خیبر پختونخوا کا ضلع کوہستان ایک بار پھر خبروں کی زد میں ہے۔ یہاں 'نام نہاد غیرت' کے نام پر قتل کا ایک اور سنگین واقعہ ہوا ہے۔ بائیس فروری کو برپارو گاؤں میں ایک لڑکی اور لڑکے کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا جس کے بعد مبینہ طور لڑکے کی لاش کے کلہاڑی سے ٹکڑے کر دیے گئے۔
تھانہ کوز پارو میں درج ایف آئی آر کے مطابق 22 فروری کو پولیس کو اطلاع ملی کہ علاقہ برپارو میں ایک عورت اور مرد کو قتل کردیا گیا ہے۔ جب پولیس پہنچی تو عبیداللہ عرف کوکو ولد مولوی حکیم خان اور بلو بی بی دختر انجیل کی لاشیں خون میں لت پت پڑی تھیں۔
پولیس ذرائع کے مطابق لڑکے کی لاش گھر کے قریب برف پر پڑی تھی جبکہ لڑکی کی لاش گھر سے برآمد کی گئی۔
اس بے رحمانہ قتل کا مقدمہ ایس ایچ او تھانہ کوز پارو محمد جاوید کی مدعیت میں درج کیا گیا جس میں مقتولہ کے دو بھائیوں محمد اسلام، شیر باز اور ان کے والد انجیل کو ملزم نامزد کیا گیا اور وجہ عناد ناجائز تعلقات بتائی گئی ہے۔
ایس ایچ او تصدیق کرتے ہیں کہ واقعہ غیرت کے نام پر قتل کا ہے۔ جس میں گھٹو شراکوٹ گاؤں کے رہائشی عبیداللہ برپارو میں بلو بی بی سے ملنے گئے تھے جہاں مبینہ طور پر لڑکی کے والد انجیل اور بھائی محمد اسلام نے دونوں کو ہلاک کر دیا۔
محمد سلیمان (فرضی نام) شراکوٹ کے رہائشی اور مقتول کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس واقعے میں پولیس نے غفلت کا مظاہرہ کیا کیونکہ ملزمان نے لڑکے کو پہلے گھر کے ایک کمرے میں بند کیا اور رشتہ داروں کو جمع کرنے لگے تو مقتول نے موقع ملنے پر پولیس کو اطلاع کر دی تھی۔ لیکن پولیس بر وقت نہیں پہنچی اور دونوں ہلاک کر دیے گئے۔
دہرے قتل کی اس وادات سے متعلق ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر کولئی پالس کوہستان حسین احمد بتاتے ہیں کہ تینوں ملزمان گرفتار ہیں اور ا ن کو بدھ کو پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا گیا ہے۔
وہ اتفاق کرتے ہیں کہ یہاں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے مگر وہ اس کی بڑی وجہ موبائل فون کو سمجھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ خواتین کے غیر مرد سے بات کرنے کو کوہستان میں انتہائی نا پسند کیا جاتا ہے جس پر ایسے واقعات پیش آتے ہیں۔
ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر کے بقول قتل کے اس طرح کے مقدمات میں ایف آئی آر کمزور ہوتی ہے اور گواہ کوئی بنتا نہیں۔ علاقے کے بیشتر لوگوں کی ہمدردیاں ملزموں سے ہوتی ہیں اور وہ انہیں سزا ملنے کے حق میں نہیں ہوتے جس کی وجہ سے ان مقدمات میں لوگ بری ہوجاتے ہیں۔
ملک کے اس دور افتادہ ضلع کولئی پالس کوہستان میں پچھلے چار ماہ کے دوران تین وارداتوں میں تین انسانی جانیں ضائع کی جا چکی ہیں۔ جبکہ ایک لڑکی قتل کے منصوبے کا پتہ چلنے پر اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو گئی جو کوہستان میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔
خیبر پختونخوا کا شمالی ضلع کولئی پالس کوہستان 'غیرت کے نام پر قتل' کے حوالے سے 2012ء میں خبروں میں آیا تھا جب یہاں لڑکوں کے ڈانس کرنے اور لڑکیوں کی تالی بجاتے ویڈیو وائرل ہوئی تو چاروں لڑکیوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔
بعدا ازاں یہ معاملہ میڈیا اور عدالت میں لے جانے والے افضل کوہستانی کے تین بھائی اور وہ خود بھی دن دیہاڑے ایبٹ آباد میں قتل کر دیے گئے تھے جس کے بعد یہ کیس دم توڑ چکا ہے۔ جبکہ اس ویڈیو میں نظر آنے والے دو بھائی آج تک کہیں روپوشی کی زندگی جی رہے ہیں۔
تھانہ پالس کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پچھلے اکتوبر میں پالس میں ایک لڑکی کو فون پر بات کرتے دیکھ کر مبینہ طور پر ان کے خاندان نے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ لڑکی کی جان بچانے میں وہاں کی خواتین نے مدد کی اور وہ گھر سے نکل کر پولیس چیک پوسٹ پالس پر پہنچ گئی تھیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ لڑکی کے پیچھے لوگ بھی آئے تھے مگر پو لیس لڑکی کو محفوظ طریقے سے پہلے تھانے اور پھر عدالت پیش کرنے میں کامیاب ہو گئی جہاں سے عدالت نے انہیں دارلامان بھیج دیا۔
مذکورہ اہلکار نے قتل کے دوسرے واقعے کے حوالے سے بتایا کہ کسی نے مبینہ طور پر ایک لڑکی کی لڑکوں کے ساتھ تصاویر فوٹ شاپ کرکے فیس بک پر ڈال دیں جو واضح طور پر ذاتی رنج کا معاملہ لگ رہا تھا۔ تاہم لڑکی کے خاندان نے جرگہ کیا اور لڑکی کو قتل کردیا گیا جبکہ لڑکے کو قتل کرنے کا فیصلہ بھی کیا تاہم پولیس نے ملزمان گرفتار کرکے جیل بھجوا دیئے۔
کوہستان ویڈیو سکینڈل میں افضل کوہستانی کا ساتھ دینے والی اُس وقت کے عدالتی کمیشن کی سربراہ فرزانہ باری نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ان علاقوں میں بنیادی طور پر ریاست موجود ہی نہیں جبکہ جوڈیشل سسٹم کمزور ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے اور افضل کوہستانی نے ویڈیو سکینڈل میں ہر ممکن کردار ادا کیا جس سے کوہستان میں کسی حد تک غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں کمی آئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں
لوئر کوہستان: غیرت کے نام پر بچے اور خاتون سمیت تین افراد قتل
فرزانہ باری کا کہنا تھا کہ آٹھ افراد کو قتل کرنے والے ملزمان کچھ سال پہلے رہا کردیے گئے جس سے دوبارہ سے اُس علاقے میں پیغام گیا کہ کچھ بھی ہوجائے ان مجرموں کو سزائیں نہیں ہوسکتیں جس سے کوہستان میں یہ لوگ روایت پر ہی چلتے رہیں گے۔
"کیونکہ مجرم کچھ عرصے کے بعد ہی جیل سے باہر آجاتے ہیں اور وہ اپنے خلاف بات کرنے والے لوگوں کو بھی مارنے کی کوشش میں ہوتے ہیں جیسا کہ افضل کوہستانی کے ساتھ ہوا۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ ہمارے جوڈیشل سسٹم کی کمزوری کی وجہ سے دوبارہ سے ان علاقوں میں تیزی سے ان واقعات میں اضافہ ہوا ہے"۔
ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ اور قانون دان ایمان مزاری نے لوک سجاگ کو بتایا کہ غیرت کے نام پر قتل جیسے واقعات کو روکنے کے لیے قوانین میں ترامیم کے ساتھ ریاست کو باقاعدہ پارٹی بن کر مقتولین کوانصاف دینا ہو گا۔ مقتولین کو انصاف اور مجرمان کو سزائیں ملنے سے ہی ان واقعات میں کمی ممکن ہے۔
وہ بتاتی ہے کہ قانون پر عملدرآمد کے ساتھ معاشرے میں ذہنوں کو بدلنے کی ضرورت ہے کیونکہ کسی انسان کی جان لینا کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے اور یہ شعور اجاگر کرنے کی بھی سخت ضرورت ہے۔
ہومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں صرف ایک سال یعنی 2022ء میں 103 افراد کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔
ایچ آر سی پی کے چیئر پرسن اسد اقبال بٹ مطالبہ کرتے ہیں کہ ریاستی ادارے کوہستان میں غیرت کے نام پر قتل کے بڑھتے واقعات روکنے اور ملزمان کو سزائیں دلوانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
تاریخ اشاعت 1 مارچ 2024