"بس غلامی کی زندگی ہے" جہاں لڑکی خرید کر بیاہ رچانے کو بڑا جرم تصور ہی نہیں کیا جاتا

postImg

ماہ پارہ ذوالقدر

postImg

"بس غلامی کی زندگی ہے" جہاں لڑکی خرید کر بیاہ رچانے کو بڑا جرم تصور ہی نہیں کیا جاتا

ماہ پارہ ذوالقدر

اکیس سالہ زرمینہ میانوالی کے علاقے پائی خیل کی رہائشی ہیں جنہیں تین سال قبل ان کے شوہر دو لاکھ روپے کے عوض ڈیرہ اسماعیل خان سے بیاہ کر لائے تھے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کا 45 سالہ شوہر مزدوری کرتا ہے، جب وہ یہاں آئیں تو پشتو کے سوا کوئی زبان نہیں جانتی تھیں نہ ہی کسی کی کوئی بات سمجھ پاتی تھیں۔

"میرے گھر والوں نے غربت کے باعث مجھے بیچ دیا اور جس شخص سے شادی ہوئی وہ مجھ سے دگنی عمر کا ہے ۔جب سے مجھے لایا گیا ہے میں نے اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں کی شکل نہیں دیکھی اور نہ ہی کوئی رابطہ ہے۔ جیسے وہ میرے لیے جیتے جی مر چکے ہوں۔"

چونتیس سالہ زریں گل میانوالی کے علاقے چھدرو کے رہائشی ہیں جو اب چار بچوں کی ماں ہیں۔ ان کی شادی بھی رقم کے عوض ہوئی تھی۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں ہے اس لیے یہاں کوئی کوئی لڑکی نہیں ملی تو پیسے دے کر انہیں خٹک بیلٹ سے بیاہ لائے تھے۔

"ہمارے ہاں یہ عام سی بات ہے کہ والدین کسی سے بھی پیسے لے کر لڑکی کی مرضی پوچھے بغیر اس کی شادی کر دیتے ہیں۔ جس کے بعد ہمارا اہل خانہ (والدین ) سے کوئی رابطہ ہوتا ہے اور نہ ہی وہ کبھی آ کر ہمارا حال پوچھتے ہیں جبکہ یہاں سے بھی ان کے پاس جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ بس غلاموں والی زندگی ہے۔"

صرف زرمینہ یا زریں گل ہی نہیں، میانوالی کے گردو نواح میں ایسی درجنوں خواتین ہیں جنہیں ان کی مرضی کے بغیر پیسوں کے عوض بیاہ کر لایا گیا ہے۔ تاہم ان سب میں کچھ باتیں مشترک ہیں کہ وہ تمام ان پڑھ ہیں اور ان کے شوہر ذہنی یا جسمانی طور پر معذور یا پھر عمر رسیدہ ہیں جو جبری شادیوں کی بدترین مثال ہے۔

جبری شادی یا فورسڈ میرج کیا ہے؟

اقوام متحدہ کے ہائی کمشن آفس برائے انسانی حقوق  (او ایچ سی ایچ آر) کے مطابق 'جبری شادی' ایک ایسی شادی ہے جس میں ایک یا دونوں فریقوں نے ذاتی طور پر یونین (بندھن) کے لیے اپنی مکمل اور آزاد رضامندی کا اظہار نہیں کیا۔ اسی طرح کم عمری کی شادی بھی 'جبری شادی' کی ایک شکل ہے۔

سماجی کارکن محمد ذوالفقار خان کا دعویٰ ہے کہ میانوالی کا شاید ہی کوئی دیہی علاقہ یا قصبہ ہو جہاں شادی کے لیے عورت خرید کر نہ لائی گئی ہو۔

وہ بتاتے ہیں کہ عورتیں خرید کر بیاہ رچانے والے عموماً معذور یا دوسری اور تیسری شادی کرنے والے بڑی عمر کے افراد ہوتے ہیں۔ ان خواتین یا لڑکیوں کی اکثریت خیبر پختونخوا کے پشتون علاقوں سے ہے جن میں سے بیشتر کا اپنے خاندان سے تعلق ختم ہو جاتا ہے۔

ماہر سماجیات (انتھروپالوجسٹ) اور سرائیکی دانشور ڈاکٹر مشتاق گاڈی بتاتے ہیں کہ ایک زمانے میں دریائے سندھ کے مشرق میں پرانے ضلع مظفرگڑھ (بمشمول لیہ) سے دریائے ستلج کے اس پار ریاست بہاولپور تک بیشتر رشتوں (شادیوں) میں وٹہ سٹہ یا معاوضے (جسے سرائیکی زبان میں ارتھ کہا جاتا تھا) کا عنصر ہوتا تھا۔ تاہم یہ شادیاں بے جوڑ یا کسی جبر کے تحت ہرگز نہیں ہوتی تھیں۔

 وہ کہتے ہیں کہ' وٹے ٹکے' کا رواج 20 ویں صدی کی چھٹی دہائی تک معدوم ہونا شروع ہو گیا تھا جبکہ  ان کے خیال میں میانوالی میں عورتوں کی خریدو فروخت کے ذریعے بے جوڑ اور جسمانی یا دماغی معذور افراد سے شادیاں نیا رحجان (phenomenon) ہے جو ونی یا سوارہ جیسی جبری شادی (فورسڈ میرج) سے مختلف نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسی شادیاں ' غلامی ہی کی نئی شکل' ہیں جس کا خاتمہ ریاست کی ذمہ داری ہے اور اس کے لیے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ یا 'خواتین مخالف طرز عمل کی روک تھام کے قانون (Practices Act Prevention of Anti-Women) میں ترامیم مدد گار ہو سکتی ہیں۔

پاکستان کے مختلف علاقوں خاص طور پر پختون سماج میں شادی کے لیے ولور، جہیز یا کسی اور نام پر لڑکی والوں کو رقم یا تحائف دینے کی رسم ہمیشہ سے چلی آ رہی ہے لیکن ضروری نہیں کہ یہ شادیاں 'زبردستی والی' ہوں۔

یو این ڈی سی کی ماڈیول ٹو  میں کسی فرد (مرد یا عورت)کو اس کی مرضی کے بغیر ایک سے دوسری جگہ منتقل کرنا، شادی پر مجبور کرنا یا ایسی صورتحال میں دھکیلنا جہاں اس سے زبردستی کوئی کام لیا جائے 'انسانی ٹریفکنگ' کے زمرے میں آتا ہے۔

اس ادارے کے مطابق 'باہمی رضا مندی کی شادی' بھی اس وقت فورسڈ میرج یا ٹریفکنگ (سمگلنگ) میں شامل ہو جاتی ہے جب اس میں جبر یا زبردستی کا عنصر شامل ہو جائے۔

دنیا بھر کے ممالک 'جبری شادیوں' کے واقعات کو اینٹی ٹریفکنگ سمیت مختلف قوانین کے ذریعے روکنے کے اقدامات کر رہے ہیں جیسا کہ سپین کا قانون ایسی شادی کو ٹریفکنگ میں شامل کرتا ہے۔

تاہم پاکستان میں ان واقعات پر کارروائی کے لیے زیادہ تر صورتوں میں شکایت درج کرانا ضروری ہے جس کا امکان کم ہی ہوتا ہے۔ لیکن اگر کوئی کیس رپورٹ ہو بھی جائے تو پولیس اغوا و زیادتی کا مقدمہ درج کر لیتی ہے جس کے بعد کمزور فریق دباؤ یا لالچ میں آ کر صلح کر لیتا ہے۔

اقوام متحدہ کےدفتر برائے منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) نے 2020ء میں 'انسانی سمگلنگ اور شادی کے درمیان تعلق' (interlinkages between trafficking in persons and marriage) کے نام سے ایک تحقیقی رپورٹ جاری کی تھی جس میں بتایا گیا ہے کہ یہ 'شادیاں' اکثر مالی فوائد کی خاطر لڑکیوں کے خاندان، شادی دفاتر یا ایجنٹوں کے ذریعے طے پاتی ہیں۔ بعض صورتوں میں دلہنوں کو اغوا بھی کیا جاتا ہے۔ تاہم تشدد، بدسلوکی، نقل و حرکت پر پابندیاں اور والدین سے دوری ان جبری بندھنوں کا خاصا ہیں۔ جس کا شکار لڑکیوں کا تعلق عام طور پر غریب گھرانوں سے ہوتا ہے۔
یو این او ڈی سی کے ریسرچ افسر تیجل جیسرانی کہتے ہیں کہ جبری شادی کے واقعات دنیا بھر میں رپورٹ ہوتے ہیں لیکن مختلف ممالک میں یہ جرم ثقافتی، مذہبی یا سماجی "روایات" کی آڑ میں ہوتا ہے تاہم بیشتر واقعات میں اقتصادی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔

رپورٹ تیار کرنے والی ٹیم کے اہم رکن سلک البرٹ کے مطابق ایسی خواتین سے شوہر کی جانب سے جسمانی اور جنسی زیادتی عام ہے۔ تاہم بعض اوقات شوہر کے رشتہ دار، دوست اور "سودا" کرانے والے (بروکرز) بھی ان کو بد سلوکی کا نشانہ بناتے ہیں۔

اس رپورٹ میں شامل واقعات سے ملتے جلتے کئی کیس پاکستان میں متعدد بار سامنے آ چکے ہیں جن میں نوشہرہ سے پکڑا جانے والا ایک نیٹ ورک (گینگ) بھی شامل تھا جو چارسدہ اور نواحی علاقوں سے لڑکیاں لا کر پنجاب کے علاقوں میں بیچتا تھا۔ اسی طرح سوات اور مینگورہ کے واقعات بھی عالمی میڈیا پر رپورٹ ہو چکے ہیں۔

ان رپورٹس سے پہلے گھوٹکی کی شادی شدہ خاتون شمیلہ کے اغوا اور کوئٹہ میں فروخت کا واقعہ سامنے آیا تھا جو برسوں دارلامان میں مقیم رہیں۔ مگر ان سب واقعات کا کیا انجام ہوا کسی کو کچھ معلوم نہیں کیونکہ متاثرہ خواتین یا ان کے لواحقین غربت اور خوف سمیت مختلف وجوہات کی بنا پر خاموش ہو جاتے ہیں۔

میانوالی میں آج تک رقم کے عوض شادی کا کوئی کیس رجسٹر نہیں ہوا جس کی تصدیق ڈسڑکٹ وومن پروٹیکشن افسر سمیرا علوی بھی کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ کیونکہ بیچی جانے والی خواتین ان پڑھ اور اپنے حقوق سے ناواقف ہیں اس لیے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر کسی محکمے سے رجوع نہیں کرتیں۔

دوسری طرف ملک میں کوئی ایسا واضح قانون بھی دکھائی نہیں دیتا جس کے ذریعے ریاست خواتین کے خلاف اس طرز عمل(پریکٹس) پر پابندی لگاتی ہو۔

خواتین کی تحفظ کے لیے 2006ء میں وفاقی حکومت نے پروٹیکشن  آف ویمن (فوجداری قوانین میں ترمیم) ایکٹ جاری کیا تھا جس کے تحت عورت کواغوا کرنے، اسے شادی یا جنسی تعلقات پر مجبور کرنے یا زیادتی جیسے جرائم پر عمر قید تک کی سزا مقرر کی گئی تھی۔

اسی طرح کسی کو جسم فروشی، غیر اخلاقی ملازمت وغیرہ کے مقاصد کے لیے بیچنا بھی سنگین جرم قرار پایا جس کی سزا 25 سال تک قید رکھی گئی تھی۔

تاہم 22 دسمبر 2010ء کو وفاقی شرعی عدالت نے اس ایکٹ کی کئی شقوں کو حدود قوانین کی خلاف ورزی قرار دے کر منسوخ کر دیا تھا۔

یوں پروٹیکشن آف ویمن (فوجداری قوانین میں ترمیم) ایکٹ کے بعد 2011ء میں خواتین مخالف طرز عمل کی روک تھام کا قانون ( پریونشن آف اینٹی ویمن پریکٹسز ایکٹ ) لایا گیا جس کے تحت تعزیرات پاکستان ایکٹ 1860ء میں ترامیم کی گئیں۔

اس قانون میں 'بدلِ صلح' کے طور پر عورت کی شادی، جبری شادی، قرآن پاک سے شادی اور انہیں وراثتی جائیداد سے محروم کرنے کو جرم قرار دیا گیا اور ایسے جرائم میں ملوث افراد کے لیے سزائیں مقرر کی گئیں۔

پریونشن ایکٹ کی دفعہ 310- اے کہتی ہے کہ ""جو شخص کوئی دیوانی یا فوجداری تنازع طے کرنے کے خیال سے کسی عورت کو نکاح میں دے یا دوسری صورت میں اسے شادی کرنے پر مجبور کرے، جیسا کہ بدلِ صلح، ونی یا سوارہ یا کسی دوسری رسم کے نام پر، تو مجرم کو قید کی سزا دی جائے گی جس کی مدت کم سے کم تین سال اور زیادہ سے زیادہ سات سال ہو سکتی ہے۔اسے پانچ لاکھ ورپے جرمانہ بھی ہو گا۔"

اسی ایکٹ کی شق 498- بی بعنوان 'جبری شادی کی ممانعت' میں کہا گیا ہے "جو کوئی شادی کے لیے ایک عورت سے زبردستی کرے یا اسےکسی بھی طریقے سے مجبور کرے تو مجرم کو قید کی سزا دی جائے گی۔ اس کی سزا بھی زیادہ سے زیادہ سات سال  اور  پانچ لاکھ روپے جرمانہ ہے۔"

ایکٹ میں وضاحت نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں جبری شادی غیر مسلم لڑکیوں کی "تبدیلی مذہب" ہونے والی شادی 'سے منسوب ہو کر رہ گئی ہے۔

2016ء میں سندھ اسمبلی نے کریمنل لا (پروٹیکشن آف مینارٹیز) ایکٹ 2015ء  اتفاق رائے سے منظور کیا جس کی شق ٹو (او) کہتی ہے کہ"جبری شادی" کا مطلب وہ بندھن ہے جس میں ایک یا دونوں فریقوں کی مرضی شامل نہ ہو اور جو تعزیرات پاکستان ( 1860ء ایکٹ xlv)کی دفعہ 498- بی کے تحت ممنوع ہو۔

اگرچہ اس قانون کے تحت کم عمر غیر مسلم بچیوں کی زبردستی تبدلی مذہب کی سزا کم از کم پانچ سال اور زیادہ سے عمر قید مقرر کی گئی ہے تاہم شادی کے لیے عورتوں کی خرید وٖ فروخت کا معاملہ اس میں بھی شامل نہیں کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

مظفر آباد: کم عمر لڑکیاں جبری شادیوں کے ڈر سے شیلٹر ہوم میں پناہ لینے پر مجبور

2018ء میں پریونشن آف ٹریفکنگ ان پرسنز ایکٹ  منظور کیا گیا تھا جو پاکستان سے بیرون ملک اور سرحد پار سے پاکستان میں انسانی سمگلنگ کا احاطہ کرتا ہے۔ جس کی شق 3 (2) کے تحت اگر کوئی کسی عورت یا بچےکو کمرشل سیکس یا بیگار کے لیے بیچےگا تو اسے 10سال قید اور 10 لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔

تاہم اس قانون کا سارا زور بھی سرحدوں پر ہے یعنی اس میں اندرون ملک لڑکیوں کی فروخت اور ٹریفکنگ پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔

اسی طرح تعزیرات پاکستان کی دفعہ 371 اے اور بی کے تحت سزا(25 سال قید) بھی خاتون کو کمرشل سیکس یا بغیر نکاح زیادتی کے لیے بیچنے سے مشروط ہے۔

ڈسٹرکٹ بار میانوالی کی رکن نائلہ مشتاق کا ماننا ہے کہ پاکستان میں اندرون ملک ٹریفکنگ سے متعلق کوئی واضح قانون ہے اور نہ ہی رقم کے عوض شادی کو پریونشن آف اینٹی ویمن پریکٹسز ایکٹ کے تحت 'جبری شادی' کی وضاحت میں لایا گیا ہے۔

"شاید اسی لیے یہاں شادی کے نام پر خواتین کی خریدوفروخت کو جرم نہیں سمجھا جاتا اور یہ دھندہ تواتر سے جاری ہے۔"

ڈپٹی ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر خضر حیات خان نے لوک سجاگ کو بتایا کہ نکاح کر کے لائی جانے والی عورت سے بدسلوکی دوسرے کا گھریلو معاملہ سمجھا جاتا ہے جس میں کوئی مداخلت نہیں کرتا۔ لڑکی خرید کر شادی کرنے والے، بیوی کو اپنی ملکیت سمجھ کر ناروا سلوک کرتے ہیں اور عورتیں شکایت بھی نہیں کر سکتیں۔

گورنمنٹ کالج میانوالی میں نفسیات کے پروفیسر محمد اسامہ کہتے ہیں کہ غریب اور ناخواندہ خاندانوں کے لوگ ہی بیٹیوں کو بیچتے ہیں جن کو شادی کے بعد اکثر مار پیٹ اور تشدد کا سامنا رہتا ہے۔ اکیلے پن سے ان کی ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے اور یہ کبھی نارمل زندگی نہیں گزار پاتیں۔

قانون دان محمد سمیع اللہ کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کا رکن ہونے کی حیثیت سے پاکستان کئی پروٹوکولز اور عالمی کنونشنز کا دستخط کنندہ ہے۔ 'جبری شادیاں' یا عورتوں کی خریدو فروخت انسانی حقوق کی سنگین ورزی ہیں جن کو روکنے کے لیے ریاست کو قانون سازی سمیت فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔

(نوٹ:رقم کے عوض بیاہ کر لائی جانے والی خواتین کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں)

تاریخ اشاعت 14 مارچ 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

ماہ پارہ ذوالقدر کا تعلق میانوالی سے ہے اور درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں۔ ان کے پسندیدہ موضوعات میں ماحول، تعلیم، سماجی مسائل خصوصاً خواتین و بچوں کے مسائل شامل ہیں۔

thumb
سٹوری

خیبر پختونخواہ میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.