ملتان میں برف بنانے کے بیسیوں کارخانے بند، سیکڑوں دیہاڑی دار مزدور بے روزگار ہو گئے

postImg

شہزاد عمران خان

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

ملتان میں برف بنانے کے بیسیوں کارخانے بند، سیکڑوں دیہاڑی دار مزدور بے روزگار ہو گئے

شہزاد عمران خان

loop

انگریزی میں پڑھیں

بیس سالہ محمد اویس ملتان کے علاقے سجان پور کی آئس فیکٹری میں تین سال سے مزدوری کر رہے ہیں۔ ان کے والد نشے کے عادی ہونے کے باعث کوئی کام نہیں کرتے۔ انہوں نے ساتویں جماعت میں تعلیم چھوڑ کر محنت مزدوری شروع کر دی تھی۔ چند سال میں اس فیکٹری میں مستقل روز گار مل گیا۔ آمدنی بڑھانے کے لیے وہ اوور ٹائم بھی لگانے لگے جس سے ان کی معاشی مشکلات قدرے کم ہو گئیں۔

پھر ایک دن فیکٹری مالک نے ان سے کہا کہ اس کے لیے لاکھوں روپے بجلی کے بل ادا کرنا ممکن نہیں اس لیے فیکٹری بند کی جا رہی ہے اور تمام کارکن اپنے روزگار کا بندوبست کر لیں۔

اب یہ فیکٹری گزشتہ چار ماہ سے بند ہے۔ اویس نے آم کے باغ میں دو ماہ رکھوالی اور دیکھ بھال کا کام کیا اور جب آم کا موسم ختم ہوا تو ان کا یہ روزگار بھی ختم ہو گیا۔ اب ان کا گھرانہ ایک بار پھر شدید مالی مشکلات سے دوچار ہے۔

ملتان کی آئس فیکٹریز یونین کے جوائنٹ سیکرٹری چوہدری عامر کے مطابق ان کا خاندان کئی عشروں سے برف بنانے اور فروخت کرنے کے کاروبار سے وابستہ ہے۔ ایک وقت تھا جب اس کاروبار سے جڑے لوگ بہت خوش حال سمجھے جاتے تھے مگر گزشتہ کچھ عرصے سے انہیں بدحالی نے آ لیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ملتان میں کبھی برف کے 70 سے زیادہ کارخانے تھے جن میں سے 40 سے زیادہ اب بند ہوچکے ہیں جس کی وجہ مہنگی بجلی ہے۔

ان کا کہنا ہےکہ ایسے ایک کارخانے میں اوسطاً 50 مزدور کام کرتے تھے اور اس طرح تقریباً دو ہزار مزدور بے روزگار ہو گئے ہیں۔

جہانگیر آباد کے شہزاد چھ برس سے بہاولپور بائی پاس پر آئس فیکٹری میں کام کر کے اپنے خاندان کی کفالت کر رہے تھے۔ اس فیکٹری میں 12 گھنٹے کی ایک شفٹ کے دوران 24 کارکن ملازم تھے۔

شہزاد بتاتے ہیں کہ کارخانے سے ملنے والی اجرت سے ضروریات زندگی پوری ہو جاتی تھیں۔ مگر اب فیکٹری مالکان نے کارکنوں کی تعداد کم کر دی ہے جس سے ان سمیت بہت سے مزدوروں کا روزگار ختم ہو گیا ہے۔

"پہلے فیکٹری 24 گھنٹے چلتی تھی۔ بجلی مہنگی ہونے کے سبب اب مالکان نے ایک شفٹ میں فیکٹری چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ فریج خریدنے کی استطاعت نہ رکھنے والے لوگ برف خانے کی برف استعمال کرتے ہیں۔ لیکن فیکٹریاں بند ہونے سے غریبوں کے لیے برف کا حصول بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔"

انہوں نے بتایا کہ وہ گھر کے آٹھ افراد کی کفالت کرتے ہیں۔ بے روز گار ہونے کے بعد وہ مزدوری کی تلاش میں شہر بھر کی خاک چھانتے رہتے ہیں۔ کبھی مزدوری مل جاتی ہے تو کبھی خالی ہاتھ گھر لوٹنا پڑتا ہے۔

میاں محمد ثاقب گزشتہ 30 برس سے این ایل سی بائی پاس پر واقع آئس فیکٹری میں ملازمت کرتے ہیں۔ وہ آئس فیکٹریز ورکرز یونین کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ ان ان کا کہنا ہے کہ کارخانہ مالکان کہتے ہیں کہ پہلے بجلی کا جو بل 30 سے 35 لاکھ روپے آتا تھا اب وہی 50 لاکھ روپے سے زیادہ آتا ہے۔ برف فروخت ہو چکی ہوتی ہے ارو دو ماہ کے بعد اس پر استعمال ہونے والی بجلی پر لاکھوں روپے بطور فیول ایڈجسٹمنٹ شامل کر دیے جاتے ہیں جو کہ ناانصافی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

'مہنگی بجلی کاروبار کھا گئی'، ملتان میں چلتی پاور لومز کوڑیوں کے مول کباڑ میں بکنے لگیں

"مالکان کو مجبوراً اپنا کوئی اثاثہ فروخت کرنا پڑتا ہے تاکہ بجلی کے بل جمع کروا سکیں۔ حکومت بے شک فلور ملز کی طرح سبسڈی نہ دے مگر بجلی کی قیمتوں میں تو استحکام لائے۔"

ان کا کہنا ہے کہ ایک کارخانے کو سولر پر منتقل کرنے کے لیے کم وبیش چار کروڑ درکار ہیں جس کا بندوبست کرنا کارخانہ دار کے لیے ممکن نہیں۔

یونین کے صدر شاہد عزیز نے بتایا کہ کئی فیکٹری مالکان میپکو کے لاکھوں روپے کے بقایاجات چھوڑ کے فرار ہو جاتے ہیں جن سے دیگر فیکٹری مالکان کے لیے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت سے فیکٹریوں کے ذمے انفرادی طور پر پچاس لاکھ روپے تک کا بل واجب الادا ہے۔ جو فیکٹری مالکان بل ادا نہیں کر سکتے ان کی فیکٹریاں بند ہوتی جا رہی ہے اور اگر یہی صورتحال جاری رہی تو شہر سے اس صنعت کا خاتمہ ہو جائے گا جس میں سب سے زیادہ نقصان مزدور طبقے کا ہونا ہے۔

تاریخ اشاعت 30 ستمبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

thumb
سٹوری

قبائلی اضلاع میں بائیو گیس پلانٹس ماحول اور جنگلات کو بچانے میں کتنے مدد گار ہو سکتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

مصباح الدین اتمانی

بجلی ہو نہ ہو چکیاں چلتی رہتی ہیں

thumb
سٹوری

میانوالی کی خواتین صحافی: 'شٹل کاک برقعے میں رپورٹنگ کے لیے نکلتی ہوں تو سرکاری اہلکار مجھے ان پڑھ سمجھتے ہیں یا پھر مشکوک'

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

دریائے سندھ کے قدرتی بہاؤ کے حق میں کراچی کے طلبا کا مارچ

thumb
سٹوری

کھیت مزدور عورتوں کے شب و روز: 'میں نے حمل کے آخری مہینوں میں بھی کبھی کام نہیں چھوڑا، اور کوئی چارہ بھی تو نہیں'

arrow

مزید پڑھیں

عثمان سعید

دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے خلاف دریا میں احتجاجی مشاعرہ

thumb
سٹوری

سندھ: سرکاری ورکنگ ویمن ہاسٹلز پر سرکاری اداروں کا قبضہ کون سی سرکار چھڑوائے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

عمر کوٹ میں قومی نشست پر ضمنی الیکشن سے متعلق پانچ اہم حقائق

arrow

مزید پڑھیں

User Faceجی آر جونیجو

خاموش واپسی یا زبردستی اخراج؟ افغان پناہ گزینوں کی حقیقی کہانیاں

سندھ: کینیڈا سے سائنس سمجھانے آیا محمد نواز سومرو

thumb
سٹوری

طویل لوڈ شیڈنگ سے دنیا کی چھٹی بڑی سولر مارکیٹ بننے کا سفر: کیا نئی پالیسی سے 'سولر سونامی' تھم جائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

سجاگ رپورٹ
thumb
سٹوری

انصاف کی راہ میں گھات لگائے راہزن: اپنی جان لینے والے نیسلے ملازم کی کہانی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceامین وارثی
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.