پنجاب کے شمالی ضلع گجرات کے دیہات میں ہرطرف عالی شان مکانات، کوٹھیاں نظر آتی ہیں۔ ان بڑے بڑے گھروں کے بیشتر مالک بیرونِ ملک محنت مزدوری کرتے ہیں۔
گجرات کے مقامی لوگوں کے مطابق تقریباً ہر گاؤں میں زیادہ تر گھر ایسے ملیں گے جہاں سے کوئی نہ کوئی فرد بیرون ملک خاص کر یورپ گیا ہو گا۔
عارف علی اور محمد ناصر گجرات کے نواحی گاؤں سارو چک کے رہنے والے اور آپس میں چچا زاد بھائی ہیں۔ عارف علی اب گجرات شہر میں موٹر سائیکل مکینک کی اپنی دکان پر کام کرتے ہیں جبکہ محمد ناصر نے اپنے ہی گاؤں میں موبائل ریپئرنگ کی ایک دکان بنائی ہوئی ہے۔
دونوں نے دو سال پہلے یورپ جانے کی کوشش کی تھی۔ وہ ترکی تک تو پہنچ گئے لیکن وہاں پر سرحدی پولیس کے ہاتھ لگ گئے جہاں سے انہیں واپس بھیج دیا گیا۔
عارف علی اور محمد ناصر کہتے ہیں کہ یہ سفر ان کے لیے بہت ہی ہولناک تھا اس کو جب بھی یاد کرتے ہیں تو خود پر خوف طاری ہو جاتا ہے لیکن دوسری طرف یہ دونوں اب بھی یورپ جانے کے خواہش مند ہیں۔
"اگر آنے والی نسلوں کی زندگیاں بہتر بنانی ہیں تو پھر کامیاب تو ہونا پڑے گا"۔ کامیاب ہونے سے ان کی مراد یورپ پہنچنا ہے۔
عارف علی بتاتے ہیں کہ حال ہی میں ان کا ایک ایجنٹ سے رابطہ بھی ہوا ہے جو انہیں زمینی راستے سے یورپ لے جانے کے لیے تیار ہے۔
" پہلی بار ناکام تو ہو گئے تھے لیکن اس سے بہت ساری چیزیں سیکھی بھی ہیں۔ اس مرتبہ چونکہ مشکلات کا پہلے سے ہی علم ہے تو شاید کامیاب بھی ہو جائیں"۔
عارف اور ناصر تفصیل کے ساتھ غیرقانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ان کے والدین نے ایجنٹ (جس کا وہ اب بھی نام ظاہر نہیں کرنا چاہ رہے ہیں) کو پانچ لاکھ روپے دیے تھے۔ "معاہدے" کے مطابق ایجنٹ نے انہیں ایران کے راستے ترکی لے جانا تھا اور وہاں پر ورک پرمٹ(کام کرنے کا اجازت نامہ) لے کر دینا تھا۔ ترکی سے آگے کسی یورپی ملک لے جانے کی "فیس" الگ تھی۔
" ہماری منزل اٹلی تھی لیکن چاہتے تھے کہ ترکی میں کچھ مہینے کام کریں، کچھ پیسے جمع ہو جائیں تو پھر آگے جانے کا ارادہ تھا"۔
محمد ناصر نے بتایا کہ ان کے والد نے اپنی دو بھینسیں بیچ کر ڈھائی لاکھ روپے کا بندوبست کیا تھا، اب گھر میں بیچنے کے لیے کوئی اور چیز نہیں تھی اسی لیے سوچا تھا کہ والد پر قرض کا بوجھ نہ پڑے۔
وہ کہتے ہیں ایجنٹ نے انہیں لاہور میں بس اڈے سے کوئٹہ جانے والی بس میں سوار کیا۔ دوسرے دن کوئٹہ میں انہیں ایجنٹس ملے۔ وہاں ملک بھر سے لڑکے آئے ہوئے تھے اور ایجنٹس ان کے نام لے کر پکارتے جاتے اور ان سے معاہدے والے پیسے وصول کرتے جاتے۔
" رات ہوئی تو ہم سب کو بڑے بڑے ٹرالوں میں بٹھا کر اوپر ترپالیں ڈال دی گئیں۔ ہمیں ہدایت کی گئی کہ کسی نے حرکت نہیں کرنی اور نہ ہی آپس میں باتیں کرنی ہیں۔ رات کے اندھیرے میں ٹرالے دوڑتے ہی جا رہے تھے اور ہم ترپالوں کے نیچے ساکت پڑے ہوئے تھے، ہمارے پاس کھانے کے لیے سوکھی روٹیاں، بھنے ہوئے چنے اور بس پانی تھا۔ یہ ٹرالے دوسرے دن شام کو تفتان بارڈر تک پہنچے۔ یہاں پر سب کو باہر نکالا گیا اور پہاڑیوں کے درمیان میں چھوٹے گروپوں میں جانے کا کہا گیا"۔
ناصر بتاتے ہیں کہ سرحد پار کرتے ہوئے پولیس سے سامنا ہوا تو بھگدڑ مچ گئی، شاید کچھ لوگ پکڑے بھی گئے۔
"اس بھاگم دوڑ میں ہم میں سے بیشتر کا سامان گم ہو گیا۔ تمام لوگ جمع ہوئے تو ہمیں پھر سے ٹرالر میں بھر کر اگلے سفر کو روانہ کر دیا گیا"۔
وہ بتاتے ہیں کہ یہاں پر راستے میں جس کی بھی طبعیت خراب ہو جاتی اسے نیچے اتار دیا جاتا۔
"ایک موقع پر ڈرائیور نے بتایا کہ وہ ایران میں ہیں اور جلد ہی ترکی کے بارڈر تک پہنچنے والے ہیں۔ ترکی اور ایران کی سرحد سے کچھ پہلے سب کو جنگل میں اتار دیا گیا۔ شام کا وقت تھا اور ارد گرد کی سیاہ پہاڑیاں بہت زیادہ دہشت ناک لگ رہی تھی۔ جیسے تیسے کر کے یہاں سے گزرے تو آگے ایک ایجنٹ ملا جس نے بتایا کہ ہم ترکی پہنچ چکے ہیں۔ جن لوگوں نے آگے جانا ہے وہ اپنے گھر والوں کو کہیں کہ پاکستان میں موجود ایجنٹ کو پیسے جمع کرا دیں باقی سب اگلے دن تک صبر کریں"۔
لیکن عارف اور ناصر اگلے ہی روز ترکی کی بارڈر پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے۔
ان پر اہلکاروں نے شدید تشدد کیا اور دھمکی دی کہ اگر تمام لوگ فوری طور پر واپس نہیں لوٹے تو انہیں گولی مار دی جائے گی۔
"ہم زخمی حالت میں ترک بسوں میں سوار ہو کر ایران کے بارڈر تک پہنچے۔ یہاں پر وہی ایجنٹ دوبارہ مل گئے جنہوں نے گھر بھجوانے کے لیے مزید پیسوں کا مطالبہ کیا۔ ہماری قسمت اتنی خراب تھی کہ ایران کی بارڈر پولیس نے پکڑ لیا اور جیل میں قید کر دیا۔ ہمیں ایک ماہ بعد رہا کیا گیا"۔
انہوں نے بتایا کہ جب وہ کسی نہ کسی طرح گھر واپس پہنچے تو اہل خانہ انہیں پہچان ہی نہیں رہے تھے کیوں کہ بھوکے رہنے کی وجہ سے ان کا وزن نصف رہ گیا تھا اور جسم زخموں سے چور تھا۔
ناصر بتاتے ہیں کہ جب وہ کوئٹہ سے تفتان کی جانب چلے تھے تو ان کی تعداد 100 تھی۔ ایران سے واپس بلوچستان پہنچے والے صرف 55 لوگ تھے۔
"باقی 45 کا کچھ پتہ نہیں۔ جس کی طبیعت بگڑتی ٹرک کا عملہ اسے نیچے پھینک دیتا تھا۔کچھ بلوچستان سے بارڈر کراس کرتے ہوئے گرفتار ہو گئے تھے"۔
غیرقانونی طور پر یورپ داخل ہونے کی کوشش میں زندگی گنوانے والے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔
یونان میں 14 جون 2023ء کو ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا جس میں 300 کے لگ بھگ پاکستانی جاں بحق ہوگئے تھے۔ اس حادثے کے بعد پولیس، فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی(ایف آئی اے) اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے انسانی سمگلنگ کے لیے بدنام علاقوں میں ایجنٹوں کو پکڑنا شروع کر دیا تھا۔ اس دوران گجرات، وزیر آباد، منڈی بہاؤالدین، کھاریاں، جہلم اور گوجرانوالہ کے علاقوں سے درجنوں انسانی سمگلر پکڑے گئے اور ان پر مقدمات درج کر کے انہیں جیلوں میں ڈال دیا گیا۔
ایف آئی اے سپیشل کورٹ کے ریکارڈ کے مطابق پکڑے جانے والے بیشتر ایجنٹوں کی ضمانتیں ہو گئیں جبکہ کئی ایجنٹ اس وجہ سے بچ گئے کہ ان کے خلاف کوئی گواہی دینے کو تیار نہیں تھا۔
چند مقدمات کی متاثرین کے اہل خانہ نے پیروی کی لیکن کچھ دنوں کے بعد ان ملزموں کو بھی ہائی کورٹ سے ضمانتیں مل گئیں۔ سوائے قصبہ کنجاہ سے تعلق رکھنے والے ایجنٹ مسعود بٹ کے، اب سب آزاد ہیں۔
انسانی سمگلنگ کی سزا چار سے 14 سال قید
بلال شفیق جنجوعہ گجرات بار کے وکیل اور ایف آئی اے قوانین کے ماہر ہیں۔ انہوں نے لوک سُجاگ کو بتایا کہ انسانی سمگلنگ سنگین جرم ہے لیکن ایسے کیسوں میں ملوث ملزمان کو سزا آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
" ایف آئی اے کے لیے ہر ضلع میں الگ سے کورٹ موجود ہے یا سینئر سول ججز کو ایف آئی اے کیسوں کی سماعت کے اختیارات دیے ہوئے ہیں۔ وفاقی حکومت نے جرم کی بیخ کنی کے لیے قانون سازی بھی کی ہوئی ہے لیکن لوگ شاید مجرم کو سزا دلوانا نہیں چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی سمگلر ہر بار بچ نکلتے ہیں اور پھر سے نیا جال بچھا کر نئے شکار پھانستے ہیں"۔
انہوں نے بتایا کہ ایف آئی اے ریکارڈ کے مطابق ایک سال کے دوران گوجرانوالہ اور گجرات کے زونل دفاتر نے انسانی سمگلنگ کے 355 مقدمات درج کر کے ساڑھے چار سو انسانی سمگلروں کو گرفتار کیا جن میں 60 ایسے ملزمان بھی ہیں جو اشتہاری ہو چکے تھے جبکہ سات ایسے ملزم ہیں جن کا نام ریڈ بک میں شامل ہے۔
ریڈ بک میں شامل ملزمان وہ ہوتے ہیں جو دوسرے ملکوں کو بھی مطلوب ہوتے ہیں۔ وہ ممالک ان کی گرفتاری کے لیے پاکستان سے رابطہ کرتے ہیں۔
" ملزمان کو سزا نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ کیس کی پیروی نہیں کرتے، ایجنٹ جن لوگوں کو پیسے واپس لوٹا دیتے ہیں وہ اس ایجنٹ کے خلاف کیس واپس لے لیتے ہیں ایسے میں مجرم کو سزا کیسے اور کس بنیاد پر ہو؟"
ریڈ بک کے ملزمان کی گرفتاری ایک چیلنج
ایف آئی اے، ریڈ بک کو سالانہ بنیاد پر اپ ڈیٹ کرتا ہے جس میں پاکستان اور بیرون ممالک کو انتہائی مطلوب انسانی سمگلرز کا ڈیٹا شامل ہوتا ہے۔
ریڈ بک میں اس وقت 156 انتہائی مطلوب انسانی سمگلروں کا ڈیٹا موجود ہے جن میں گوجرانوالہ و گجرات زون کے 71 ، لاہور زون کے 20 ، فیصل آباد کے 12 اور ملتان زون کے 3 انتہائی مطلوب ملزمان شامل ہیں۔
ایف آئی اے کے ایک آفیسر محسن بٹ نے بتایا کہ ملزمان کی گرفتاری کے لیے فیلڈ ٹیمیں لوکیشنز اور سی ڈی آر سے مدد حاصل کرتی ہیں جبکہ ریڈ بک کے ملزمان کی گرفتاری کے لئے انٹرپول پولیس کی مدد بھی لی جاتی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ایف آئی اے نے انسانی سمگلنگ کے خلاف ایک نیشنل ایکشن پلان 2025ء بنایا ہے جس کا مقصد انسانی سمگلنگ کی روک تھام اور اس میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کو تیز کرنا شامل ہے، یونان میں کشتی الٹنے کے واقعات کے بعد اس نیشنل ایکشن پلان میں تیزی آ گئی ہے اور کئی اہم اہداف کو حاصل کر لیا گیا ہے۔
قصبہ جلال پور جس کو حال ہی میں تحصیل کا درجہ ملا ہے یہاں کے مقامی سیاست دان چودھری فاروق افگن کہتے ہیں کہ لوگ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی باہر جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو لوگ کسی نہ کسی طرح یورپ پہنچ گئے ہیں ان کے گھر خوشحالی آ گئی۔ انھوں نے اچھے گھر بنا لیے اور جن خاندانوں کا کوئی بھی بندہ باہر نہیں جا سکا وہ غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔
اس کی وجہ ان کے خیال میں یہ ہے کہ گجرات میں بیشتر خاندانوں کے پاس ایک آدھ ایکڑ زمین ہے۔ جس میں اکثر کاشتکاروں کے لیے نہری پانی دستیاب نہیں ہے۔
قومی ادارہ شماریات کے مطابق ضلع گجرات میں ہر سو کسانوں میں سے 61 کسان ایسے ہیں جن کی زرعی ملکیتی زمین ڈھائی ایکڑ رقبے سے کم ہے۔ حالانکہ پنجاب میں ہر سو کاشت کاروں میں سے 46 ہی ڈھائی ایکڑ رقبے سے کم کے مالک ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
'کشتی کا حادثہ اللہ کی رضا تھی'، گجرات اور گوجرانوالا میں 'ڈنکی' لگانے کے خواہش مند نوجوانوں کا 'عزم' برقرار
چودھری فاروق افگن کہتے ہیں کہ گجرات میں بجلی کے پنکھے بنانے کی صنعت میں کافی نوجوانوں کے لیے روزگار کے موقع مل جاتے تھے لیکن ایک دو چھوڑ کر باقی تمام فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں۔ ایسی حالت میں نوجوانوں کے پاس کام کرنے کے لیے کوئی بھی وسیلہ نہیں۔
ان کے مطابق کوئی اپنا ملک چھوڑنا نہیں چاہتا لیکن لاقانونیت اور غربت بھی لوگوں کو ہجرت پر مجبور کر رہی ہے۔
پاکستان کے سرکاری ادارے بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے اعداد و شمار بھی تصدیق کرتے ہیں کہ پچھلے دو سال میں پاکستان سے بیرون ملک جانے والوں کی تعداد میں حیران کن طور پر اضافہ ہوا ہے۔
سال 2023ء میں پورے ملک سے کل آٹھ لاکھ 62 ہزار 625 افراد قانونی طور پر بیرون گئے ہیں۔ 2023ء میں بیرون ملک جانے والوں کی یہ تعداد اس سے پچھلے سال یعنی 2022ء کے مقابلے میں تقریبا 30 ہزار زیادہ ہے۔
ضلع گجرات میں بھی یہ رجحان تقریباً اسی طرح ہے ۔ 2021ء تک یہاں سے باہر جانے والوں کی تعداد ساڑھے چھ ہزار یا اس سے بھی کم رہی ہے لیکن 2022ء میں 18 ہزار 415 افراد بیرون ملک گئے اور 2023ء میں یہ تعداد 18 ہزار555 تک پہنچ گئی۔
چودھری فاروق افگن کہتے ہیں کہ اگر گجرات سے پچھلے سال ساڑھے 18 ہزار لوگ قانونی طور پر باہر گئے ہیں تو غیرقانونی طور پر باہر جانے والوں یا جانے کی کوششیں کرنے والوں کی تعداد پانچ ہزار کے لگ بھگ تو ہو گی۔
وہ بتاتے ہیں کہ یونان میں کشتی حادثے کے بعد یہاں پر لوگ خوفزدہ ہو گئے۔ لیکن پھر ملکی سیاسی حالات بگڑنا شروع ہو گئے اور مہنگائی بے قابو ہونے لگی اور اب لوگ پھر ان ایجنٹوں کے پاس جانے شروع ہو گئے ہیں۔
*اس سٹوری کی تیاری میں گوجرانوالہ سے احتشام شامی نے مدد فراہم کی ہے۔
تاریخ اشاعت 30 جنوری 2024