گوجرانوالہ میں چھ سال سے تکمیل کا انتظار کرتا سیف سٹی پراجیکٹ

postImg

احتشام احمد شامی

postImg

گوجرانوالہ میں چھ سال سے تکمیل کا انتظار کرتا سیف سٹی پراجیکٹ

احتشام احمد شامی

گوجرانوالہ میں شہریوں کے تحفظ کے لئے آٹھ سال پہلے شروع کئے جانے والے سیف سٹی پراجیکٹ پر کام پچھلے چھ سال سے معطل ہے۔ اس منصوبے کے تحت شہر بھر میں سڑکوں پر کیمرے لگا کر امن عامہ کی صورتحال پر نظر رکھی جانا تھی۔ لیکن اس عرصہ میں ایک ادھوری عمارت بنانے کے علاوہ اس منصوبے پر کوئی کام نہیں ہو سکا اور اس پر کروڑوں روپے کا خرچ بے مصرف رہا ہے۔

پنجاب میں سیف سٹی پراجیکٹ کا آغاز 2015ء میں ہوا تھا۔ اس مقصد کے لئے پنجاب سیف سٹی اتھارٹی بنائی گئی جس کی منظوری اس وقت کی صوبائی حکومت نے دی تھی۔

اس منصوبے کے تحت گوجرانوالہ کی جی ٹی روڈ سمیت اہم شاہراہوں، بازاروں، بس اڈوں ریلوے سٹیشن، شاپنگ پلازوں، تعلیمی اداروں اور سرکاری دفاتر کے باہر دو ہزار سے زیادہ کیمرے نصب کئے جانا تھے۔ یہ کیمرے ایک خاص سافٹ ویئر کے ذریعے انسانی چہرے اور گاڑیوں کی نمبر پلیٹ کی باآسانی شناخت کر سکتے ہیں۔

علاوہ ازیں شہر میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی گاڑیوں کا ای چالان کرنے کا نظام شروع کرنا بھی اس منصوبے کا حصہ تھا۔ اس نظام کے تحت گاڑیوں کی نمبر پلیٹیں کمپیوٹرائزڈ نظام سے منسلک ہوتی ہیں اور چالان ڈرائیوروں کے گھروں کے پتے پر بھیجے جاتے ہیں۔

پہلے مرحلے میں لاہور اور اس کے بعد راولپنڈی، گوجرانوالہ، ملتان، فیصل آباد اور بہاولپور میں یہ منصوبہ شروع کیا جانا تھا۔ لاہور میں اسے طے شدہ ہدف کے مطابق دسمبر 2015ء میں مکمل کر لیا گیا لیکن باقی پانچوں شہروں میں کام آگے نہ بڑھ سکا۔

ان شہروں کے لئے سیف سٹی منصوبے کی منظوری جنوری 2017ء میں صوبائی محکمہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ نے دی تھی اور اسے پنجاب پولیس انٹیگریٹڈ کمانڈ کنٹرول اینڈ کمیونیکیشن کا نام دیا گیا۔

اسی سال پنجاب حکومت کی ہدایت پر ضلعی انتظامیہ نے سیف سٹی کمانڈ اینڈ کنٹرول روم قائم کرنے کے لئے جی ٹی روڈ پر ایک جگہ کی نشاندہی کر کے وہاں عمارت کی تعمیر شروع کر دی جس کے لئے صوبائی بجٹ میں سے ابتدائی طور پر پچاس کروڑ روپے جاری کئے گئے تھے۔

18-2017ء میں ابھی عمارت کی تعمیر جاری تھی کہ حکومت تبدیل ہوگئی۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اس منصوبے کے لئے مزید فنڈ کا اجرا روک دیا جس کے باعث ٹھیکیدار نے بھی اس عمارت پر کام معطل کر دیا۔ اس طرح کمانڈ اینڈ کنٹرول بلڈنگ کا بڑا حصہ تو مکمل ہو چکا ہے لیکن عملے کی بھرتی سے لے کر کیمروں کی تنصیب اور فرنیچر و آلات کی فراہمی تک اس منصوبے میں شامل دیگر کوئی کام نہیں ہو سکے۔

گوجرانوالہ کی ضلعی انتظامیہ نے پنجاب حکومت کو منصوبے کے لئے فنڈ جاری کرنے کی متعدد درخواستیں کیں اور میں مںصوبے کے خدوخال اور اس کی اہمیت نیز اس کی عدم تکمیل کی صورت میں ہونے والے نقصان کے بارے میں بھی بتایا لیکن فنڈ مہیا نہ ہو سکے۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق پچھلے ساڑھے تین سال میں گوجرانوالہ میں ڈکیتی و راہزنی کی تقریباً چار ہزار وارداتیں ہوئی ہیں۔ اس دوران ضلع بھر میں 850 افراد کو قتل کیا گیا، 715 افراد اغوا ہوئے اور 417 خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا یا اس کی کوشش کی گئی۔

گوجرانوالہ کے سٹی پولیس آفیسر ایاز سلیم کہتے ہیں کہ بہت بڑی تعداد میں ہونے والے ان جرائم کی روک تھام شہر کی نگرانی کے جدید نظام کا تقاضا کرتی ہے اور سیف سٹی پراجیکٹ ٹیکنالوجی پر مبنی پولیسنگ کی اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے شروع کیا گیا تھا۔

اس منصوبے کے تحت امن عامہ قائم رکھنے کے لئے معلومات کے تبادلے، شہر کی ویڈیو کیمروں کے ذریعے نگرانی اور ٹریفک کے بہتر انتظام کی بدولت جرائم کی بیخ کنی اور ملزموں کی گرفتاری آسان ہو جانا تھی۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

ویمن ہیلپ ڈیسک کی حقیقت اور گوجرانوالہ کے ویمن پولیس سٹیشن کے گیٹ پر پڑے تالے کی کتھا

گوجرانوالہ کے ڈپٹی کمشنر فیاض موہل سے اس منصوبے پر پیش رفت کی بابت دریافت کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ انتظامیہ نے نگران حکومت کو اس بارے میں تفصیلات بھجوا دی ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ جب منصوبے پر دوبارہ کام شروع ہو گا تو اس پر چار ارب روپے سے کہیں زیادہ اخراجات آئیں گے کیونکہ پچھلے پانچ چھ سال میں تعمیراتی سامان کی قیمتیں بہت بڑھ گئی ہیں اور عملے کے لئے گاڑیوں، فرنیچر اور دیگر ضروری سازوسامان کی خریداری پرانی قیمت پر ممکن نہیں رہی۔

ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ اندازے کے مطابق اب اس منصوبے کو مکمل کرنے پر 30 فیصد زیادہ رقم خرچ ہو گی تاہم اس کی حتمی تفصیل صوبائی پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ مہیا کرے گا۔

گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر خرم دستگیر تصدیق کرتے ہیں کہ نگران وزیراعلیٰ پنجاب نے گوجرانوالہ، رولپنڈی اور فیصل آباد میں اس منصوبے کو دوبارہ شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے اور جلد اس بارے میں مثبت پیش رفت سامنے آئے گی۔

تاریخ اشاعت 1 جولائی 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

احتشام احمد شامی کا تعلق وسطی پنجاب کے شہر گوجرانوالہ سے ہے۔ لوک سُجاگ کے علاؤہ وہ بین الاقوامی اداروں کے ساتھ بطور فری لانس کام کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

میانوالی کی خواتین صحافی: 'شٹل کاک برقعے میں رپورٹنگ کے لیے نکلتی ہوں تو سرکاری اہلکار مجھے ان پڑھ سمجھتے ہیں یا پھر مشکوک'

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

دریائے سندھ کے قدرتی بہاؤ کے حق میں کراچی کے طلبا کا مارچ

thumb
سٹوری

کھیت مزدور عورتوں کے شب و روز: 'میں نے حمل کے آخری مہینوں میں بھی کبھی کام نہیں چھوڑا، اور کوئی چارہ بھی تو نہیں'

arrow

مزید پڑھیں

عثمان سعید

دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے خلاف دریا میں احتجاجی مشاعرہ

thumb
سٹوری

سندھ: سرکاری ورکنگ ویمن ہاسٹلز پر سرکاری اداروں کا قبضہ کون سی سرکار چھڑوائے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

عمر کوٹ میں قومی نشست پر ضمنی الیکشن سے متعلق پانچ اہم حقائق

arrow

مزید پڑھیں

User Faceجی آر جونیجو

خاموش واپسی یا زبردستی اخراج؟ افغان پناہ گزینوں کی حقیقی کہانیاں

سندھ: کینیڈا سے سائنس سمجھانے آیا محمد نواز سومرو

thumb
سٹوری

طویل لوڈ شیڈنگ سے دنیا کی چھٹی بڑی سولر مارکیٹ بننے کا سفر: کیا نئی پالیسی سے 'سولر سونامی' تھم جائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

سجاگ رپورٹ
thumb
سٹوری

انصاف کی راہ میں گھات لگائے راہزن: اپنی جان لینے والے نیسلے ملازم کی کہانی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceامین وارثی

سولر لگانے والے کیوں پریشان ہیں؟

دریاؤں کے لئے کچھ کرنے کے عالمی دن پر دریائے سندھ کو خراج تحسین

Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.