"وہ ہمارے ہاتھ پاؤں باندھ کر اندھا دھند لاٹھیاں برسا رہے تھے یوں لگتا تھا کی جیسے ہم تشدد سے ہی مر جائیں گے لیکن زندگی باقی تھی۔ تاہم لرزا دینے والی وہ رات مجھے کبھی نہیں بھولے گی۔"
یہ کہنا ہے ضلع حافظ آباد کے رہائشی شکیل سرویا کا جو کچھ ہفتے قبل اغوا کاروں کے چنگل سے رہائی پا کر گھر لوٹے ہیں۔ تاہم ان کے زخم ابھی تک نہیں بھرے اور نہ ہی وہ اس ٹراما (صدمے) سے نکل پائے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ پاشا نامی ایک ایجنٹ نے انہیں کہا کہ وہ انہیں یورپ بھجوا سکتے ہیں، ایران اور عراق میں زیارتیں بھی کرائیں گے۔ پھر عراق سے انہیں لیبیا بھجوا دیا جائے گا جہاں سے وہ کشتی کے ذریعے اٹلی میں داخل ہو جائیں گے۔
"ایجنٹ نے بتایا کہ ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا کیونکہ ہر ماہ سیکڑوں لوگ اسی روٹ سے اٹلی پہنچ رہے ہیں۔ ہم تین دوستوں کے ساتھ لیبیا تک پہنچانے کا معاملہ گیارہ گیارہ لاکھ روپے میں طے ہوا۔ وہاں سے کشتی اور اٹلی کے ساحل تک کا ممکنہ خرچہ تین ہزار ڈالر فی کس بتایا گیا۔"
"ایجنٹ مجھے، وقار اور نبی احمد کو کوئٹہ سے ایران لے گیا جہاں رقم وصولی کے بعد ہماری ملاقات کچھ لوگوں سے کرائی گئی کہ وہ سفر میں ہمارے ساتھ ہوں گے لیکن اس دوران ہمیں پتا ہی نہ چلا کہ ایجنٹ کب ہمیں ان کے ہاتھوں بیچ کر جا چکا تھا۔"
شکیل سرویا کے مطابق ان تینوں کو ویران علاقے کے ایک گھر میں لے جا کر بند کر دیا گیا جہاں ان پر بے رحمانہ تشدد کیا گیا جس کی ویڈیوز ان کے والدین کو واٹس ایپ کر کے رقم طلب کی جاتی تھی۔
ایک رات شاید انہیں یقین ہو گیا کہ ہم غریب لوگ ہیں اور انہیں زیادہ رقم نہیں ملے گی جس پر انہوں نے اتنا مارا کہ ہم بے ہوش ہو گئے۔ اگلی صبح انہوں نے ہمیں گھسیٹ کر گاڑی میں ڈالا اور چل پڑے۔ مگر راستے میں ناکہ دیکھ کر واپس مڑنے لگے تو پولیس نے تعاقب شروع کر دیا جس پر اغوا کاروں نے ہمیں چلتی گاڑی سے باہر پھنک دیا اور فرار ہو گئے۔"
انہوں نے بتایا کہ ایرانی پولیس نے انہیں قریبی ہسپتال پہنچایا۔ چار پانچ روز بعد جب وہ بولنے کے قابل ہوئے تو پولیس نے بیانات لیے اور انہیں ایرانی بارڈر سکیورٹی فورس کے حوالے کر دیا جنہوں نے پاکستانی اہلکاروں کی تحویل میں دے دیا۔
شکیل کا کہنا تھا کہ اگر اس روز ایرانی پولیس کا ناکہ نہ ہوتا تو شاید وہ آج زندہ نہ ہوتے یا پھر ابھی تک تشدد کا نشانہ بن رہے ہوتے۔
انٹرنیشنل سنٹر فار مائیگریشن پالیسی ڈیویلپمٹ (آئی سی ایم پی ڈی) کی رپورٹ 2024ء بتاتی ہے کہ اندازاً ایک کروڑ دس لاکھ سے زیادہ (اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن یہ تعداد تقریباً 90 لاکھ بتاتی ہے) پاکستانی مختلف ممالک میں کام کرتے ہیں۔
پچھلے سال تقریباً پانچ لاکھ 40 ہزار پاکستانی روزگار کے لیے بیرون ملک چلے گئے جن میں سعودی عرب، امارات، عمان، قطر ودیگر ممالک شامل ہیں۔ان کے علاوہ پورپی ملک بھی پاکستانیوں کی اہم منزل تھے جہاں قانونی ہجرت کے چینلز کی سخت شرائط کے باعث اکثر صرف 'بے قاعدگی' سے ہی پہنچا جا سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2023ء میں غیر قانونی طور پر یورپی سرحد عبور کرنے والوں میں پاکستانیوں کا دسواں نمبر تھا جس کی وجہ کمزور ملکی معیشت، اجرتوں میں کمی، غربت میں اضافہ، مہنگائی اور سیلاب بتائے گئے ہیں۔
تارکین وطن پر نظر رکھنے والے ادارے مکس مائیگریشن سنٹر(ایم ایم سی) اور یورپی سرحدی و ساحلی محافظوں کے ادارے فرنٹیکس کے اعداد و شمار تصدیق کرتے ہیں کہ گزشتہ سال پاکستان سے یورپ جانے والوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا۔
ایم ایم سی نے یو این ایچ سی آر کے حوالے سے بتایا ہے کہ 2023ء کی پہلی ششماہی میں بحیرہ روم کے غیرقانونی راستے سے یورپی سرحدوں تک پہنچنے والے پاکستانیوں کی تعداد پانچ ہزار 342 تھی، اس لحاظ سے پاکستان دنیا میں پانچویں نمبر پر رہا تھا۔
اگرچہ لیبیا، ترکیے کی سرحدوں، بحیرہ روم میں فشنگ ٹرالرز اور ساحلوں سے انسانی سمگلروں کے تارکین وطن پر تشدد و استحصال کے واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں تاہم اب 'ڈنکی لگانے' کے پر نام اغوا برائے تاوان کی واداتیں تسلسل کے ساتھ ہو رہی ہیں۔
گوجرانوالہ کے نواحی گاؤں آدھو رائے کے رہائشی کامران اور عبد الخالق بھی ایسی ہی صورتحال کا شکار ہوچکے ہیں جنہیں نادر نامی ایجنٹ نے اپنے جال میں پھنسا لیا تھا۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق دونوں لڑکوں کو یونان پہنچانے کے لیے چھ چھ لاکھ روپے طے پائے جن میں سے ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ ایڈوانس، ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ ایرانی بارڈر کراس کرنے کے بعد جبکہ تین تین لاکھ ترکیے یا یونان پہنچ کر ادا کیے جانے تھے۔
ایجنٹ نادر ایڈوانس وصول کرکے کامران اور عبد الخالق کو کوئٹہ کے راستے ایران لے گئے جہاں انہوں نے مزید ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ روپے مانگے تو دونوں لڑکوں نے اپنے گھر فون کیے اور ایجنٹ کے والد کو رقم ادا کردی گئی۔
ایجنٹ نے لڑکوں کو ترکیے سے پہلے ہی ایران ہی میں جرائم پیشہ گروہ کے ہاتھوں فروخت کردیا اور خود غائب ہو گئے۔ اغوا کار لڑکوں پر روزانہ غیر انسانی تشدد کر کے انہیں گھروں سے رقم منگوانے پر مجبور کرتے۔
اس دوران متاثرین کے لواحقین نے ایف آئی اے سے رابطہ کیا جس پر حکام نے ایرانی اداروں سے بات کی اور انہیں ملزمان کا ڈیٹا فراہم کیا۔ ایرانی حکام نے موبائل فون کی لوکیشن سے مغویوں کو ٹریس کیا اور انہیں بحفاظت بازیاب کرا لیا مگر ملزم فرار ہو گئے۔
انسانی حقوق کی کارکن اور وکیل شکیلہ سلیم رانا انسانی سمگلنگ کے مقدمات کی پیروی کرتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ رواں سال جنوری اور فروری میں یورپ جانے کے جھانسے میں انسانی سمگلرز کے ہاتھوں اغوا اور تشدد کے تین واقعات ان کے علم میں آئے ہیں جن میں والدین نے اپنے بچوں کی زندگی خطرے میں دیکھ کر آواز بھی نہیں اٹھائی۔
وہ کہتی ہیں کہ نوجوانوں کو ایران اور لیبیا لے جا کر بھیڑ بکریوں کی طرح بیچ دیا جاتا ہے۔ یہ واقعات مسلسل بڑھ رہے ہیں مگر حکومت کوئی نوٹس نہیں لے رہی۔ ایف آئی اے کو ملزمان کی گرفتاری کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔"
انسانی سمگلنگ کا ایرانی نیٹ ورک توڑنے کا دعویٰ
ریجنل ڈائریکٹر ایف آئی اے ساجد اکرم نے لوک سُجاگ سے گفتگو میں دعویٰ کیا ہے کہ ایران سے آپریٹ کیے جانے والے نیٹ ورک کو توڑ دیا گیا ہے۔ ایف آئی اے نے نو جوانوں کے اغوا میں ملوث گینگ کے چار ارکان کو حال ہی میں گرفتار کر لیا ہے جبکہ ایک ملزم ایران میں پکڑا گیا ہے جہاں دو مغوی بھی بازیاب ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
'پہلے اپنے بیٹے کو ملک سے باہر بھجوانے کے لیے ڈھائی لاکھ روپے دئیے، اب اس کی میت وطن واپس منگوانے کے لیے ساڑھے تین لاکھ روپے'
وہ بتاتے ہیں کہ انسانی سمگلنگ کا مذکورہ نیٹ ورک حافظ آباد ، گجرات، گوجرانوالہ اور منڈی بہاوالدین اور کچھ دیگر علاقوں پھیلا ہوا ہے۔ اس گینگ کے چار ارکان امین سہیل، محمد عابد ، عابد حسین اور محمد سرور کو گجرات اور حافظ آباد سے حراست میں لیا گیا ہے۔
ایف آئی اے کے مطابق یہ گروہ تین نوجوانوں کو عراق میں ملازمت کا جھانسہ دے کر لے گیا اور انہیں ایران میں انسانی سمگلروں کے ہاتھوں بیچ دیا۔ گینگ نے نوجوانوں پر بری طرح تشدد کیا اور ویڈیوز ان کے گھر بھیج کر رہائی کے بدلے پندرہ ہزار ڈالر (تقریباً 42 لاکھ روپے) کا مطالبہ کر دیا۔
اطلاع پر ایف آئی اے کمپوزٹ سرکل گجرات نے ایران میں اپنے لنک آفس سے رابطہ کیا۔ ان سے اغوا کاروں کا ڈیٹا، فون سِم اور واٹس ایپ نمبرز کی تفصیلات وغیرہ اور مغویوں کی تصاویر شیئر کیں۔ جس پر ایرانی ادارے نے دو مغویوں کو بازیاب کرا لیا جبکہ تیسرے کی بازیابی کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
اس کارروائی میں حافظ آباد کے رہائشی فیصل اور انور بازیاب ہوئے جو ایف آئی اے لنک آفس ایران کی تحویل میں ہیں جبکہ طلحہ نامی سمگلر کو گرفتار کیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق اس نیٹ ورک کے دیگر ارکان اور سہولت کاروں کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
تاریخ اشاعت 16 مارچ 2024