عام انتخابات جوں جوں قریب آرہے ہیں سسنسنی بڑھتی جا رہی ہے لیکن ابھی تک انتخابی مہم کے روایتی رنگ دکھائی نہیں دے رہے۔ تاہم اکا دکا گاڑیوں پر امیدواروں کے پوسٹر ضرور نظر آنے شروع ہو گئے ہیں۔
ضلع حافظ آباد 13 لاکھ 20 ہزار نفوس کی آبادی پر مشتمل ہے۔ یہاں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد آٹھ لاکھ 10 ہزار 723ہےجن میں چار لاکھ 39 ہزار 770 مرد اور تین لاکھ 70 ہزار 953 خواتین ووٹر ہیں۔
اس ضلعے میں قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی تین نشستیں دی گئی ہیں۔ پچھلے انتخابات میں یہاں قومی حلقے کا نمبر این اے 87 تھا جو اب این اے 67 ہو گیا ہے۔
2018ء کے انتخابات میں یہاں سے تحریک انصاف کے شوکت علی بھٹی نے ن لیگ کی سائرہ افضل تارڑ اور اپنے چچا لیاقت عباس بھٹی دونوں کو ہرا دیا تھا۔ لیاقت بھٹی تحریک لیبک پاکستان(ٹی ایل پی) کے امیدوار تھے اور 44 ہزار سے زائد ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر آئے تھے۔
حافظ آباد کی سیاست دہائیوں سے افضل حسین تارڑ اور مہدی حسن بھٹی کے خاندانوں کے گرد گھوم رہی ہے۔ سائرہ افضل تارڑ سابق صدر رفیق تارڑ کی بہو اور افضل تارڑ کی بیٹی ہیں۔
حافظ آباد نئی حلقہ بندیاں 2023
2018 کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 87 حافظ آباد 1 اب این اے 67 حافظ آباد 1 ہے
یہ حافظ آباد ضلع کا واحد قومی اسبملی کا حلقہ ہے۔ جس میں اس ضلع کی مکمل آبادی شامل ہے۔
2018 کا صوبائی حلقہ پی پی 69 حافظ آباد 1 اب پی پی 37 حافظ آباد 1 ہے
یہ حلقہ تحصیل حافظ آباد اور تحصیل پنڈی بھٹیاں کی دیہی آبادی پر مشتمل ہے۔ جس میں وینکے تاررڈ، کولو تاررڑ اور جلال پور بھٹیاں کی آبادیاں شامل ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں میں اس حلقے میں کافی تبدیلیاں کی گئی ہیں جیسا کہ حافظ آباد شہر کے قریبی قانون گو حلقے حافظ آباد ایک اور دو ٹاؤن کمیٹی وینکے تارڑ دیہات کو بھی شامل کیا گیا ہے کالکی قصبے کے دو پٹوار سرکل چھوڑ کر باقی کو نکال دیا گیا ہے۔
2018 کا صوبائی حلقہ پی پی 70 حافظ آباد 2 اب پی پی 38 حافظ آباد 2 ہے
یہ حافظ آباد ضلع کا شہری حلقہ ہے جس میونسپل کمیٹی حافظ آباد کی مکمل آبادی شامل ہے۔ اس کے علاوہ قصبہ چک چھٹہ کے تمام پٹوار سرکل اورکالکی قصبے کے کچھ پٹوار سرکل شامل ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں میں اس حلقے سے حافظ آباد ایک اورحافظ آباد دو قانون گو حلقے کو نکال دیا گیا ہے جبکہ کچھ پٹوار سرکل چھوڑ کر پورا کالکی قانون گو حلقہ بھی اس حلقے میں شامل کردیا گیا ہے۔
2018 کا صوبائی حلقہ پی پی 71 حافظ آباد 3 اب پی پی 39 حافظ آباد 3 ہے
یہ پنڈی بھٹیاں تحصیل کا حلقہ ہے۔ جس میں بھنڈی بھٹیاں میونسپل کمیٹی اور قصبہ سکھیکی کی آبادی بھی شامل ہے۔ نئی حلقہ بندیوں میں اس حلقے میں کالکی کے تین پٹوار سرکل شامل ہوئے ہیں جبکہ کسیسے قصبے کے تین پٹوار سرکل نکال دیے گئے ہیں۔
تارڑ خاندان کے سربراہ میاں افضل دو مرتبہ رکن قومی اسمبلی رہے۔ 2002ء میں گریجویشن کی شرط کے باعث انہوں نے الیکشن نہیں لڑا اور پھر 2008ء میں اپنی صاحبزادی سائرہ تارڑ کو میدان میں اتار دیا۔ تبھی سے وہی اس نشست سے الیکشن لڑتی آ رہی ہیں۔
شوکت علی بھٹی کے والد مہدی حسن بھٹی 1985ء سے 1993ء تک مسلسل تین بار رکن پنجاب اسمبلی اور پھر دو مرتبہ رکن قومی اسمبلی بنے۔ مہدی حسن کے بھائی اور شوکت کے چچا لیاقت عباس بھٹی بھی تین بار ایم این اے منتخب ہو چکے ہیں۔
سائرہ افضل تارڑ اور شوکت علی بھٹی 2008ء سے اب تک تین بار مدمقابل آئے ہیں۔ دو چناؤ سائرہ افضل نے جیتے اور ایک میں شوکت علی کامیاب ہوئے۔ وہ ایم این اے سے پہلے ایک بار رکن صوبائی اسمبلی اور وزیر بھی رہ چکے ہیں۔
آٹھ فروری 2024 کے عام انتخابات کے لیے این اے 67 حافظ آباد سے 35 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیے ہیں۔
اس بار بھی روایتی حریف سائرہ افضل تارڑ ن لیگ سے اور شوکت علی بھٹی تحریک انصاف کے ممکنہ امیدوار ہوں گے۔ تاہم مہدی حسن بھٹی نے احتیاطاً اس حلقے سے اپنی بیٹی انیقہ بھٹی کے کاغذات بھی جمع کرا دیے ہیں۔
دونوں امیدوار پارٹی کے ساتھ ذاتی ووٹ بینک بھی رکھتے ہیں۔ سائرہ افضل تارڑ ہمیشہ ن لیگ کے ساتھ کھڑی ہیں جبکہ بھٹی خاندان تحریک انصاف سے پہلے ق لیگ اور آزاد حیثیت میں جیت چکا ہے۔ یوں اس قومی نشست پر کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔
اس حلقے سے امیدواروں میں وسیم الحسن شاہ بھی شامل ہیں۔ جنہوں نے پچھلا چناؤ یہاں صوبائی حلقے سے ٹی ایل پی کے ٹکٹ پر لڑا تھا اور 24 ہزار سے زائد ووٹ لیے تھے۔دلچسپ بات یہ ہےکہ وہ پیپلز پارٹی کے ممکنہ امیدوار بتائے جا رہے ہیں۔
شوکت بھٹی کے چچا اور یہاں سے ٹی ایل پی کے سابق امیدوار لیاقت بھٹی مسلم لیگ ن میں شامل ہو چکے ہیں اور انھوں نے کاغذات نامزدگی بھی جمع کرا رکھے ہیں۔ اسی طرح حافظ آباد سے تحریک انصاف کے سابق ایم پی اے مامون تارڑ اس قومی نشست پر استحکام پاکستان پارٹی کے امیدوار ہو سکتے ہیں۔
ضلع حافظ آباد میں صوبائی اسمبلی کی تین نشستیں ہیں جن کو پی پی 37، پی پی 38 اور پی پی 39 کے نمبر دیے گئے ہیں۔ ان تینوں حلقوں میں ن لیگ کے ٹکٹ کے خواہش مندوں کی فہرست کافی لمبی ہے اور اسی وجہ سے یہاں مقامی پارٹی عہدیداروں میں اختلافات بھی ہیں۔
حلقہ پی پی 37 حافظ آباد ون تحصیل پنڈی بھٹیاں اور تحصیل حافظ آباد کے بیشتر دیہات پر مشتمل ہے۔ اس نشست کے لیے سابق ایم پی اے مامون تارڑ سمیت 27 امیدوار میدان میں آئے ہیں۔
اس حلقے میں میاں شاہد بھٹی ن لیگ کے متوقع امیدوار ہیں لیکن ن لیگ کے ضلعی صدر محمد بخش تارڑ بھی کاغذات جمع کرا چکے ہیں۔ یہاں تحریک انصاف کے ٹکٹ کے لیے مہدی حسن بھٹی کے دوسرے بیٹے عمران عباس بھٹی اور امان اللہ سندھو امیدوار ہیں۔ جبکہ سابق ایم پی اے چوہدری اسد اللہ بھی کوشش کر رہے ہیں۔
پچھلے الیکشن میں مامون تارڑ نے اس حلقے سے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر ن لیگ کے شاہد حسین بھٹی کو ہرا دیا تھا۔ لیکن وہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد پارٹی چھوڑ گئے تھے اب یہاں صوبائی اور قومی دونوں نشستوں پر آئی پی پی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
پی پی 38 حافظ آباد ٹو حافظ آباد میونسپل کمیٹی اور نواحی دیہات پر مشتمل ہے۔ یہاں سے 26 امیدوار اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرا چکے ہیں۔
شیخ گلزار ن لیگ کے ٹکٹ کے لیے مضبوط امیدوار ہیں۔ وہ اس حلقے سے منتخب ہونے والے ن لیگ کے سابق ایم پی اے مظفر علی شیخ کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ اور اس خاندان کے متفقہ امیدوار بتائے جا رہے ہیں۔
اسی حلقے سے نامزدگی فارمز جمع کرانے والوں میں مہدی حسن بھٹی کے دو بھتیجے سکندر نواز، ضمیر الحسن بھٹی اور ایک بھتیجی رفعت بتول شامل ہیں۔سکندر نواز یا سابق پی ٹی آئی ٹکٹ ہولڈر ملک فیاض اعوان میں سے کوئی ایک تحریک انصاف کے امیدوار ہو سکتے ہیں۔
گل نواز اعوان، رائے صفدر علی، وسیم الحسن شاہ، زاہد سہیل اور عثمان خضر مانگٹ نے بھی اس حلقے سے کاغذات جمع کرا رکھے ہیں۔
پی پی 39 حافظ آباد تھری میونسپل کمیٹی پنڈی بھٹیاں، میونسپل کمیٹی سکھیکی اور تحصیل پنڈی بھٹیاں کے دیہات پر مشتمل ہے۔ اس حلقے سے گذشتہ انتخابات میں میاں انصر احسن بھٹی پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے۔
انصر بھٹی نے نو مئی کے بعد تحریک انصاف چھوڑ دی تھی۔ اب ان کے تایا زاد بھائی عون انتصار بھٹی ن لیگ سے الیکشن لڑنا چاہتے ہیں۔ جبکہ سابق رکن قومی اسمبلی لیاقت بھی ن لیگ کے ٹکٹ کے لیے امیدوار ہیں۔
اس حلقے سے قمر جاوید گجر ایڈووکیٹ تحریک انصاف کے امیدوار ہوسکتے ہیں۔ وہ مہدی حسن بھٹی کے بھی کافی قریب سمجھے جاتے ہیں۔ بابر شفیق، سابق ایم پی اے سید شعیب شاہ نواز، ضمیر الحق اور سعدیہ لیاقت عباس سمیت 24 امیدوار سامنے آئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
خوشاب میں ماضی کے اتحادی آمنے سامنے، مخالف ایک دوسرے کے مددگار بن گئے
اس حلقہ میں ٹکٹ پر ن لیگ تقسیم ہے۔ ضلعی صدر کی زیر قیادت ایک دھڑا لیاقت عباس بھٹی کو سپورٹ کے رہا ہے، جبکہ دوسرا گروپ جس کے سرپرست میاں شاہد ہیں وہ میاں شاہد بھٹی کے عزیز عون انتصار بھٹی کی حمایت کر ریا ہے۔
تاہم قومی حلقے میں تارڑ اور بھٹی خاندان میں مقابلہ ہے تو حافظ آباد کی تینوں صوبائی نشستوں پر بھی وہی امیدوار مضبوط ہو گا جسے ان خاندان کی سپورٹ ہو گی۔
حافظ آباد کے لوگ الیکشن کمیشن سے ناراض کیوں ہیں؟
حافظ آباد پنجاب کے سب سے چھوٹے اضلاع میں سے ایک ہے۔ مگر 2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے دو حلقے تھے لیکن پھر ضلعے کو ایک ہی قومی نشست دے دی گئی۔ اسے مقامی لوگ ناانصافی قرار دیتے ہیں۔
نئی حلقہ بندیوں میں الیکشن کمیشن نے حافظ آباد شہر اور اس کے کچھ دیہات کو ضلع گوجرانوالہ کے حلقہ این اے 81 میں شامل کر دیا۔ جبکہ باقی ضلعے کی آباد ی پر مشتمل این اے 67 بنا دیا ہے۔ یہاں کے سیاسی کارکن حافظ آباد کو طنزاً 'سر کٹا ضلع ' کہہ کر پکارتے ہیں۔ یعنی ضلعے کا ہیڈکوارٹر ہی دوسرے شہر کے حلقے کا حصہ بن گیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کی ابتدائی رپورٹ میں میونسپل کمیٹی اور حافظ آباد قانونگوئی کو تحصیل نوشہرہ ورکاں سے ملا کر این اے 81 'گوجرانوالہ کم حافظ آباد' کا نام دے دیا۔ جس میں حافظ آباد ضلعے کی تقریباً ساڑھے تین لاکھ آبادی شامل ہے۔
مسلم لیگ نواز کی امیدوار سائرہ افضل تارڑ نے بھی اس اقدام پر اعتراضات اٹھائے تھے۔
حافظ آباد کے سیاسی کارکن محمد منیر بتاتے ہیں کہ ضلع جہلم اور حافظ آباد کی آبادی میں صرف 62 ہزار کا فرق ہے لیکن وہاں قومی اسمبلی کے دو حلقے جبکہ یہاں ایک ہی حلقہ ہے۔ یہ سراسر نا انصافی ہے۔
ابتدائی حلقہ بندیوں کے بعد حافظ آباد سے معروف قانون دان احسن بھون سمیت متعدد افرد نے درخواستیں دائر کی تھیں۔ ان سب لوگوں کا موقف تھا کہ اس ضلع کو دو مکمل قومی اسمبلی کے حلقے دیے جائیں۔ لیکن ضلعے کے ڈیڑھ حلقے کو بھی پھر ایک کر دیا گیا۔
تاریخ اشاعت 3 جنوری 2024