حضرو میں پڑھو پنجاب، بڑھو پنجاب کا نعرہ بے اثر: کالجوں میں طلبہ کی تعداد میں غیرمعمولی کمی

postImg

امجد یوسف زئی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

حضرو میں پڑھو پنجاب، بڑھو پنجاب کا نعرہ بے اثر: کالجوں میں طلبہ کی تعداد میں غیرمعمولی کمی

امجد یوسف زئی

loop

انگریزی میں پڑھیں

حضرو کے گورنمنٹ بوائز شجاع خانزادہ ڈگری کالج میں گزشتہ برس 1800 طالب علم زیر تعلیم تھے مگر اب ان کی تعداد گھٹ کر محض دو سو رہ گئی ہے۔ کالج میں بیالوجی، کیمسٹری، اکنامکس اور انگریزی سمیت متعدد اہم مضامین کے استاد میسر نہیں۔ اساتذہ  کی کمی کے سبب ان دنوں  کالج میں ڈگری سطح کی کلاسز نہیں ہو رہیں۔ کالج کے پرنسپل بھی چند ماہ قبل ریٹائر ہو گئے تھے جس کے بعد پہلے سے تعینات  ایک استاد کو عارضی طور پر کالج کے پرنسپل کا چارج دے دیا گیا۔

کالج کےطالب علم دانش علی نے بتایا کہ گزشتہ تعلیمی سال کے دوران سات لیکچررز کے علاوہ بڑی تعداد میں کالج ٹرینی انسٹرکٹر (سی ٹی آئی) بھی موجود تھے۔ اسے دیکھتے ہوئے بڑی تعداد میں طلبا نے کالج میں داخلہ لیا تاہم گزشتہ سال کے آخر میں ان انسٹرکٹرز کا کنٹریکٹ ختم ہو گیا اور وہ کالج  سے چلے گئے جبکہ چار لیکچررز نے اپنا تبادلہ کرا لیا۔ لہٰذا تین اساتذہ سے نہ تو نصاب پورا ہو رہا تھا اور نہ ہی بہت سے مضامین کی پڑھائی ہو رہی تھی۔

انہوں نے کہا کہ  کالج چھوڑنے والے وہ طلبا جو نجی کالجوں کی بھاری فیسیں ادا نہیں کر پائے وہ کھیتی باڑی یا دوسرے کام کر رہے ہیں۔

کالج کے ایک اور طالب علم محب اللہ نے بتایا کہ ان کے پاس روزانہ اٹک جانے کے اخراجات نہیں اور نہ ہی ان کے والدین نجی کالجوں کی بھاری فیسیں ادا کر سکتے ہیں چنانچہ انہوں نے تعلیم کو خیرباد کہہ کر والد کی دکان میں ان کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا ہے۔

لڑکیوں کے ڈگری کالج میں 22 لیکچررز کی سیٹیں خالی ہیں جہاں صرف آرٹس کے مضامین کی کلاسیں ہوتی ہیں جس میں نسبتاً کم لڑکیاں داخلہ لیتی ہیں۔

اس ضمن میں ڈائریکٹر کالجز اٹک ارشد خان نے بتایا کہ پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے پچھلے سال حضرو کے کالجوں کے لیے مرد اور خواتین لیکچررز کی تعیناتی کی گئی تھی۔ تاہم تحصیل حضرو یا ضلع اٹک سے کوئی بھی لیکچرار میرٹ پر پورانہیں اترا اور پنجاب کے دیگر علاقوں کے مرد و خواتین کامیاب ہوئے۔ ان میں سے بعض  نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے  اور چند نے ویڈ لاک جیسی پالیسی کے تحت اپنے آبائی علاقوں میں تبادلے کروا لیے۔ محکمہ تعلیم نے صوبائی حکومت کی اجازت سے کالج ٹرینی انسٹرکٹر بھی تعینات کیے تاہم ستمبر 2022ء میں فنڈ ختم ہونے کے سبب ان کے کنٹریکٹ میں توسیع نہ ہو سکی۔

ارشد خان کے مطابق  ڈگری سطح کی کلاسوں کے لیے پوسٹ گریجوایٹ کالج اٹک میں اچھے انتظامات ہیں اور حضرو میں رہنے والوں کے لیے  وہاں داخلہ لینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ اساتذہ کی کمی کے بارے میں اعلیٰ حکومتی اور تعلیمی انتظامی افسروں کو آگاہ کر دیا گیا ہے اور صوبائی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بھرتی کا عمل مکمل ہونے پر ان کالجوں کے لیے لیکچرر دستیاب ہوں گے۔

حضرو میں ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسر ایجوکیشن محمد افسر نے بتایا کہ پرائمری سکولوں میں پرائیویٹ  اساتذہ تعینات کر کے معلمین کی کمی کو پورا کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں مخیر حضرات اور سماجی تنظیموں کا بہت عمل دخل ہے۔ اپنی مدد آپ کے تحت سکولوں میں فرنیچر کی فراہمی کے علاوہ کمروں کی تعمیر بھی کی گئی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تحصیل حضرو میں 22 ہزار 884 طلبہ و طالبات جماعت اول میں زیر تعلیم ہیں جبکہ دہم  کے طلبا و طالبات کی تعداد 18 ہزار 179 ہے۔ بارہویں میں یہ تعداد گھٹ کر صرف ایک ہزار 888 رہ جاتی ہے۔

ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو ملک محسن عباس نے حضرو میں طلبا و طالبات کے  سرکاری سکول چھوڑنے کی بڑی وجہ اساتذہ کی کمی کو قرار دیا۔

ان کا ماننا ہے کہ پرائمری سکول کے اساتذہ کی آخری مرتبہ بھرتی 2018ء میں ہوئی۔ اس کے بعد کئی اساتذہ  نےبہتر ملازمت ملنے پر اسے چھوڑ دیا، کئی ترقی پا کر ہائی سکولوں میں تعینات ہو گئے اور متعدد اپنے گھر کے نزدیک سکولوں میں تبادلہ کروا چکے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ تحصیل حضرو میں پرائمری ٹیچرز کی 829 منظور شدہ نشستیں ہیں لیکن اس میں 314 خالی ہیں۔ اسی طرح ایلیمنٹری سائنس ٹیچرز کی  592  میں سے 58 سیٹین خالی ہیں۔ سینئر سائنس ٹیچر کی 14 اور سبجیکٹ سپیشلسٹ کی 51 نشستیں پُر نہیں ہوئیں۔ ہیڈ ماسٹر/  پرنسپل کی 35 پوسٹیوں پر تعیناتی نہیں ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

تھرپارکر کا گرلز کالج: یہاں صرف فزکس، زوآلوجی، انگریزی، ریاضی، اردو، اسلامیات، سندھی اور مطالعہ پاکستان کے استاد نہیں ہیں

سابق ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر چنگیز خان کا تعلق حضرو سے ہے اور وہ سابق حکومت میں وزیراعلیٰ کے شکایات سیل کے وائس چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سابقہ دور حکومت میں انہوں نے محکمہ تعلیم سے لے کر محکمہ بلڈنگ تک اور ڈپٹی کمشنر دفتر سے لے کر وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ تک کالج کے مسائل اجاگر اور حل کرنے کی کوشش کی۔ دسمبر 2022ء میں راولپنڈی ڈویژن کے سپرنٹنڈنٹ انجینئر خالد حفیظ سے ملاقات میں چھ ماہ سے گری ہوئی کالج کی دیوار تعمیر کرنے کے لیے فنڈز جاری کرنے کی استدعا کی البتہ ان سب مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات نہ اٹھائے گئے۔

حضرو سے تعلق رکھنے والے سابق مشیر ماحولیات امین اسلم سابقہ دور حکومت میں سابق وزیراعظم عمران خان کے بہت قریب جانے جاتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ کبھی فنڈز کی کمی اور کبھی بھرتی پر پابندی کے باعث وہ اپنے علاقے کے کالج کے مسائل حل نہ کر سکے ۔ ان کے مطابق مخالفت کے باوجود انہوں نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر چار لیکچررز کا تبادلہ ان کے آبائی علاقوں میں کروایا۔

کالج کی عمارت اور دیوار کی مرمت کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ان کی ہدایت پر صوبائی حکومت نے اس کا پی سی ون منظور  کر لیا تھا تا ہم ان کی حکومت ختم ہونے کے بعد انہیں علم نہیں کہ اس معاملے کا کیا بنا۔

تاریخ اشاعت 13 ستمبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

امجد یوسف زئی کا تعلق تاریخی شہر ٹیکسلا سے ہے ۔ گزشتہ 15 سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔

thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

بلوچستان: بجلی نہ ملی تو لاکھوں کے باغات کوڑیوں میں جائیں گے

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں چھوٹے پن بجلی منصوبوں کے ساتھ کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.