شکرگڑھ کے محمد عنایت پچھلے پانچ سال سے کباڑ کا کاروبار کر رہے ہیں۔ انہوں نے ایک دکان بنا رکھی ہے جہاں وہ کاغذ، پلاسٹک اور لوہے تانبے کا پرانا سامان خریدتے ہیں۔ انہیں بیچنے والے یہ سامان گلیوں محلوں سے خریدتے یا جمع کرتے ہیں۔
عنایت بتاتے ہیں کہ پلاسٹک کے کباڑ میں ہسپتالوں سے نکلنے والی خالی بوتلیں (ڈرپس) اور انفیوژن سیٹ بھی بڑی مقدار میں شامل ہوتے ہیں۔ یہ طبی فضلہ انہیں ہسپتالوں میں کام کرنے والے افراد سو روپے کلو کے حساب سے بیچ کر جاتے ہیں۔
عنایت کے مطابق وہ کاغذ، لوہا اور تانبا وغیرہ چھانٹنے کے بعد اپنی دکان پر ہی بیچ دیتے ہیں جبکہ پلاسٹک کے کچرے سے بھرا ٹرک لاہور کی ایک فیکٹری کو بھجوا دیتے ہیں۔ عنایت کے مطابق وہاں اس پلاسٹک سے برتن، کھلونے اور دیگر چیزیں بنائی جاتی ہیں۔
ڈاکٹر عبدالحق نارووال میں پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کے صدر ہیں۔ ان کا کہنا ہےکہ طبی فضلہ کئی مراحل سے گزر کر ری سائیکلنگ کے مرحلے تک پہنچتا ہے اور اس عمل میں جتنے بھی لوگ شامل ہوتے ہیں وہ سب اس فضلے میں موجود انفیکشن (مختلف بیماریوں کے جراثیموں) سے متاثر ہو سکتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق طبی فضلے کا 85 فیصد حصہ عام کوڑے کی طرح جبکہ باقی پندرہ فیصد خاص طور پر'خطرناک' ہوتا ہے جو ہیپاٹائٹس بی، ہپاٹائٹس سی، ایڈز اور متعدی بیماریاں پھیلنے کا سبب بن سکتا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے ہسپتالوں میں اوسطاً روزانہ فی بیڈ نصف کلو خطرناک فضلہ پیدا ہوتا ہے جبکہ پسماندہ یا ترقی پذیر ممالک میں یہ مقدار 0.2 کلو ہوتی ہے۔ چونکہ اکثر ان ممالک میں طبی فضلے کی درجہ بندی نہیں کی جاتی اس لئے اس میں خطرناک فضلے کی حقیقی مقدار کہیں زیادہ ہوتی ہے۔
وزارت ماحولیات کا کہنا ہے کہ ملک کے بڑے ہسپتالوں میں اوسطاً روزانہ دو کلو فی بیڈ کچرا پیدا ہوتا ہے جس میں نصف کلو طبی فضلہ ہوتا ہے جبکہ آؤٹ ڈور میں آنے والے مریضوں کا طبی فضلہ اس کے علاوہ ہے۔
محکمہ ماحولیات کی رہنما ہدایت کے مطابق ہسپتالوں، لیبارٹریوں اور زچگی مراکز سے علاج، آپریشن اور تشخیصی معائنوں کے دوران نکلنے والے تمام مواد کو طبی فضلہ کہا جاتا ہے۔
طبی فضلے کو تین اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلے درجے میں مریضوں کا خون، پیشاب، آلائشیں اور جسم کے حصے شامل ہوتے ہیں۔ یہ فضلہ 'خطرناک اور متعدی امراض' پھیلانے کا سبب بنتا ہے۔
دوسری قسم تیز دھار آلات، جراحی دستانوں، سرنجوں، بلیڈ اور تابکاری مواد پر مشتمل ہے۔ یہ فضلہ بھی پہلی قسم کی طرح ہی 'خطرناک'ہوتا ہے۔
تیسری قسم میں ادویات کے ڈبے، شیشیاں، خالی بوتلیں، زائدالمیعاد ادویات اور غیر جراحی آلات وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ پہلی دونوں اقسام کے فضلے کو انسینیریٹر(طبی فضلے کو 1400 ڈگری درجہ حرارت پر جلانے والی مخصوص بھٹی) کے ذریعے تلف کرنا ضروری ہے جبکہ تیسری قسم کو عام گھریلو فضلے کی طرح ٹھکانے لگایا جاسکتا ہے۔
محکمہ ماحولیات نے محکمہ ہیلتھ کیئر پنجاب کے ذریعے طبی فضلہ ٹھکانے لگانے کا باضابطہ طریقہ کار (سٹIنڈرڈ آپریٹو پروسیجرز) طے کر رکھا ہے اور تمام ہسپتالوں کو اس طریقہ کار(ایس او پیز) پر عمل کا پابند کیا گیا ہے۔
ایس او پیز کے مطابق تمام ہسپتال طبی فضلے کی درجہ بندی کریں گے۔ خطرناک فضلے کو ایک کمرے (جس کو ییلو روم کہا جاتا ہے) میں عارضی طور پر محفوظ کریں گے اور طے شدہ طریقہ کار کے مطابق اسے تلف کرائیں گے۔ ہرہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈیٹ (ایم ایس) اور نجی ہسپتال کی صورت میں چیف ایگزیکٹو یا ٹھیکیدار کو اس کام پر عملدرآمد کا نگران مقرر کیا گیا ہے۔
لیکن اکثر اوقات ایس او پیز پر عمل نہیں کیا جاتا اور طبی فضلہ کباڑ میں بیچ دیا جاتا ہے یا کوڑے میں پھینک دیا جاتا ہے۔ محکمہ صحت اور ماحولیات کے حکام بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کرتے۔
ضلع نارووال کے سرکاری ہسپتالوں میں ڈسٹرکٹ کوارٹر ہسپتال (جو تین سو بستروں پر مشتمل ہے) دو تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں (ان میں ایک 80 بستروں پر مشتمل ہے) سات دیہی مراکز صحت (140بستر)، 57 بنیادی مراکز صحت (144بستر)، چار میونسپل ہسپتال اورسو سے زیادہ ڈسپنسریاں (دس بستر) شامل ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے کم از کم عالمی معیار کے مطابق ضلع نارووال کے ساڑھے سات سو بستروں پر مشتمل سرکاری ہسپتالوں کا طبی فضلہ 150 کلو روزانہ بنتا ہے مگر اس بارے میں کوئی ریکارڈ موجود نہیں کہ اس میں سے کتنا فضلہ ضابطے کے مطابق جلا دیا جاتا ہے۔
30 سالہ محمد آصف تین سال سے شکر گڑھ کے تحصیل ہیڈ کوارٹر(ہسپتال کی ویسٹ منیجمنٹ ٹیم کا حصہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے ہسپتال میں تین اقسام کی 72 ٹوکریاں موجود ہیں جن میں مختلف قسم کا فضلہ جمع کیا جاتا ہے اور اسے ییلو روم میں رکھ دیا جاتا ہے۔
"ہمارے ہسپتال میں روزانہ دو کلو طبی فضلہ پیدا ہوتا ہے اور شام کو آوٹ سورس کمپنی کی گاڑی اسے انسینیریٹر میں لے جاتی ہے جہاں اسے تلف کر دیا جاتا ہے لیکن بعض اوقات ہسپتال میں پیلی ٹوکری کا فضلہ لال یا سفید ٹوکری میں ڈال دیا جاتا ہے اور اکثر یہ فضلہ چوری بھی ہوجاتا ہے"
ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر ڈاکٹر زاہد رندھاوا کا دعویٰ ہے کہ ڈی ایچ کیو کے ییلو روم میں ویسٹ ناپ تول کر رکھا جاتا ہے تاہم انہوں نے فضلہ چوری ہونے کا امکان مسترد نہیں کیا۔
وہ کہتے ہیں کہ نارووال سے آٹھ کلو میٹر دورایک انسینیٹر موجود ہے جہاں سرکاری ہسپتالوں کا فضلہ تلف کرکے راکھ زیر زمین دبا دی جاتی ہے۔
"بنیادی مراکز صحت میں فضلے کو دبانے کے لیے ہم نے گڑھے بنا رکھے ہیں تاہم ان کا ویسٹ بہت کم ہوتا ہے اگر ہم انہیں اکٹھا کرنے لگ جائیں تو اس کام پر بھاری اخراجات آئیں گے۔ فضلہ کم ہونے کی وجہ سے یہ گڑھے ختم بھی ہوجاتے ہیں"۔
ضلع میں 57 نجی ہسپتال اور100 کے لگ بھگ كلینک بھی موجود ہیں۔
پی ایم اے کے صدر بتاتے ہیں کہ ضلعے میں دو انسینیریٹر ہیں جن مں سے ایک سرکاری ہسپتالوں کے لیے ہے جبکہ دوسرا نجی ہسپتال استعمال کرتے تھے۔ اس کی سالانہ رجسڑیشن 50,000 روپے میں ہوتی ہے اور وہاں طبی فضلہ جلانے کے 50 روپے فی کلو وصول کیےجاتے تھے۔ تاہم یہ انسینیریٹر دو سال سے بند پڑا ہے اور سرکاری انسینیٹر میں نجی ہسپتالوں کا طبی فضلہ قبول نہیں کیا جاتا۔
اس مسئلے پر نارووال کے ڈپٹی کمشنر چوہدری محمد اشرف وضاحت کرتے ہیں کہ سرکاری ہسپتالوں کا طبی فضلہ بنیادی مرکز صحت پیجووالی میں ایک آوٹ سورس کمپنی کے انسینیرٹر میں جلایا جاتا ہے۔
"ہم نے نجی شعبے کو پیشکش کی ہے کہ وہ بھی اس سہولت سے فائدہ اٹھائے جبکہ بہت جلد دوسرے انسینیریٹر کو بھی کچھ عرصے میں آبادی سے باہر منتقل کر دیا جائے گا"
یہ بھی پڑھیں
لاہور میں پیدا ہونے والا ہزاروں ٹن کچرا: 'اس کوڑے کو سنبھالنے کے لئے مؤثر قانون اور مناسب پالیسی موجود نہیں'۔
ماحولیاتی مسائل پر کام کرنے والے ادارے پاکستان کلائمیٹ ایکشن کے شریک بانی داوڑ بٹ کہتے ہیں کہ پاکستان میں طبی فضلے کی جلائی گئی مقدار کا کبھی مطالعہ (سٹڈی) ہوا نہ ہی کوئی ریکارڈ رکھا گیا ہے۔ اکثر نجی ہسپتال اور چھوٹے كلینك طبی فضلہ جلانے کے بجائے ادھر ادھر پھینک دیتے ہیں۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹرماحولیات محمد اشرف تسلیم کرتے ہیں کہ ایسا بھی ممکن ہےکہ کوئی ہسپتال اپنا فضلہ میونسپل کمیٹی کو دے جس کی گاڑی اسے کچرا پوائنٹ پر پھینک دے۔
وہ کہتے ہیں کہ کباڑ خانوں میں ڈرپ، سرنج یا ہسپتال کے فضلے سے متعلقہ کوئی چیز موجود ہونا جرم ہے۔
"ہم نے اپریل اور مئی میں گیارہ لوگوں پر مقدمے کیے ہیں اور اس سلسلے میں زیادہ کارروائی کباڑیوں کیخلاف کی گئی ہے۔ تاہم کبھی کسی ہسپتال پر ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔ اگر ہمیں کسی نجی ہسپتال کی کوئی شکایت موصول ہوئی تو اس کے خلاف بھی ایکشن لیں گے"۔
داوڑ بٹ کا کہنا تھا کہ طبی فضلے کو زمین میں دبانا خطرناک ہے جبکہ موزوں طریقہ اس کو جلانا ہے، اس سے فضائی آلودگی تو پھیلتی ہے مگر جدید ٹیکنالوجی سے آلودگی کو کم بھی کیا جا سکتا ہے۔
وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ کباڑ خانوں اور فیکٹریوں میں طبی فضلے کی ری سائیکل کے خطرناک کاروبار کو روکنا ہو گا۔
تاریخ اشاعت 19 جولائی 2023