سندھ پنجاب کے سنگم پر واقع ضلع گھوٹکی کی سیاست سرداروں کے گرد گھومتی ہے اور وہی یہاں سیاہ و سفید کے مالک سمجھے جاتے ہیں لیکن درگاہ سے وابستہ میاں عبدالحق عرف میاں مٹھو بھی اہم سیاسی کھلاڑی ہیں۔
اس ضلعے میں دو قومی اور چار صوبائی نشستوں پر انتخابات ہوں گے جہاں ووٹرز کی کل تعداد نو لاکھ 10ہزار 662 ہے جن میں چار لاکھ 92 ہزار 379 مرد اور چار لاکھ 18 ہزار 283 خاتون ووٹرز ہیں۔
این اے 198 میں تحصیل میرپور ماتھیلو، ڈہرکی اور اوباڑو کے علاقے شامل ہیں جہاں سے پچھلے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے خالد احمد خان لونڈ نے لگ بھگ ایک لاکھ ووٹ لے کر کامیابی سمیٹی تھی جبکہ آزاد امیدوار میاں مٹھو نے 72 ہزار کے قریب ووٹ لیے تھے۔
اس مرتبہ بھی پیپلز پارٹی کے امیدوار خالد احمد لونڈ ہیں جن کا مقابلہ جے یو آئی کے مولانا اسحاق لغاری، آزاد امیدوار میاں مٹھو، صغیر لونڈ و دیگر سے ہو گا۔ اس نشست پر پی پی کے سابق ایم پی اے عبدالباری پتافی نے بھی بطور آزاد امیدوار کاغذات جمع کرا رکھے ہیں۔
عبدالحفیظ دایو گورنمنٹ کالج گھوٹکی کے پروفیسر ہیں اور ماضی میں کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ رہ چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس حلقے میں لونڈ، شر اور ڈہر سرداروں کا اپنی اپنی برادریوں پر بہت زیادہ اثر ہے۔ انہی تین برادریوں کے ووٹ انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔
گھوٹکی نئی حلقہ بندیاں 2023
2018 کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 204 گھوٹکی 1 اب این اے 198 گھوٹکی 1 ہے
اس حلقے میں اوباڑو، ڈھرکی اور میرپور ماتھیلو تعلقوں کی آبادی شامل ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کے تحت اس حلقے کی حدود میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔
2018 کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 205 گھوٹکی 2 اب این اے 199 گھوٹکی 2 ہے
یہ حلقہ گھوٹکی ، خان گڑھ اور میرپور ماتھیلو کے قصبات پر مشتمل ہے۔ 2023ء کی نئی حلقہ بندیوں کے تحت اس حلقے کی حدود میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔
2018 کا صوبائی اسمبلی کا حلقہ پی ایس 18 گھوٹکی 1 اب پی ایس 18 گھوٹکی 1 ہے
یہ حلقہ اوباڑو تعلقہ اور ڈہرکی تعلقے کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ 2023ء کی نئی حلقہ بندیوں کے تحت اس حلقے میں معمولی تبدیلی کر کے ڈھرکی تعلقے کے بیروتہ ٹپے دار سرکل کو نکال دیا ہے۔
2018 کا صوبائی اسمبلی کا حلقہ پی ایس 19 گھوٹکی 2 اب پی ایس 19 گھوٹکی 2 ہے
ضلع گھوٹکی کا یہ حلقہ ڈہرکی تعلقے اور میرپور ماتھیلو تعلقے کے علاقوں کی آبادی پر مشتمل ہے۔نئی حلقہ بندیوں کے تحت ضلع گھوٹکی کی اس حلقے می بیروتہ ٹپے دار سرکل کو شامل کیا ہے۔
2018 کا صوبائی اسمبلی کا حلقہ پی ایس 20 گھوٹکی 3 اب پی ایس 20 گھوٹکی 3 ہے
ضلع گھوٹکی کا یہ حلقہ پورے خان گڑہ تعلقہ، گھوٹکی تعلقہ اور میرپور ماتھیلو تعلقے کے کچھ علاقوں پر مشتمل ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کے تحت ضلع گھوٹکی کی اس حلقے میں کوئی ردوبدل نہیں کی گئی ہے۔
2018 کا صوبائی اسمبلی کا حلقہ پی ایس 21 گھوٹکی 4 اب پی ایس 21 گھوٹکی 4 ہے
ضلع گھوٹکی کا یہ حلقہ گھوٹکی تعلقے کی آبادی پر مشتمل ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کے تحت ضلع گھوٹکی کی اس حلقے میں کوئی ردوبدل نہیں کی گئی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ لونڈ خاندان کے سربراہ نور محمد خان رکن پارلیمنٹ رہے پھر ان کے صاحبزادے خالد احمد خان پیپلز پارٹی سے ایم این اے بنے اور اب پھر امیدوار ہیں۔ اسی طرح اوباڑو کے ڈہر برادران اور شہریار شر اپنی برادریوں کے بل پر الیکشن جیت چکے ہیں جبکہ نادر اکمل لغاری اور پتافی برادران کا بھی علاقے میں خاصا ووٹ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس قومی حلقے میں درگاہ بھرچونڈی شریف کے مرید بڑی تعداد میں ہیں جن کی وجہ سے سیاستدان اکثر اوقات گدی نشینوں کی حمایت کے متلاشی رہتے ہیں جبکہ اس خاندان کے میاں مٹھو سیاست میں سرگرم ہیں اور پیپلز پارٹی کے ایم این اے رہ چکے ہیں تاہم پی پی نے رنکل کماری کے تبدیلی مذہب والے کیس کے بعد ان سے لاتعلقی اختیار کر لی تھی۔
سماجی کارکن حنان لغاری کا خیال ہےکہ اس ضلعے میں الیکشن جیتنے یا جتوانے والے سردار گھرانے لونڈ، مہر، پتافی، شر اور دھاریجو سب پیپلز پارٹی کی کشتی میں سوار ہیں۔ اس لیے اس بار یہاں ماضی کی طرح مقابلے دیکھنے کو نہیں ملیں گے لیکن پارٹی میں اندرونی اختلافات کے باعث کہیں بازی پلٹ بھی سکتی ہے۔
اس قومی نشست کے نیچے سندھ اسمبلی کے دو حلقے آتے ہیں جن میں سے پہلا پی ایس 18 اوباڑو ہے جہاں پچھلی بار پی ٹی آئی کے شہریار خان شر نے پی پی کے جام مہتاب ڈہر کو شکست دی تھی۔
لیکن اب شہریار شر پی پی میں شامل ہو چکے ہیں اور پارٹی نے انہیں اسی حلقے سے ٹکٹ بھی دے دیا ہے جس پر جام مہتاب ناراض ہو کر آزاد الیکشن لڑ رہے ہیں۔ان دو کے علاوہ یہاں ایم کیو ایم کے عرفان علی، مرکزی مسلم لیگ کے شیر محمد و دیگر امیدوار میدان میں اترے ہیں۔
حنان لغاری بتاتے ہیں کہ اوباوڑو میں جام مہتاب ڈہر اور شھریار شر کا اثر و رسوخ زیادہ ہے۔ یہاں خالد خان لونڈ اور علی گوہر مہر کے حامی بھی موجود ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس صوبائی ٹکٹ کے لیے پیپلز پارٹی میں اختلافات ہوئے تو چیئرمین بلاول بھٹو جام مہتاب کے پاس آئے اور ان کو شہریار شر کی حمایت پر آمادہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں مانے اور آزاد الیکشن لڑ رہے ہیں۔
پی ایس 19 میرپور ماتھیلو سے 2018ء میں پیپلزپارٹی کے عبدالباری پتافی جیت گئے تھے اور جی ڈی ای کے علی گوھر مہر رنر اپ تھے۔ اس بار پی پی نے پھر عبدالباری پتافی کو ٹکٹ دیا ہے جن کا مقابلہ آزاد امیدوار نادر اکمل لغاری، ایم کیو ایم کے منیر احمد، تحریک لبیک کے سیف رضا و دیگر سے ہو گا۔
حنان لغاری کا کہنا ہے کہ یہاں بھی مہر، لونڈ اور پتافی پیپلز پارٹی میں ہونے کے باوجود ایک پیج پر دکھائی نہیں دے رہے۔ پارٹی نے اس حلقے میں عبدالباری پتافی کو ٹکٹ دیا ہے جنہوں نے علی گوہر اور خالد خان کے مقابلے میں کاغذات نامزدگی جمع کرا رکھے ہیں اور ابھی تک واپس نہیں لیے۔
"اس ضمن میں جب خالد خان لونڈ سے پوچھا گیا کہ کیا عبدالباری ان کے اور علی گوہر مہر کے مقابلے میں قومی نشستوں پر الیکشن لڑ رہے ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ وہ پہلے اپنی سیٹ پر تو جیت کے دکھائے۔"
پروفیسر عبدالحفیظ نے بتایا کہ گھوٹکی میں ہندو آبادی کثیر تعداد میں موجود ہے مگر اس کا سیاست میں کردار بہت محدود ہے۔ 2017ء میں اس ضلعے میں ایک لاکھ سے زائد ہندو برادری کے لوگ رہتے تھے لیکن اب یہ آبادی سوا لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہو گی جس کی تصدیق نئی مردم شماری کی تفصیل سامنے آنے پر ہی ہو سکتی ہے۔
ان کے مطابق یہاں کی ہندو اکثریت میں بیشتر مینگھواڑ اور بھیل برادریوں کے لوگ ہیں۔ رہڑکی، شدھانی، حیات پتافی و دیگر درباروں سے وابستہ ہیں مگر یہ سب بھی سرداروں کے زیر اثر ہیں۔
اس ضلعے کی دوسری قومی نشست این اے 199 خان گڑھ خان پور مہر اور گھوٹکی تحصیل پر مشتمل ہے۔ جہاں سے 2018ء میں آزاد امیدوار علی محمد مہر نے پیپلز پارٹی کے احسان سندرانی کو لگ بھگ 30 ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی۔
اب یہاں سے علی گوہر خان مہر پی پی کے امیدوار ہیں جن کا مقابلہ ٹی ایل پی کے منظور احمد، ایم کیو ایم کے محمد شاہد، جے یو آئی کے عبدالقیوم، جماعت اسلامی کی شکیلا سے ہو گا۔ عبدالباری پتافی نے بھی یہاں آزاد حیثیت سے کاغذات نامزدگی جمع کرا رکھے ہیں۔
پروفیسر حفیظ بتاتے ہیں کہ خان گڑہ کا مہر خاندان اس علاقے میں سب سے زیادہ بااثر مانا جاتا ہے جس کے سربراہ غلام محمد مہر 1964ء میں پہلی بار رکن قومی اسمبلی بنے تھے اور اس کے بعد کئی بار ممبر پارلیمنٹ اور وفاقی وزیر رہے۔
سردار غلام محمد مہر کے صاحبزادے محمد بخش مہر، بھتیجے علی گوہر مہر اور علی نواز ارکان اسمبلی جبکہ علی محمد مہر وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ اگرچہ ان کزنز کے درمیان کچھ عرصہ پہلے تک محاذ آرائی چلتی رہی اور انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف الیکشن بھی لڑے مگر اب تمام پیپلز پارٹی میں اکھٹے ہو چکے ہیں۔
گھوٹکی کے رہائشی الطاف حسین بھٹو اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ محسوس یہی ہو رہا کہ پیپلز پارٹی اس ضلعے میں کلین سویپ کرنا چاہتی ہے کیونکہ آصف زرداری نے پیپلز پارٹی مخالف اتحاد جی ڈی اے کے اہم رہنما علی گوہر خان مہر اور پی ٹی آئی کے شہریار شر کو اپنی پارٹی میں شامل کر لیا ہے۔
پی ایس 20 خان گڑھ سے پچھلے انتخابات میں آزاد امیدوار علی گوہر مہر اپنے بھائی پیپلز پارٹی کے امیدوار علی نواز مہر کو ہرا کر جیتے تھے۔ اب کی بار اس نشست پر پی پی سے محمد بخش مہر، جے یو آئی سے اسحاق لغاری، ٹی ایل پی سے سانول خان نمایاں امیدوار ہیں۔
الطاف بھٹو کہتے ہیں کہ مہر سردار یہ آبائی نشست ہمیشہ سے جیت رہے ہیں۔ پچھلی بار سردار علی گوہر اور محمد بخش مہر ایک دوسرے کے مقابل تھے لیکن اس مرتبہ ایک قومی اور دوسرے صوبائی حلقے میں پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں۔ اب جبکہ دونوں چچازاد اکٹھے ہو چکے ہیں تو ان کا مقابلہ کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔
یہ بھی پڑھیں
ضلع مٹیاری میں ہالہ کے مخدوم کبھی نہیں ہارے۔ اب نیا کیا ہو رہا ہے؟
پی ایس 21 میں تحصیل گھوٹکی کے علاقے آتے ہیں جہاں 2018ء میں پیپلز پارٹی کے علی نواز مہر کامیاب ہوئے تھے اور متحدہ مجلس عمل کے سیف اللہ دھاریجو رنر اپ تھے۔
اب یہاں پی پی کے علی نواز مہر، جے یو آئی کے پپو چاچڑ، ایم کیو ایم کے کبیر اختر سمیت سات امیدواران کے درمیان مقابلہ ہو گا۔
الطاف بھٹو کا کہنا ہے کہ بلدیاتی الیکشن میں گھوٹکی میونسپل کمیٹی کا چیئرمین دھاریجو گروپ کا بنا ہے جبکہ پہلے چیئرمین شپ مہر گروپ کے حصے میں آتی رہی ہے۔ اس مرتبہ بھی مہر گروپ نے یونین کونسل کی زیادہ نشستیں جیتی تھیں لیکن آصف زرداری کی مداخلت پر چیئرمین شپ کے بدلے دھاریجو اس صوبائی نشست سے دستبردار ہو گئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل مہر اور دھاریجو ایک بار پھر صوبائی نشست پر آمنے سامنے آگئے تھے لیکن بلاول بھٹو زرداری نے یہاں آکر معاملات کو سنبھال لیا۔ انہوں نے اس نشست کے بدلے جام اکرام اللہ دھاریجو کو پنو عاقل سے پارٹی ٹکٹ دیا ہے جس کے بعد علی نواز مہر کی کامیابی یقینی بتائی جا رہی ہے۔
گھوٹکی کی سیاست میں سب سے بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کہ 30 برسوں تک ایک دوسرے کے حریف رہنے والے لونڈ اور مہر سردار اب اکٹھے ہو گئے ہیں۔ علی گوہر مہر خالد آباد پہنچے اور سردار خالد احمد لونڈ نے ان کی پیپلز پارٹی میں واپسی کا خیر مقدم کیا ہے۔ یوں اس بار یہاں کوئی بڑا مقابلہ شاید دیکھنے کو نہ ملے۔
تاریخ اشاعت 30 جنوری 2024