میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے

postImg

احتشام احمد شامی

postImg

میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے

احتشام احمد شامی

خالد سعید بٹ گوجرانوالہ میں مکان بنا کر فروخت کرتے ہیں جو عام طور پر پانچ، سات اور 10 مرلہ زمین پر مشتمل ہوتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ تین یا چار مکانوں کی تعمیر بیک وقت شروع کرتے ہیں جس سے انہیں تعمیراتی سامان وغیرہ کی خریداری میں خاصی بچت ہو جاتی ہے۔

تاہم وہ آج کل پریشان ہیں کہتے ہیں کہ وہ پہلے سال میں 10 سے 12 مکان بنا کر بیچ لیتے تھے مگر اب صورتحال مختلف ہے۔ جو لوگ پہلے 10 مرلےکا گھر خریدنا چاہتے تھے وہ اب پانچ مرلے سے اوپر کی سکت ہی نہیں رکھتے۔

خالد سعید کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ دو سالوں کے دوران ڈالر کی قیمت کے ساتھ تعمیراتی سامان کی قیمت بے تحاشا بڑھ گئی ہے جس سے گھر مہنگے ہو گئے ہیں جبکہ عام آدمی کی قوت خرید اتنی نہیں بڑھی اس صورت حال میں مکان بیچنا مشکل ہو گیا ہے۔

پانچ برسوں میں تعمیراتی مٹیریل کی قیمت میں 200 فیصد تک اضافہ

2017ء سے 2019ء تک وسطی پنجاب کے اضلاع میں اینٹوں، سیمنٹ، سریا، بجری اور ریت کی قیمتوں میں معمولی کمی بیشی ہوتی رہی اور اول درجے کی اینٹیں آٹھ ہزار 200 روپے فی ہزار، سیمنٹ 490 روپے کی بوری، سریا 91 روپے کلو، بجری 65 روپے فٹ اور ریت
28  روپے فٹ فروخت ہوتی رہی، مستری 1400 روپے اور مزدور 800 روپے دیہاڑی یا ایک دن کی اجرت لیتا رہا۔

سال 2020ء اور 2021ء کے دوران تعمیراتی میٹریل کی قیمتوں میں اچانک اضافہ ہو گیا اور اول درجے کی اینٹ 12500 روپے فی ایک ہزار، سیمنٹ کی بوری 730 روپے، سریا 165 روپے کلو، بجری 105 روپے فٹ اور ریت 40 روپے فٹ ہو گئی۔ مستری نے روزانہ کی اجرت 1500 سے 1600 روپے اور مزدور نے 1000 سے 1200 روپے لینا شروع کر دی۔

2022ء سے فروری 2024ء تک اول درجے کی اینٹ 18500 روپے میں ایک ہزار فروخت کی جا رہی ہے، سیمنٹ کی فی بوری قیمت 1190 روپے ہو چکی ہے، سریا 270 روپے کلو، بجری 145 روپے فٹ اور ریت 60 روپے فٹ میں فروخت کی جا رہی ہے۔

یہی نہیں، ان دنوں گوجرانوالہ اور اردگرد  کے اضلاع میں مستری دو ہزار روپے سے 2200 روپے اور مزدور 1300 سے 1500 روپے دیہاڑی اجرت وصول کر رہے ہیں۔

 انہوں نے بتایا کہ پچھلے پانچ سال کے دوران سریا، اینٹ، سیمنٹ، ریت، بجری، ٹائلز، سینیٹری فٹنگز، باتھ روم اسیسریز، بجلی کے سامان، سٹیل و پلاسٹک پائپ اور لکڑی سمیت ہر قسم کے تعمیراتی سامان کی قیمت میں 100 سے 200 فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے۔

سٹیٹ بینک آف پاکستان نے 2019ء کی ایک  رپورٹ میں ورلڈ بینک  کے حوالے سے بتایا تھا  کہ پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد مکانات کی کمی ہے جس کا سامنا کم اور درمیانی آمدنی والے طبقات کر رہے ہیں۔

تاہم پالیسی انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس ان اعدادوشمار سے اتفاق نہیں کرتا۔ ادارے کے مطابق پاکستان میں گھر' ناکافی' تو ہو سکتے ہیں لیکن "10 ملین گھروں کی قلت" والی بات درست نہیں لگتی۔ "گھروں کی تعداد میں کمی نہیں ہے البتہ رہائشی معیار میں کمی ضرور ہے"۔

بہر حال معاملہ 'مکانوں کی قلت' کا ہو یا 'بہتر رہائشی سہولیات 'کا لوگ اپنا گھر بنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔  

نعمان خان گوجرانوالہ کے علاقے باغبانپورہ کے رہائشی ہیں جنہیں والد کی وفات کے بعد وراثت میں سے حصہ ملا تو انہوں نے پانچ مرلہ کا ایک پلاٹ خرید لیا تھا۔ دو سال پہلے وہ اپنے مکان کی تعمیر شروع کرنے لگے تو دوستوں نے مشورہ دیا کہ بجٹ تک رک جائیں کیونکہ انہیں لگ رہا تھا کہ تعمیراتی سامان کی قیمتیں کم ہو جائیں گی۔

وہ بتاتے ہیں کہ  توقع کے برعکس تعمیراتی میٹیریل مہنگا ہونا شروع ہو گیا اور دیکھتے ہی دیکھتےدو سالوں میں قیمتیں اتنی بڑھ چکی ہیں کہ جو پیسے انہوں نے مکان کی تعمیر کے لیے رکھے تھےان سے تو اب شاید ڈھانچہ ہی  مشکل سےکھڑا ہو گا۔

" اپنے گھر کا میرا برسوں پرانا خواب فی الحال پورا ہوتا نظر نہیں آ رہا اور یوں لگتا ہے جیسے زندگی کرائے کے مکان میں ہی  گزرے گی۔ وسائل پاس ہونے کے باوجود مکان نہ بنا کر بڑی غلطی کی ہے جس پر اب پچھتا رہا ہوں"۔

خالد سعید کے مطابق 2017ء سے 2019ء تک گھر کی درمیانے درجے کی تعمیر (بمع میٹیریل) کا فی مربع فٹ ریٹ ایک ہزار 600 روپے سے دو ہزار روپے تھا یعنی پانچ مرلے کا ڈبل سٹوری گھر 40 سے 45 لاکھ روپے میں تیار ہو جاتا تھا۔

لیکن 2021ءکے آخر تک فی مربع فٹ کنسٹرکشن ریٹ ڈھائی ہزار تک جا پہنچا جس سے  پانچ مرلے کا گھر کی لاگت لگ بھگ 65 لاکھ روپے ہوگئی۔ اب اسی تعمیر کی لاگت ساڑھے تین ہزار روپے فی مربع فٹ ہو چکی ہے جو 87 لاکھ سے زائد میں پڑتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ پانچ مرلے کی گھر کی تعمیر میں اب اگر سارا میٹیریل اے کلاس استعمال کیا جائے تو چار ہزار روپے فی مربع فٹ لاگت آئے گی جو  ایک کروڑ روپے میں مکمل ہو گا اور اس میں پلاٹ کی قیمت شامل نہیں ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ قیمت میں ہوشربا اضافے کے باوجود سیمنٹ کی مانگ میں کمی نہیں آئی۔

 سیمنٹ ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے صدر خواجہ الیاس کا دعویٰ ہے کہ لوگ گھر بھی بنا رہے ہیں اور کمرشل پلازے بھی۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ تین سالوں کے دوران سیمنٹ  100 فیصد سے زائد مہنگا ہونے کے باوجود اس کی ڈیمانڈ کم نہیں ہوئی۔

وہ کہتے ہیں کہ نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز میں تعمیرات زیادہ ہو رہی ہیں جس کے پاس چار پیسے آتے ہیں وہ سب سے پہلے اپنا مکان بنانے کا سوچتا ہے۔ خاص طور پر ہر اوورسیز پاکستانی چاہتا ہے کہ پاکستان میں ان کی فیملی کا اچھا گھر ہو۔

  گوجرانوالہ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے) کے شعبہ ٹائون پلاننگ کے اعداد و شمار معمولی کمی کے ساتھ خواجہ الیاس کے دعوے کی تصدیق کرتے ہیں۔

گوجرانوالہ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے سٹیٹ آفیسر مرزا بابر کے مطابق جی ڈی اے کی حدود میں یکم جولائی 2017ء سے جون 2020ء تک تین سال تین ہزار 159گھروں اور 217 کمرشل عمارتوں کی تعمیر کے لیے نقشے جمع کرائے گئے تھے۔ جولائی 2020ء سے دسمبر 2023ء تک ساڑھے تین سال کے دوران تین ہزار17 گھروں اور 222 کمرشل عمارتوں کے نقشہ جات جمع کرائے گئے ہیں۔

گوجرانوالہ میں تعمیراتی شعبے سے وابستہ ڈویلپر میاں ادیب بتاتے ہیں کہ  کم اور درمیانی آمدنی والا طبقے کے ساتھ چھوٹے گھر بنانے والے کاروباری بھی پریشان ہیں کیونکہ کنال کا گھر تو وہ بنائے گا جس کی جیب میں پانچ چھ کروڑ روپیہ ہوگا جبکہ چھوٹے گھر بنانا بھی مشکل  ہو چکا ہے۔

کنگنی والا کی ٹائلز و سینیٹری مارکیٹ کے رہنما بلال جاوید بٹ بتاتے ہیں کہ کچھ مہینوں پہلے ٹائلز، سینٹری، باتھ روم اسسریز کی قیمتوں نے تو دکانداروں کو بھی چکرا کر رکھ دیا تھا۔

" گاہک کو ایک چیز کی قیمت ایک دن سو روپے بتائی جاتی تھی اور دس دنوں کے بعد اسی چیز کی قیمت سوا یا ڈیڑھ سو بتاتے تھے تو وہ دکاندار کو چور ہی کہے گا۔ حالانکہ قیمتیں فیکٹریوں سے بڑھتی ہیں"۔

گوجرانوالہ چیمبر آف کامرس کے صدر شیخ فیصل ایوب تعمیراتی لاگت میں اضافے کا ذمہ دار  تعمیراتی میٹریل بنانے والی کمپنیوں اور حکومت کو قرار دیتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ سریے اور سیمنٹ کی قیمتیں سب سے زیادہ پریشان کن ہیں جن میں سے سٹیل پر حکومت نے ساڑھے 17 فیصد سیلز ٹیکس کے ساتھ درآمدی (ریگولیٹری) ڈیوٹی بھی لگا دی جس سے سریا روز مہنگا ہو رہا ہے اور یہی حال سیمنٹ کی قیمتوں کا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ جہاں تک ٹائلز، اسسریز و دیگر سامان کا تعلق ہے تو تعمیراتی سرگرمیاں بڑھنے سے میٹیریل کی طلب میں اضافہ ہوا جس سے کمپنیوں کی فروخت اور منافع بھی بڑھا۔ لیکن کمپنوں نے قیمتیں بڑھا کر مزید منافع کمانا شروع کر دیا ہے اور کوئی حکومتی ادارہ انہیں کنٹرول نہیں کر پا رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت بھی برابر کی ذمہ دار ہے کیونکہ جب درآمدی میٹیریل پر کسٹمز  اور ریگولیٹری ڈیوٹی کے ساتھ سیلز ٹیکس بھی لیا جائے گا تو چیزون کی قیمتیں زیادہ بڑھیں گی۔

مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ پر نظر رکھنے والے اقبال مرزا دو عشروں سے چیمبر آف کامرس کی مختلف کمیٹیوں میں کام کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کہ دو سال میں ڈالر ریٹ نے ملکی کرنسی کا دیوالیہ نکال دیا ہے جس سے سینٹری، کیبلز، سرامکس اور بجلی کے سامان تک ہر درآمد ہونے والی چیز مہنگی ہو گئی ہے۔
 
باتھ روم اسیسریز کا اول درجے کا سیٹ تین سال پہلے 25 ہزار  اور درمیانے درجے کا 15 ہزار روپے میں مل جاتا تھا لیکن اب اول در جے کا سیٹ 50 ہزار روپے جبکہ درمیانے درجے کا سیٹ 25 سے 30 ہزار روپے میں مل رہا ہے کیونکہ ان میں استعمال ہونے والا پلاسٹک، سلور اور تانبا امپورٹ کیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے جن کے بغیر سرامکس، سینیٹری، الیکٹرک اشیا  تیار ہی نہیں ہو سکتیں۔ جب ملک میں مجموعی طور پر مہنگائی کی لہر آئی تو لیبر کے ریٹ بھی بڑھ گئے۔

اس سلسلے میں سیمنٹ مینو فیکچرز ایسوسی ایشن کے ترجمان کہتے ہیں کہ سیمنٹ کی قیمتوں میں اضافے کے کئی عوامل ہیں جن سے سیمنٹ کے کاروبار کو بھی چیلنجز درپیش ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

حیدر آباد میں زرعی اراضی پر پھیلتی ہاوسنگ سکیمیں، بلڈرز نے کاشت کاروں کی زندگی اجیرن کر دی

ایسوسی ایشن کی ویب سائٹ کے مطابق کرنسی کی تیزی سے گراوٹ، پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ سیمنٹ مہنگا ہونے کی بڑی وجوہات ہیں۔ جن سے نہ صرف  پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے بلکہ ٹرانسپورٹیشن بھی مہنگی ہو گئی ہے اور یقیناً اس سے صارفین متاثر ہو رہے ہیں۔

شرح سود نے گھر بنا مزید مشکل بنا دیا

بینک اور ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن (ایچ بی ایف سی)  کے لون (قرض) سے بھی اب مکان بنانا ممکن نہیں رہا مارک اپ بہت زیادہ ہے۔

عرفان علی محکمہ لوکل گورنمنٹ میں گریڈ 14 کے ملازم ہیں جو اپنا گھر بنانے کے لیے قرض لینے کی غرض سے ایچ بی ایف سی کے دفتر آئے ہوئے تھے۔ ان کے پاس پانچ مرلے کا پلاٹ موجود ہے جس پر دو منزلہ گھر کی تعمیر کے لیے انہوں نے ایچ بی ایف سی سے قرضہ اپلائی کیا ہے۔

 وہ بتاتے ہیں کہ ایک تو ایچ بی ایف سی کا طریقہ کار بہت پیچیدہ اور طویل ہے۔ وہ مرحلہ طے ہونے کے بعد انہیں کہا گیا ہے کہ پلاٹ کا ادارے کے نام انتقال  کرائے بغیر پہلا چیک نہیں ملے گا۔  دوسرا ایچ بی ایف سی جو رقم آفر کر رہا ہےاس سے تو سنگل سٹوری کا گرے سٹرکچر بھی مکمل نہیں ہو گا۔

"پانچ مرلے کے گھر کے لیے مجھے 15 لاکھ روپے  قرض دے رہے ہیں جبکہ مجھے 20 سال میں 40 لاکھ روپے واپس کرنا ہوں گے۔ اس لیے سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کروں"۔

 ڈاکٹر فضل الہٰی نے پانچ سال پہلے سوئی گیس روڈ پر پانچ مرلے کا مکان 55 لاکھ روپے میں خریدا تھا جس کے لیے انہوں نے ایک بینک سے 30 لاکھ روپے قرض لیا تھا۔

وہ بھی اپنے فیصلے پر خوش نہیں ہیں بتاتے ہیں کہ بینک 30 لاکھ سے زیادہ رقم دینے کو تیار نہیں تھا جس پر باقی رقم کے لیے انہوں نے اہلیہ کے زیور بیچے، ایک کمیٹی ڈالی اور  کچھ دوستوں سےادھار لیا تب کہیں رقم پوری ہوئی۔۔

"ہماری کوشش تھی کہ پہلے وعدے کے مطابق دوستوں کا ادھار  چکا دیا جائے لیکن اسی دوران بینک کے نوٹس  آنے شروع ہو ئے تو میں نے قسط بھی دینا شروع کر دی۔ لیکن اب پانچ سال بعد پتا چلا کہ فی الحال ہمارا مارک اپ ہی چل رہا ہے یعنی ساڑھے چار لاکھ روپے ادا کر کے بھی 30 لاکھ باقی ہیں"۔

بلڈر میاں ادیب کہتے ہیں کہ مسئلہ گھروں کی قلت کا ہو یا بہتر رہائشی سہولیات کا، دونوں صورتوں میں اس کا حل یہی ہے کہ حکومت کی زیر نگرانی فلیٹس بنا کر لوگوں کو قسطوں پر دیے جائیں اور بڑے گھروں کے کلچر کی حوصلہ شکنی کی جائے۔

تاریخ اشاعت 29 فروری 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

احتشام احمد شامی کا تعلق وسطی پنجاب کے شہر گوجرانوالہ سے ہے۔ لوک سُجاگ کے علاؤہ وہ بین الاقوامی اداروں کے ساتھ بطور فری لانس کام کرتے ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.