنٹ قرار دے کر وہاں پانی کی مستقل پیمائش کا بندوبست کیا جا سکتا ہے اور اس سے متعلق صوبائی محکموں کو دیگر احکامات بھی جاری کیے جا سکتے ہیں۔

آرڈیننس نے یہ جھگڑا بھی پیشگی ہی طے کر دیا ہے کہ اگر کسی بھی اور محکمے کا ڈیٹا اس کے ڈیٹا سے مختلف ہوا تو کیا ہو گا اور وہ بھی غیر مبہم، دو ٹوک انداز میں۔

نئے قانون کے مطابق کسی بھی اختلاف کی صورت میں ارسا کے ڈیٹا کو ہی درست مانا جائے گا۔

تو اختلافی صورت حال میں گواہ اور جج دونوں کا کردار ارسا ہی ادا کرے گا۔

بلکہ معاملہ اس سے بھی ایک قدم آگے جاتا ہوا لگتا ہے کیونکہ اختلاف کی صورت میں اپیل بھی چیئرمین کے سامنے ہی کرنا ہو گی۔

ثبوت بھی خود، منصف بھی خود

ارسا ایکٹ 1992ء کے مطابق ادارے کو اپنے تمام فیصلے ممبران کی اکثریت کی رائے کی بنیاد پر کرنے ہوتے ہیں  اور ووٹوں کی برابری کی صورت میں چیئرمین کو کاسٹنگ (حتمی) ووٹ دیا گیا ہے۔

البتہ آرڈیننس میں دئیے گئے ارسا کے نئے ڈھانچے میں چیئرمین کو ممبر کی حیثیت حاصل نہیں اس لیے اس کا کاسٹنگ ووٹ ختم کر دیا گیا ہے۔

ساتھ ہی ممبران کے درمیان کسی بھی اختلافی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ایک نیا انتظام متعارف کروایا گیا ہے جس کے تحت ممبران اپنا اختلاف چیئرمین کو پیش کریں گے جو آزاد ماہرین کی کمیٹی کی تجاویز کی روشنی میں اس پر فیصلہ صادر کرے گا جسے ماسوائے مشترکہ مفادات کونسل کے کسی بھی عدالت یا فورم پر چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔

مئی 2022ء میں سندھ ہائی کورٹ نے آب پاشی کے بحران سے متعلق ایک درخواست کو سماعت کے لیے منظور کیا تھا جس میں ارسا کو فریق بنایا گیا تھا۔ آرڈیننس کے بعد ایسا ممکن نہیں رہے گا۔

آئین کے مطابق مشترکہ مفادات کونسل کو 90 روز میں ایک بار ملنا چاہیے لیکن عملاً ایسا نہیں ہوتا رہا ہے۔ 2020ء میں کونسل کے دو اجلاس ہوئے تھے، 2021ء میں پانچ اور اگلے دو سالوں کے دوران کونسل بس دو بار ہی ملی۔

یوں ارسا آرڈیننس آب پاشی کے تنازعات میں نہ صرف چیئرمین کو بہت زیادہ باختیار بنا رہا ہے بلکہ ان کے حل کے لیے دیگر اداروں تک رسائی کو بھی مشکل بنانا چاہتا ہے۔

دریاوں کی تزویراتی گہرائی میں ایک غوطہ

یہ بات تو واضح ہو چکی ہے کہ ارسا کو دریاوں کا مختار کل بنانے کے اقدام کو فریقین چپ چاپ تسلیم نہیں کریں گے اور اس کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ظفر محمود کی بطور چیئرمین تقرری کی کھلی مخالفت نے اس بات کو تقویت دی ہے۔
تو کیا آرڈیننس کے خالقوں نے اس مزاحمت سے نمٹنے کا بھی کوئی بندوبست کیا ہے؟

آرڈیننس کی کچھ شقوں کو اس تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔

اس کی ایک شق کے مطابق ارسا کے ممبران سادہ اکثریت سے کسی بھی مقام یا تنصیب کو تزویراتی (سٹریٹیجک) قرار دینے کا فیصلہ کر سکتا ہے اور پھر چیئرمین اس کی حفاظت کے لیے وفاقی حکومت کے ذریعے مسلح افواج یا قانون نافذ کرنے والے کسی بھی ادارے کو طلب اور تعنیات کر سکتا ہے۔

ارسا کے کل پانچ ممبران ہیں اور اس نوعیت کا فیصلہ کرنے کے لیے ان میں تین کی حمایت درکار ہو گی۔ یعنی یہ ممکن ہے کہ وفاق اور دو صوبے مل کر دیگر دو صوبوں کے پانی کے نظام کے کسی بھی حصے کو سٹریٹیجک قرار دے دیں اور پھر چیئرمین صاحب وہاں دستوں کو تعینات کروا دیں۔ پانی کے معاملات میں مسلحہ اداروں کو اس طرح ملوث کرنا وفاق کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

آرڈیننس کی چند اور شقیں بھی ایسی ہیں جو ارسا کو پانیوں کا منتظم اور صلح کار کی بجائے پانی پر لڑی جانے والی 'نئی جنگوں' کے میدان میں بدل سکتیں ہیں۔

ان میں سے ایک نئی شق ارسا کو حکومتی اور کارپوریٹ اداروں کے ساتھ کمرشل کنٹریکٹ اور لین دین کرنے کا اختیار دیتی ہے اور ایک دوسری اسے ضرورت کے مطابق فیس، چارجز اور ٹیکس (سیس) لگانے کا اختیار سونپتی ہے۔

<p>گرافکس: حمزہ ثاقب</p>

گرافکس: حمزہ ثاقب

ان دونوں کو ملا کر دیکھا جائے تو اس بات کی قانونی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے کہ ارسا کارپوریٹ اداروں (بشمول زرعی کارپوریٹ فارمز) کے ساتھ پانی بیچنے کے معاہدے کرے اور اگر یہ ادارے غیر ملکی سرمایہ کاری کی زمرے میں آ رہے ہوں تو انہیں سٹریٹیجک قرار دے کر مسلح افواج کو ان کی حفاظت پر مامور بھی کر دے۔

تاریخ اشاعت 22 مارچ 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

عبداللہ لوک سُجاگ کے لیے انتخابات، گورننس اور انسانی حقوق کے حوالے سے رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

کوئٹہ شہر کی سڑکوں پر چوہے بلی کا کھیل کون کھیل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

شاہ زیب رضا
thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.