1988 میں کوئٹہ کی ترقی کے لئے ایک ماسٹر پلان بنایا گیا تھا جس کے تحت شہر کے نواحی علاقے ہزار گنجی میں ایک کمرشل زون کی تعمیر بھی عمل میں آنا تھی۔ یہ ایک لمبا چوڑا منصوبہ تھا جس کا مقصد شہر میں ٹریفک کے دباؤ اور ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنا تھا۔ تاہم آج 35 سال گزرنے کے باوجود یہ منصوبہ مکمل نہیں ہو سکا۔
اس منصوبے کے لئے بلوچستان حکومت نے 1988 میں ہی 604 ایکڑ اراضی مختص کر دی تھی جس میں سے 463 ایکڑ پر جون 1991 میں کام کا آغاز ہو گیا۔ اُس وقت کوئٹہ کی آبادی چار لاکھ 30 ہزار تھی جو اب 26 لاکھ سے بڑھ چکی ہے۔ یہ منصوبہ مستقبل میں بڑی آبادی کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا تھا۔ اس کے کئی حصے تھے جنہیں بتدریج 20 سال میں مکمل ہونا تھا مگر اب جبکہ اس کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی ہے تو اس کی تکمیل کا دور دور تک کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔
کیو ڈی اے کے چیف انجینئر سلیمان طاہر خان کے مطابق ہزار گنجی کمرشل زون کی تعمیر پر 29 کروڑ 8 لاکھ روپے لاگت آنا تھی۔ زون میں 36 ایکڑ رقبہ پھل وسبزی منڈی، 68 ایکڑ بس سٹینڈز، 47 ایکڑ ٹرک اڈے، 81 ایکڑ آٹو مارکیٹ اور ورک شاپس اور17 ایکڑ رقبہ باردانہ وغلہ منڈی کے لیے دیا گیا۔
27 ایکڑ اراضی پر ڈرائی فروٹ مارکیٹ، 46 ایکڑ پر بزنس سنٹر، چار ایکڑ پر منی ٹرک سٹینڈ اور 141 ایکڑ پرایک ہاؤسنگ سکیم (شالکوٹ ہاوسنگ) کی تعمیر ہونا تھی۔
سلیمان طاہر بتاتے ہیں کہ آٹو مارکیٹ اور ورکشاپس کے سوا متذکرہ بالا تمام کاروباری سرگرمیاں ہزار گنجی منتقل ہو چکی ہیں۔البتہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ حکومتی وانتظامی عدم توجہی کے باعث منصوبے کے بعض حصوں پر کام مکمل نہیں ہوسکا۔
تاہم تین دہائیوں سے یہاں کاروبار کرنے والے ہزار گنجی کی مرکزی انجمن تاجران کے صدر سید عبدالخالق آغا چیف انجینئر کے دعوے کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ کمرشل زون بنانے کے مقاصد پورے نہیں ہو سکے۔ بسوں اور منی ویگن کے اڈے آج بھی شہر کے وسط میں ہیں۔کراچی بس ٹرمینل، بزنس سنٹر اور شالکوٹ ہاؤسنگ سکیم پر کام ہونا باقی ہے۔ ٹرک اڈہ، سبزی وفروٹ منڈی جون 1998ء میں ہی یہاں منتقل کر دیے گئے تھے لیکن وہاں مسائل ناصرف برقرار ہیں بلکہ بڑھتے جا رہے ہیں۔
شیر علی یہاں پھل اورسبزی منڈی میں کاروبار کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہزار گنجی میں افغانستان اور ایران سے بھی مال آتا ہے اور ملک بھر میں سپلائی ہوتا ہے۔ منڈی میں روازنہ دو ہزار سے زیادہ گاڑیاں آتی جاتی ہیں۔ تاہم یہاں نیلامی کی جگہ پر مناسب شیڈ نہ ہونے سے پھل اور سبزیاں خراب ہوجاتی ہیں۔
"سات سو فٹ کے نیلامی پلیٹ فارم پر ماشہ خوروں (پرچون فروشوں) کا قبضہ ہے۔نتیجتاً پھل وسبزیاں کھلی جگہوں اتارنا پڑتی ہیں۔ ماشہ خوروں کو فیز ٹو میں 23 ایکڑ رقبے پر 866 پلاٹ الاٹ کئے جا چکے ہیں لیکن اس کے باوجود پلیٹ فارم پر ان کا قبضہ برقرار ہے۔
تاجر رہنما سید عبدالخالق آغا کہتے ہیں کہ ہزار گنجی سے کیو ڈی اے کو صرف پلاٹ ٹرانسفر فیس کی مد میں ہی سالانہ 31کروڑ 68 لاکھ روپے سے زیادہ آمدنی ہوتی ہے۔ بزنس سنٹر، گیراجوں اور شالکوٹ ہاوسنگ سکیم کے پلاٹوں پر غیرفعال فنڈ کے نام پر بھی کم از کم تین لاکھ ملتے ہیں۔ محکمہ زراعت کو سبزی منڈی سے سالانہ ساڑھے پانچ کروڑ کے علاوہ نیلامی سے 20لاکھ روپے وصول ہوتے ہیں۔ مگر کوئی محکمہ مسائل کو حل کرنے پر توجہ نہیں دیتا۔
کیو ڈی اے کے ڈائریکٹر اسٹیٹ سید انور شاہ اس منصوبے کی تکمیل میں تاخیر کا ذمہ دار الاٹیوں کو سمجھتے ہیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ جن لوگوں کو اس منصوبے میں زمین الاٹ کی گئی تھی انہوں نے 1990ءکے بعد کوئی قسط جمع نہیں کرائی۔ ایسے میں ترقیاتی کام کیسے ہو گا؟ کیو ڈی اے کی گورننگ باڈی نے فیصلہ کیا ہےکہ جن الاٹیوں کی آدھی قسطیں جمع نہیں ہوئیں ان کے پلاٹ منسوخ کئے جائیں گے۔ تاجر اقساط ادا کریں تو شالکوٹ ہاؤسنگ سکیم میں کام کرنے کے لیے انہیں این او سی جاری کر دیے جائیں گے۔ کراچی کوئٹہ بس ٹرمینل کے ٹرانسپورٹروں کو پلاٹوں کے لیے دوبارہ آفر لیٹر جاری کیاگیا ہے مگر اس کا کوئی جواب نہیں ملا۔
تاہم عبدالخالق آغا ڈائریکٹر اسٹیٹ کی بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہزار گنجی زون میں کُل آٹھ ہزار 21 پلاٹ تھے جبکہ تاجر حضرات کراچی بس ٹرمینل کے سوا تمام قسطیں ادا کر چکے ہیں۔
کوئٹہ کراچی کوچز یونین کے صدر میر حکمت علی لہڑی کے بقول بس کمپنیاں اڈے کی زمین کی قسطوں کی ادائیگی کے لیے تیار ہیں۔ لیکن کیو ڈی اے انہیں ویرانے میں پھینکنے کے لیے تمام رقم نقد مانگ رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہزارگنجی ٹرمینل پر پانی ہے نہ بجلی۔ اگر بنیادی سہولتیں میسر ہوں تو ایک ہی دن میں بسیں اس ٹرمینل پر منتقل کی جا سکتی ہیں لیکن خالی میدان میں مسافروں کو مشکلات میں ڈالنے کا کوئی فائدہ نہیں۔"
یہ بھی پڑھیں
نارووال کا ویمن اینڈ چلڈرن پارک: 'اپنی نوعیت کا ایک منفرد منصوبہ جو سیاست کی نذر ہو گیا'
ڈرائی فروٹ ایسوسی ایشن کے صدر حمد اللہ خان ترین کہتے ہیں کہ کمرشل زون میں خشک میوہ جات کے کاروبارکے لیے بزنس سنٹر بھی بنایا جانا تھا۔ اس جگہ کے لئے رقم کی ادائیگی کے بعد انہیں ورک آرڈر جاری کر دیا گیا۔ ابھی کام شروع نہیں ہوا تھا کہ چند پلاٹوں پر بعض لوگوں نے قبضہ کر لیا جو تاحال برقرار ہے۔
ڈائریکٹر اسٹیٹ انور شاہ سمجھتے ہیں کہ کمرشل زون کی تکمیل سے شہر کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے تھے مگر ضلعی انتظامیہ نے اس سلسلے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ ان کی اس شکایت پر ڈپٹی کمشنر آفس سے بات کی گئی تو وہاں ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ الزام بے بنیاد ہے اور اس حوالے سے کیو ڈی اے نے خود کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔
وزیراعلی میرعبدالقدوس بزنجو خود کیو ڈی اے کے چیئرمین ہیں۔ ان کے ترجمان بابر یوسف زئی نے لوک سجاگ سے بات کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی کہ اس منصوبے کو رواں سال کے آخر تک مکمل کر لیا جائے گا اور وزیراعلیٰ خود اس منصوبے کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ منی بس اڈوں کی منتقلی کے خلاف بس مالکان نے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ ٹریفک کے مسائل پر بھی ایک درخواست عدالت میں زیرسماعت ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ شہر کے تمام مسائل جلد حل ہوں جس کے لئے کوششیں جاری ہیں۔
تاریخ اشاعت 21 جولائی 2023