اسباب سارا لے گیا، آیا تھا اک سیلاب سا: اپر کوہستان میں متاثرینِ سیلاب کے پاس 'نہ تو خوراک اور خیمے ہیں اور نہ ہی ادویات اور علاج کی سہولتیں'۔

postImg

عمر باچا

postImg

اسباب سارا لے گیا، آیا تھا اک سیلاب سا: اپر کوہستان میں متاثرینِ سیلاب کے پاس 'نہ تو خوراک اور خیمے ہیں اور نہ ہی ادویات اور علاج کی سہولتیں'۔

عمر باچا

نارنگ شاہ 24 جولائی 2022 کی رات کو اپنے گھر میں سو رہے تھے کہ انہیں فائرنگ کی آواز آئی۔ جب انہوں نے بالکونی سے جھانک کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ یہ آواز کہاں سے آئی ہے تو انہیں پتہ چلا کہ ان کے محلے دار غلام نبی فائرنگ کر کے لوگوں کو خبردار کر رہے ہیں کہ ایک مقامی ندی میں طغیانی آنے والی ہے اس لیے وہ اپنے اہلِ خانہ کو لے کر کسی محفوظ جگہ پر چلے جائیں۔ 

ان کی ہدایت پر عمل درآمد کرتے ہوئے ان کے بیرتی نامی گاؤں کے سارے لوگ اپنے بیوی بچوں کو لے کر ایک قریبی پہاڑی پر چلے گئے جو خیبرپختونخوا کے شمالی ضلع اپر کوہستان کی تحصیل کندیا میں واقع ہے۔ نارنگ شاہ، جن کی عمر 47 سال ہے، کہتے ہیں کہ ان کے "وہاں پہنچنے کے تھوڑی دیر بعد ندی میں بہنے والا پانی اس قدر بپھر گیا کی وہ ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے گھر کو بہا لے گیا"۔ 

وہ سامان ڈھونے والی ایک پک اپ وین کے ڈرائیور ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے "سات سال کڑی محنت کر کے گھر بنانے کے لیے پیسے اکٹھے کیے تھے لیکن سیلاب نے لمحوں میں اسے ملیا میٹ کر دیا"۔ ان کے مطابق اب ان کے "خاندان کے پاس سر چھپانے کی جگہ بھی نہیں ہے"۔ 

ان کے سات بھائیوں کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔ ان کے گھر بہہ گئے ہیں اور وہ سینکڑوں دیگر متاثرینِ سیلاب کے ساتھ اپنے علاقے کی ایک مرکزی شاہراہ کے کنارے واقع بلند مقامات پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔ 

ان کے گاؤں کے رہنے والے 43 سالہ میور خان طغیانی کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جولائی کے تیسرے ہفتے میں اپر کوہستان کے مختلف حصوں میں تیز بارشیں شروع ہوئیں جو اس مہینے کی 24 تاریخ تک جاری رہیں۔ ان کے مطابق "ان بارشوں کا پانی ندی نالوں میں جمع ہو کر سیلاب کی شکل اختیار کر گیا" جس سے بیرتی اور اس کے قریب واقع جشوئی نامی گاؤں میں مجموعی طور پر 83 مکان مکمل طور پر ڈوب گئے جبکہ 26 کو جزوی نقصان پہنچا۔

اس تباہی کا شکار ہونے والے لوگوں میں 23 سالہ جعفر شاہ بھی شامل ہیں۔ ان کا گھر پانی میں ڈوب چکا ہے اور اب 17 افراد پر مشتمل ان کا گھرانہ دوسرے متاثرینِ سیلاب کے ساتھ کھلے آسمان تلے پڑا ہے۔ ان لوگوں کی حالتِ زار بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ "جیسے ہی انہیں بادل آتے دکھائی دیتے ہیں وہ کسی ایسی جگہ کی تلاش میں بھاگ نکلتے ہیں جہاں وہ بارش سے محفوظ رہ سکیں"۔

اگرچہ نارنگ شاہ کےخاندان سمیت کچھ متاثرین کو حکومت کی جانب سے خیمے فراہم کیے گئے ہیں لیکن انہیں شکایت ہے کہ یہ خیمے گرم موسم کے لیے موزوں نہیں۔ اس لیے وہ اور ان کے بچے "سارا دن درختوں کے سائے میں گزارتے ہیں"۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت نے انہیں کھانے پینے کا کوئی سامان فراہم نہیں کیا لہٰذا ان کی "خوارک کا تمام تر بندوبست وہ مقامی لوگ کر رہے ہیں جن کے گھر اونچائی پر ہونے کی وجہ سے سیلاب سے محفوظ رہے ہیں"۔

ایک مقامی غیرسرکاری تنظیم پاک مشن سوسائٹی کا کہنا ہے کہ سیلاب متاثرین کو ہیضے سمیت مختلف بیماریوں سے بچنے کے لیے دواؤں، پینے کے صاف پانی، مچھر دانیوں اور بیت الخلاؤں کی بھی شدید ضرورت ہے لیکن یہ سامان بھی ان تک نہیں پہنچ رہا۔  

کندیا تحصیل کونسل کے چیئرمین انور الحق اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ سیلاب کے متاثرین کو چند خیموں اور محدود مقدار میں راشن کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔ ان کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ "جب یہ لوگ ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں جا کر وہاں متعین اہل کاروں کو اپنی ضروریات سے آگاہ کرتے ہیں تو انہیں جواب ملتا ہے کہ ہم آپ کی مزید مدد نہیں کر سکتے کیونکہ نہ تو ہمارے پاس کوئی اختیارات ہیں اور نہ ہی کوئی مالی وسائل"۔ 

اپر کوہستان کے اسسٹنٹ کمشنر اور ضلعے میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے متعین کیے گئے آفسر حافظ وقار احمد بھی تسلیم کرتے ہیں کہ سیلاب کے متاثرین کو صرف ایک مرتبہ ہی راشن اور ادویات فراہم کی جا سکی ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ حکومت انہیں مالی امداد مہیا کرنے کے لیے ایک "سروے کر رہی ہے جو تقریباً مکمل ہونے والا ہے"۔ ان کے مطابق اس سروے کے بعد انہیں پیسے دے دیے جائیں گے تاکہ وہ اپنے مسائل خود حل کر سکیں۔

ملبے میں دب گئے، کبھی پانی میں بہہ گئے

اپر کوہستان کے علاوہ اس کے نواح میں واقع لوئر کوہستان، کولئی پلاس اور شانگلہ کے ضلعوں میں بھی درجنوں آبادیاں سیلاب کی تباہی کا شکار ہوئی ہیں۔ پاک مشن سوسائٹی نے اپنی رپورٹ میں ان نقصانات کی تفصیل فراہم کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان اضلاع میں دوہزار 40 کنال زرعی زمین، تین رابطہ پل، صاف پانی کی فراہمی کی چھ سکیمیں اور کئی نجی گاڑیاں شدید متاثر ہوئی ہیں جبکہ سیلابی پانی سو کے لگ بھگ مویشیوں کو بھی بہا لے گیا ہے۔ اسی طرح بہت سی رابطہ سڑکیں بھی ٹوٹ پھوٹ کر ناقابل استعمال ہو گئی ہیں۔

رپورٹ میں اس بات کی نشان دہی بھی کی گئی ہے کہ متاثرہ علاقوں میں صاف پانی اور بجلی دونوں میسر نہیں کیونکہ سیلاب نے پانی کی 24 گزرگاہوں، 11 پن چکیوں اور 21 چھوٹے پن بجلی گھروں کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ان میں سے ہر پن بجلی گھر کی تعمیر پر چار لاکھ سے پانچ لاکھ روپے خرچہ آیا تھا اور اس سے پیدا ہونے والی ایک سو 50 کلو واٹ بجلی 70 مقامی گھروں کو روشن رکھتی تھی۔ کندیا کے تحصیل دار نجیب اللہ قریشی کے مطابق بیرتی میں واقع لڑکوں کا سرکاری سکول بھی مکمل طور پر سیلاب کی نذر ہو گیا ہے۔

تاہم ان عمارتوں اور تنصیبات کی بحالی تو دور کی بات ہے حکومتی اہل کار ابھی تک کئی متاثرہ دیہات تک پہنچ بھی نہیں سکے۔ اس تاخیر کی وضاحت کرتے ہوئے حافظ وقار احمد کا کہنا ہے کہ اوچار نامی ایک مقامی نالے کا پل سیلاب میں بہہ جانے سے کندیا کا زمینی رابطہ اپر کوہستان کے دوسرے علاقوں سے منقطع ہو گیا تھا جس کی وجہ سے وہاں پھںسے ہوئے لوگوں کو فوری طور پر محفوظ مقامات پر پہنچانا ممکن نہ ہو سکا۔ ان کے مطابق "اگرچہ اس نالے پر ایک عارضی پل بنا دیا گیا تھا لیکن وہ بھی 11 اگست کی صبح آنے والے ایک سیلابی ریلے میں بہہ گیا جس کے باعث ابھی بھی امدادی مشینری کئی دیہات تک نہیں پہنچ سکی"۔  

قدرتی آفات کا قدرتی حل

متاثرین سیلاب کو شکوہ ہے کہ ایسا پہلی دفعہ نہیں ہو رہا بلکہ وہ کہتے ہیں کہ 2010، 2011، 2016 اور 2019 میں آنے والے سیلابوں کے نتیجے میں بھی وہ شدید انفرادی اور اجتماعی نقصانات اٹھا چکے ہیں۔ 

نجیب اللہ قریشی اس شکوے کو جائز سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر اس علاقے میں سیلاب کی پیشگی اطلاع فراہم کرنے کا کوئی انتظام موجود ہوتا تو ان نقصانات سے بہت حد تک بچا جا سکتا تھا۔ ان کے مطابق "اگرچہ صوبائی ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی خطرناک موسمی حالات کے بارے میں وقتاً فوقتاً عمومی اطلاعات جاری کرتی رہتی ہے لیکن ان سے کسی مخصوص علاقے میں سیلاب کے امکانات کے بارے میں کوئی آگاہی نہیں ملتی"۔

تاہم پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی نامی فلاحی تنظیم کے ایک سابق اہل کار جمال فواد حسنین کہتے ہیں کہ ان علاقوں کو سیلاب سے بچانے کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ پہاڑوں سے بہہ کر ندی نالوں میں شامل ہونے والے بارشی پانی کے راستے میں ایسی رکاوٹیں، یا چیک ڈیم، کھڑی کی جائیں جو اس کی رفتار کم کر سکیں۔ وہ قدرتی آفات سے نمٹنے کا 15 سالہ تجربہ رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ "ایسی رکاوٹوں کے ارد گرد وسیع پیمانے پر درخت لگانے اور ندی نالوں کے ساتھ حفاظتی پشتے تعمیر کرنے سے بھی سیلاب سے ہونے والے نقصانات میں کمی آ سکتی ہے" کیونکہ یہ تدابیر بھی سیلابی پانی کی رفتار کم کرنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔

تاریخ اشاعت 14 اگست 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

عمر باچا خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ سے تعلق رکھنے والے ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔ انسانی حقوق، سماجی مسائل، سیاحت اور معیشیت کے حوالے سے رپورٹنگ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی، عوام کے تحفظ کا ادارہ یا استحصال کاہتھیار؟

arrow

مزید پڑھیں

سہیل خان
thumb
سٹوری

کھانا بنانے اور پانی گرم کرنے کے لیے بجلی کے چولہے و گیزر کی خریداری کیوں بڑھ رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

پنجاب: حکومتی سکیمیں اور گندم کی کاشت؟

thumb
سٹوری

ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے کاشتکار ہزاروں ایکڑ گندم کاشت نہیں کر پا رہے۔ آخر ہوا کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد زعفران میانی

سموگ: ایک سانس ہی ہم پر حرام ہو گئی

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.