محمد طاہر خان میانوالی سے 25 کلومیٹر دور مشرق کی جانب ڈیرہ نورنگ خیلانوالہ میں رہتے ہیں۔ یہ گاؤں کوہستان نمک کے دامن میں چھدرو نامی علاقے میں واقع ہے۔ طاہر کا خاندان پانچ افراد پر مشتمل ہے اور وہ اپنی آبائی اراضی پر کاشت کاری کرتے ہیں۔ امسال انہوں ںے بارہ ایکڑ زمین پر کپاس کی فصل اگائی جو تیار ہو گئی تو 29 ستمبر کو ہونے والی چند منٹ کی ژالہ باری نے اسے اجاڑ کر رکھ دیا۔
طاہر نے بتایا کہ اس صبح آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے جنہیں دیکھ کر وہ خوش ہو گئے کہ اگر آج بارش ہو گئی تو ان کی فصل کو فائدہ ہو گا اور پانی کا خرچہ بھی بچ جائے گا۔ مگر بارش کے ساتھ غیرمعمولی ژالہ باری بھی شروع ہو گئی۔ کچھ ہی دیر کے بعد موسم صاف ہو گیا اور جب وہ اپنے کھیتوں میں پہنچے تو ان کی فصل پوری طرح تباہ ہو چکی تھی۔
اسی گاؤں کے رہائشی یوسف خان نے چھ ایکڑ پر کپاس کاشت کر رکھی تھی اور ان کی فصل بھی چنائی کے لیے تیار تھی جو ژالہ باری سے بری طرح متاثر ہوئی۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ فی ایکڑ زمین پر ایک لاکھ چالیس ہزار روپے تک خرچ کر چکے تھے اور انہیں امید تھی کہ وہ 17 سے 20 من فی ایکڑ تک پیداوار حاصل کر لیں گے لیکن اب وہ بمشکل چار سے چھ من کپاس ہی اٹھا پائیں گے۔
وہ بتاتے ہیں کہ مہنگائی کی وجہ سے کھاد، سپرے، پانی اور ہل وغیرہ کے ریٹ میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ ان اخراجات کے لیے انہوں نے رقم ادھار لے رکھی تھی مگر اب اس تباہی کے بعد ان میں گندم کاشت کرنے کی ہمت نہیں کیونکہ اس سے ان کی خرچ کی ہوئی رقم بھی وصول نہیں ہو گی۔ یوسف خان پریشان ہیں کہ حکومت کا مقررہ ریٹ نہایت کم ہے اور اب آڑھتی اس سے بھی کم ریٹ دے رہے ہیں۔
ان کا اور ژالہ باری سے متاثرہ دیگر چھوٹے کسانوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان کےنقصان کا ازالہ کرنے کے اقدامات کرے کیونکہ وہ اس فصل پر جو سرمایہ کاری کر چکے تھے اب اس کی واپسی کی امید نہیں رہی۔
چھدرو کے باسیوں کا ذریعہ روزگار زراعت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ یہاں کے کاشتکار اپنی فصلوں کو ٹیوب ویل کے پانی سے سیراب کرتے ہیں۔ یہاں سال میں گندم اور کپاس کی صورت میں دو فصلیں اگائی جاتی ہیں۔ اس علاقے کے لوگ زیادہ تر کپاس کو پچھیتی کاشت کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی چنائی اکتوبر کے پہلے ہفتے میں شروع ہو جاتی ہے مگر موسمیاتی تبدیلیاں اب ان کی کاشت کو بہت زیادہ متاثر کرنے لگی ہیں۔
کاشتکاروں کی تنظیم 'کسان اتحاد' کے نائب صدر نواز خان کا کہنا ہے کہ ژالہ باری سے تین سے چار ہزار ایکڑ پر کپاس کی تیار فصل کو نقصان پہنچا ہے۔ کسان پہلے ہی ٹیوب ویل کے بل اور کپاس کے کم سرکاری ریٹ کی وجہ سے پریشان ہیں اور ژالہ باری نے ان کی پریشانی مزید بڑھا دی ہے۔ اس نقصان کے بعد متاثرہ کسانوں کا مطالبہ ہے کہ ان کے دو ماہ کے بجلی کے بل معاف کیے جائیں اور کپاس کے ریٹ کو بڑھایا جائے تاکہ وہ بچ جانے والی فصل فروخت کر کے گندم کی فصل کاشت کر سکیں۔
میانوالی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر زراعت محمد طارق خان بتاتے ہیں کہ انہوں نے ژالہ باری سے متاثرہ فصلوں کا دورہ کیا ہے اور نقصان کا تخمینہ لگانے کے لیے ایک ٹیم تشکیل دی ہے جو کہ متاثرہ کاشتکاروں کو معلومات کی فراہمی کے ساتھ ان کے نقصان کی تفصیلات بھی جمع کرے گی۔ یہ ٹیم اپنی رپورٹ حکومت کو دے گی جس کی روشنی میں کسانوں کو معاوضہ دینے کے معاملے پر فیصلہ کیا جائے گا۔
اسی گاؤں کی چالیس سالہ نذیراں بی بی چار بچوں کی ماں ہیں۔ کپاس کے موسم میں وہ اور ان کی بڑی بیٹی چنائی کا کام کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے علاقے سے باہر کپاس چننے نہیں جاتیں بلکہ صرف نزدیکی علاقوں میں ہی کام کرتی ہیں۔ کپاس کا موسم ان کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس سے ان کو کچھ فاضل رقم کمانے کا موقع ملتا ہے۔ مگر حالیہ ژالہ باری نے ان کی یہ امید ختم کر دی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
راجن پور میں کپاس پر سفید مکھی کا حملہ: حکومتی اقدامات فصل کو بچانے میں کتنے کارگر ہوں گے؟
وہ بتاتی ہیں کہ کپاس کے موسم میں عموماً ایک خاتون بیس سے پچیس ہزار روپے تک کپاس چن لیتی ہے جس سے زیادہ تر خواتین اپنی بیٹیوں کے جہیز کے لیے کچھ نا کچھ خرید لیتی ہیں۔ اس سال فی کلو کپاس چنائی کے ریٹ میں بھی اضافہ ہوا مگر اب چونکہ کاشتکاروں کا بہت نقصان ہو چکا ہے اس لیے ان کو کسی نے کپاس کی چنائی کے لیے بھی نہیں کہا اور کسانوں کے گھر والے خود ہی کپاس چن رہے ہیں۔
محکمہ زراعت کے مطابق میانوالی میں رواں سال ایک لاکھ 54 ہزار 490 ایکڑ رقبے پر کپاس کی فصل کاشت کی گئی ہے۔ پاکستان میں پچھلے سال جنوبی پنجاب اور سندھ میں سیلاب کی وجہ سے پیداوار 4.8 ملین بیلز رہیں تھیں جو تاریخ کی سب سے کم پیداوار تھی لیکن اس بار پاکستان میں 12 ملین بیلز ہونے کی امید ہے۔
تاریخ اشاعت 19 اکتوبر 2023