زمین تیزی سے گرم ہو رہی ہے۔ اگر اس کا درجہ حرارت موجودہ رفتار سے بڑھتا رہا تو اِس صدی کے آخر تک یہ انسانوں کی رہائش کے قابل نہیں رہے گی۔
یہ ڈراؤنی وارننگ اقوام متحدہ کے زیرِ اہتمام دنیا بھر سے اکٹھے کیے گئے 234 ماہرین کے گروپ نے اگست 2021 میں جاری ہونے والی اپنی رپورٹ میں دی ہے۔ خود مختار بین الحکومتی پینل (آئی پی سی سی) کے نام سے جانے والے اس گروپ نے کہا ہے کہ ہم خطرے کی سرخ لکیر پر پہنچ چکے ہیں اور اب ہمارے لیے بھاگنے اور چھپنے کی گنجائش نہیں رہی۔
تقریباً چار ہزار صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پچھلے 10 سال میں زمین کا درجہ حرارت جتنی تیزی سے بڑھا ہے اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی لیکن اگر 2030 تک انسان نے زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کی رفتار کم نہ کی تو اس کے تباہ کن اثرات کبھی ختم نہیں ہو سکیں گے۔
رپورٹ کا مزید کہنا ہے کہ بیسویں صدی کے آخری نصف اور پھر اکیسویں صدی کے ابتدائی 20 سال میں ہونے والی صنعتی سرگرمیوں کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلی کا جو عمل شروع ہوا ہے اسے اگلی چند دہائیوں میں واپس موڑنا قریب قریب نا ممکن ہے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شدید گرمی کی لہر جو صنعتی دور سے پہلے 50 سال میں ایک بار آتی تھی، اب ہر 10 سال کے بعد آ رہی ہے اور عین مکن ہے کہ مستقبل میں ہمیں ہر چھ سات سال بعد اس کا سامنا کرنا پڑے۔
اگر ایسا ہوا تو خشک سالی، قحط اور جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات بڑھ جائیں گے، سمندری طوفانوں کی تعداد اور شدت میں اضافہ ہو جائے گا، گلیشیئر پگھلنے کی رفتار بڑھنے سے 2050 تک سمندر میں پانی کی سطح میں سات سے 11 انچ تک اضافہ ہو جائے گا جس سے ساحلی علاقے ڈوبنے لگیں گے اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے سمندر کے پانی میں جذب آکسیجن کی مقدار کم ہو جائے گی جس کا آبی حیات پر ایک ایسا منفی اثر ہو گا جسے ختم ہونے میں کئی ہزار سال لگ سکتے ہیں۔
رپورٹ کے مصنفین اس بات پر متفق ہیں کہ زمین پر زندگی کو موجودہ شکل میں برقرار رکھنے کے لیے یہ امر یقینی بنانا ضروری ہے کہ اوسط عالمی درجہ حرارت صنعتی انقلاب (1760 سے 1850 کا درمیانی عرصہ) سے پہلے کے اوسط عالمی درجہ حرارت سے 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ نہ ہو۔ لیکن وہ خبردار کرتے ہیں کہ اگر اس اضافے کو اس سطح پر نہ لایا جا سکا تو پھر اس صدی کے اختتام تک انسان کو زمین سے ہجرت کر کے کسی اور سیارے پر رہنے کا بندوبست کرنا ہو گا۔
زمین کیوں گرم ہو رہی ہے؟
زمین دن کے وقت سورج کی گرمی جذب کرتی ہے اور رات کو اسے فضا میں خارج کر دیتی ہے لیکن اس کے گرد پائے جانے والے ہوا کے غلاف میں کاربن ڈائی آکسائیڈ نامی گیس پائی جاتی ہے جو اس کی خارج کردہ حرارت کو خلا میں جانے سے روکتی ہے۔ اگر فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار ایک خاص حد سے بڑھ جائے تو زمین سے نکلنے والی حرارت کا خلا میں جانے کا امکان کم ہو جاتا ہے جس سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔
عالمی درجۂ حرارت کے ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے اس درجہ حرارت میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس ریکارڈ کے مطابق گزشتہ 100 سال میں دنیا کا اوسط درجہ حرارت 0.8 درجے بڑھا ہے لیکن اس میں سے 0.6 درجے اضافہ صرف پچھلے 30 سالوں میں دیکھنے میں آیا ہے۔
زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کو ماپنے کے لیے ماہرین صنعتی انقلاب سے پہلے کے زمانے کو ایک پیمانے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اس انقلاب کے دوران انسان نے صنعتی میدان میں تیزی سے ترقی شروع کی جس کے نتیجے میں معدنی ایندھن کا استعمال بہت بڑھ گیا جو کاربن والی گیسوں کے اخراج کا بڑا ذریعہ ہے۔ چنانچہ 1760 سے لے کر اب تک زمین کے ارد گرد کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں 30 فیصد جب کہ میتھین گیس کی مقدار میں 140 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
اس اضافے کے اثرات روز بروز واضح ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر مصنوعی سیاروں سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق گزشتہ چند دہائیوں میں سمندروں کی سطح تین ملی میٹر سالانہ کے حساب سے بلند ہو رہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ نہ صرف سمندروں کا پانی گرم ہو کر پھیل رہا ہے بلکہ پہاڑوں پر جمے گلیشیئر اور قطبی برف کی تہیں بھی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے پگھل رہی ہیں۔ مصنوعی سیاروں سے لی گئی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ حالیہ سالوں میں قطبی برف میں ڈرامائی طور پر کمی واقع ہوئی ہے۔
انسانی تہذیب کے لئے خطرے کی گھنٹی
بین الحکومتی پینل کی رپورٹ میں ان حالات کا تفصیلی نقشہ کھینچا گیا ہے جو زمینی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ اس کے مطابق 2030 تک زمین پر اوسط درجہ حرارت صنعتی دور سے پہلے کے درجہ حرارت کے مقابلے میں 1.5 یا 1.6 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ ہو گا۔
کچھ عرصہ پہلے موسمیاتی ماہرین کا اندازہ تھا کہ ایسا 2040 تک ہو گا مگر پچھلی دو دہائیوں میں انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں زمین جس تیزی سے گرم ہوئی ہے اس سے یہ نوبت دس سال پہلے ہی آ رہی ہے۔
اس کی ابتدائی جھلک مندرجہ ذیل چھ تبدیلیوں میں دیکھی جا سکتی ہے:
1۔ قطب شمالی پہ درجہ حرارت میں اضافہ
مستقبل قریب میں قطب شمالی پر واقع بحرِ آرکٹک پر سرد ترین دنوں میں درجہ حرارت میں ہونے والا اضافہ عالمی درجہ حرارت میں ہونے والے اضافے کے مقابلے میں تقریباً تین گنا زیادہ ہوگا۔
2۔ زمین میں کاربن جذب کرنے کی صلاحیت میں کمی
انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جنگلات، مٹی اور سمندر جذب کر لیتے ہیں لیکن جیسے جیسے کاربن والی گیسوں کا اخراج بڑھ رہا ہے ویسے ویسے ان کی یہ صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے۔
3۔ موسموں میں شدت
مستقبل قریب میں گرمی کی لہروں اور طوفانی بارشوں میں غیر معمولی اضافہ ہو گا۔ پہلے ہی حالیہ سالوں میں بہت سے ممالک میں سڑکوں پر اسفالٹ کی تہہ کو پگھلا دینے والی گرمی (قریباً 50 ڈگری سینٹی گریڈ) پڑ چکی ہے۔
4۔ سطح سمندر میں اضافہ اور برف کا پگھلاؤ
زمین کے درجہ حرارت کے نتیجے میں جو برف پگھل رہی ہے وہ تقریباً ایک ہزار سال تک دوبارہ نہیں جم پائے گی جبکہ اکیسویں صدی کے آخر تک سمندروں کی سطح ایک میٹر تک بلند ہو جائے گی۔
5۔ میتھین کا ارتکاز
ماحول کے لیے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بعد سب سے زیادہ خطرناک سمجھی جانے والی گیس میتھین کی فضا میں مقدار پچھلے آٹھ لاکھ سال میں سب سے اونچی سطح پر پہنچ گئی ہے۔
6۔موسمیاتی بحران کا نقطہ عروج
زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کی موجودہ شرح جاری رہنے کے نتیجے میں آنے والی دہائیوں میں کرہ ارض پر پائی جانے والی برف کی تہوں کے ٹوٹنے، سطح زمین سے نیچے منجمد چٹانوں کے پگھلنے اور ایمازون کے جنگلات کے ختم ہونے کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔
پاکستان کا کیا ہو گا؟
ماحول کے لیے نقصان دہ گیسوں کے مجموعی عالمی اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم بنتا ہے مگر اس کا شمار دنیا کے ان 10 ممالک میں ہوتا ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے پاس موسمیاتی تبدیلی کے نقصان دہ اثرات سے نمٹنے کے لیے درکار تکنیکی اور مالیاتی صلاحیت بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے اس کے لیے یہ اثرات دوسرے کئی ممالک کی نسبت زیادہ شدید ثابت ہو رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ 10 سال میں پاکستان میں گرمی کی شدت میں تیزی سے اضافہ ہو گا، مون سون کا موسم طویل ہو جائے گا لیکن سال کے باقی مہینوں میں خشک سالی بڑھ جائے گی۔ 2050 تک قراقرم کے پہاڑوں میں واقع بہت سے گلیشیئر پگھل کر اپنی شکل تبدیل کر لیں گے جس سے سمندر کی سطح خطرناک حد تک اونچی ہو جائے گی اور ساحلی علاقے پانی میں ڈوبنے لگیں گے۔
دنیا کے مختلف ممالک میں کام کرنے والے غیر سرکاری امدادی ادارے ایکشن ایڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق سطح سمندر میں اضافے، پانی کی قلت، زرعی پیداوار میں کمی اور خشک سالی کے باعث خدشہ ہے کہ 2030 تک پاکستان میں چھ لاکھ افراد بے گھر ہو جائیں گے اور نقل مکانی پر مجبور ہو جائیں گے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کے اندازوں کے مطابق 2050 تک پاکستان اور بنگلہ دیش میں 25 کروڑ سے زیادہ لوگ ایسے مقامات پر زندگی بسر کر رہے ہوں گے جو منفی ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے شدید طور پر متاثر ہو رہے ہوں گے۔
موسمیاتی تبدیلی پاکستان کے لیے اس لیے بھی ایک سنگین مسئلہ ہے کہ درجہ حرارت یا بارشوں کے نظام میں آنے والی تبدیلیوں سے اس کی زراعت بری طرح متاثر ہو رہی ہے جس کے نتیجے میں آنے والے سالوں میں غذائی تحفظ کی صورتِ حال خطرناک ہو جائے گی۔ مثال کے طور پر شمالی پہاڑی سلسلوں کی برف اور گلیشیئر پگھلنے کی رفتار میں تیزی سے ملک میں آبپاشی کا نظام خطرے میں پڑ جائے گا، مٹی کے تودوں اور چٹانوں کے گرنے کا خطرہ بہت سے علاقوں کو نا قابل رہائش بنا دے گا، بجلی کا نظام متاثر ہو گا اور تواتر سے سیلاب آنے لگیں گے۔
میکنزی گلوبل انسٹیٹیوٹ نامی تحقیقی ادارے کے مطابق پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے سماجی اور معاشی اثرات بہت شدید ہوں گے۔ اس کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت بڑھنے اور بارشوں کی شدت اور دورانیے میں اضافے سے بارانی علاقوں میں زرعی پیداوار کم ہو جائے گی اور 2050 تک ملک کی مجموعی معاشی پیداوار میں سات سے 13 فیصد کمی آ جائے گی۔
موسمیاتی تبدیلی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کو بھی جنم دے گی۔ آئی پی سی سی کی رپورٹ کے مطابق دیہی سے شہری علاقوں میں ہجرت سے وسائل کا بحران پیدا ہو گا اور بنیادی ضروریات سے محرومی لوگوں میں گروہ بندی، نسلی و علاقائی مخاصمت، شدت پسندی اور تشدد کو بھی ہوا دے گی۔
موسمیاتی تبدیلی سے جنوبی ایشیائی ممالک کے مابین علاقائی تنازعات میں بھی شدت آ جائے گی۔ خاص طور پر انڈیا اور پاکستان کے درمیان پانی اور زمین کے تنازعات خطرناک صورت اختیار کر سکتے ہیں۔ مزید برآں خشک سالی کے نتیجے میں افغانستان کے لوگ بڑی تعداد میں پاکستان ہجرت کر سکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ان مسائل پر قابو پانے کے لیے ہمیں اپنی زندگیوں میں بڑی تبدیلیاں لانا پڑیں گی اور ایسی سرگرمیوں کو ترک کرنا پڑےگا جو زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کا بڑا سبب بن رہی ہیں۔ ان تبدیلیوں کو ممکن بنانے کے لیے سب سے اہم قدم دنیا بھر میں معدنی ایندھن کا استعمال روک کر قابل تجدید توانائی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنا ہے۔
تاریخ اشاعت 16 ستمبر 2021