سندھ کے ضلع گھوٹکی میں دو سال پہلے تین کروڑ 57 لاکھ روپے کی لاگت سے پانی کے 17 فلٹریشن پلانٹ لگائے گئے تھے جن میں سے 13 اب بند پڑے ہیں۔ جن علاقوں میں یہ پلانٹ نصب کیے گئے تھے وہاں کے باسی اب یا تو آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں یا انہیں طویل فاصلہ طے کر کے صاف پانی لانا پڑتا ہے۔
یہ آر او (ریورس اوسموسس) فلٹریشن پلانٹ ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ کمیٹی کی سفارش پر گھوٹکی کے علاقے ڈھرکی، اوباڑو، میرپور ماتھیلو اور ان کے دیہات یارو لونڈ، سعید خان چانڈیو، اسلام لاشاری، مارو والا، پنہوں ملک، واحد بخش مہر اور واحد بخش جویو میں نصب کیے گئے تھے۔ ان کا افتتاح جولائی 2021ء میں کیا گیا۔
فلٹریشن پلانٹ کے اس منصوبے کے لیے مالی وسائل نجی کمپنی ماڑی پیٹرولیم نے فراہم کیے تھے اور ان کی تنصیب محکمہ پبلک ہیلتھ کے ذمہ تھی۔ تاہم ان کی دیکھ بھال اور مرمت کے لیے فنڈ نہیں رکھے گئے تھے۔ چنانچہ جب ان میں خرابیاں پیدا ہوئیں تو یہ ایک ایک کر کے بند ہوتے گئے۔
اس وقت جو چار پلانٹ کام کر رہے ہیں انہیں مقامی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت چالو رکھے ہوئے ہیں۔
پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ کلرک تاج محمد کولاچی بتاتے ہیں کہ محکمے نے گزشتہ برس جنوری میں گھوٹکی کے ڈپٹی کمشنر کو لکھا تھا کہ پلانٹ چلانے کے لیے فی پلانٹ ماہانہ پانچ لاکھ روپے فراہم کیے جائیں۔ یہ رقم پلانٹ کے کی مرمت اور اس کے ملازم کی تنخواہ پر خرچ کی جانا تھی۔
لیکن اس درخواست پر کوئی کارروائی کے بجائے کہا گیا کہ اس سلسلے میں پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے اعلیٰ حکام سے رجوع کیا جائے۔
تاج محمد کے مطابق اس بارے میں محکمے کے سیکرٹری کو بھی بتایا گیا لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب نہ آیا۔
میرپور ماتھیلو کے رہنے والے عمر کورائی بتاتے ہیں کہ ان کے علاقے میں دو پلانٹ بند پڑے ہیں۔ ہر پلانٹ کی تنصیب پر 21 لاکھ روپے لاگت آئی تھی لیکن یہ دو ماہ بھی نہ چل سکے۔ اہل علاقہ نے کئی مرتبہ حکام کو اطلاع دی لیکن اس کے باوجود پلانٹ نہیں چلائے گئے۔ اب یہ صورتحال ہے کہ پلانٹ کے پائپ اور نلکے تک چوری کر لیے گئے ہیں۔
گاؤں سعید خان چانڈیو میں پلانٹ بمشکل 20 دن ہی چل سکا۔ اب اس گاؤں میں پینے کے لیے صاف پانی میسر نہیں ہے۔ جن لوگوں کے پاس وسائل ہیں وہ منرل واٹر خرید کر پیتے ہیں۔ کچھ لوگ تین کلو میٹر دور نجی کمپنی ایف ایف سی کے فلٹر پلانٹ سے پانی بھر کر لاتے ہیں جبکہ یہاں کے باسیوں کی اکثریت گھروں کی ٹونٹیوں میں آنے والا آلودہ پانی پی رہی ہے۔
اس گاؤں میں متعدد افراد ہیپاٹائٹس اے اور ای میں مبتلا ہیں۔ چونکہ علاقے میں بیشتر آبادی غریب ہے اس لیے اکثر لوگوں کے پاس علاج کرانے کے وسائل بھی نہیں ہیں۔
مقامی رہائشی سیف اللہ چانڈیو بتاتے ہیں کہ علاقے میں زیرزمین پانی کا ٹیسٹ کروانے پر پتا چلا ہے کہ اس میں حل شدہ ٹھوس مواد (ٹی ڈی ایس) کی سطح 2500 تک ہے جبکہ یہ 300 سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ پانی میں آرسینک یا سنکھیا بھی محفوظ حد سے کہیں زیادہ مقدار میں پایا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گاؤں میں آلودہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں 15 سے زیادہ لوگوں کی جان لے چکی ہیں۔
میرپور ماتھیلو میں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کے ڈاکٹر ستیوان داس کا کہنا ہے کہ صنعتوں سے نکلنے والے پانی میں کئی طرح کے کیمیکل ہوتے ہیں جو زیر زمین پانی میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ضلع گھوٹکی میں انڈسٹریل زون بھی واقع ہے جہاں بہت ساری فیکٹریاں ہیں۔ ان فیکٹریوں سے نکلنے والا پانی جب زیرزمین پانی کا حصہ بنتا ہے تو اسے بھی آلودہ کر دیتا ہے۔
میرپو ماتھیلو کی یونین کونسل جہان خان انڑ کے گاؤں ونگو میں رہنے والے شفقت اللہ نے بتایا کہ "ان کے گاؤں میں پانی پینے کے قابل نہیں رہا۔ اس کا ذائقہ اور رنگت تبدیل ہو چکی ہے۔ اگر پانی کو برتن میں بھریں تو اس کا رنگ پیلا دکھائی دیتا ہے۔ گاؤں میں فلٹریشن پلانٹ تو موجود ہے لیکن یہ کام نہیں کر رہا۔
گھوٹکی میں محکمہ پبلک ہیلتھ کے انجینئر مہرداس فلٹریشن پلانٹ بند ہونے کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ محکمے کے پاس صرف پلانٹ نصب کرنے کا بجٹ تھا۔ اسی لیے لوگوں کو بتا دیا گیا تھا کہ پلانٹ مرمت کرنے کی ذمہ داری ان کی ہے اور وہ اپنی مدد آپ کے تحت اسے چلائیں گے۔ جو پلانٹ نہیں چل رہے ان کی مرمت کے لیے محکمے کے پاس مالی وسائل نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
واسا اور میونسپل کارپوریشن کی تُو تُو میں میں: گوجرانوالہ میں واٹر فلٹریشن پلانٹس کے فلٹر آخری بار کب تبدیل ہوئے تھے؟
سماجی کارکن ارشاد کلادی کہتے ہیں کہ ماڑی پٹرولیم نے رقم دے کر اور محکمہ پبلک ہیلتھ نے پلانٹ نصب کر کے ہاتھ کھینچ لیے۔ کسی نے یہ نہ سوچا کہ پلانٹ کیسے چلیں گے اور انہیں کون چلائے گا۔ مقامی سطح پر لوگوں کی باہمی مخاصمت ایسے منصوبوں کی اتفاق رائے سے دیکھ بھال ہونے نہیں دیتی۔ مقامی سطح پر کوئی ایسے ادارے یا تنظیمیں بھی وجود نہیں رکھتیں جو پلانٹ کو چلا سکیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت جو چند پلانٹ چل رہے ہیں ان میں ایک ہندوبرادری کے مندر کے باہر نصب ہے جسے پنچایت چلاتی ہے جبکہ دوسرا مہر برادری کے گاؤں میں ہے جسے مقامی وڈیرا چلا رہا ہے۔
مہرداس نے بتایا کہ حال ہی میں ماڑی پیٹرولیم نے کاروباری اداروں پر قانوناً عائد ہونے والی سماجی ذمہ داری کے تحت ضلع میں 62 نئے فلٹریشن پلانٹ لگائے ہیں۔ ان میں تین طرح کے آر او پلانٹ شامل ہیں جن میں یومیہ پندرہ سو، تین ہزار اور پانچ ہزار گیلن پانی فراہم کرنے کی صلاحیت ہو گی۔ مہرداس کہتے ہیں کہ ان کی بدولت شہر کے تمام لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر آئے گا۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان پلانٹس کو کب چالو کیا جائے گا اور انہیں چلانے اور ان کی مرمت کی ذمہ داری کس کی ہو گی۔
تاریخ اشاعت 2 اگست 2023