'کسان کھڑی فصلوں پہ ہل چلا رہے ہیں، سبزیوں کی اتنی بے قدری کبھی نہیں دیکھی'

postImg

آصف ریاض

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

'کسان کھڑی فصلوں پہ ہل چلا رہے ہیں، سبزیوں کی اتنی بے قدری کبھی نہیں دیکھی'

آصف ریاض

loop

انگریزی میں پڑھیں

شیخوپورہ کے گاؤں گوپی رائے کے غلام قادر ورک کی گزر بسر کا واحد ذریعہ ان کی دس ایکڑ زمین ہے۔ پچھلے سال انہیں گندم میں نقصان ہوا تو رواں برس انہوں نے گندم کا رقبہ کم کر کے پانچ ایکڑ پر مٹر، شلجم، مولی، گاجر، میتھی اور گوبھی لگا لی لیکن جب سبزیاں تیار ہوئیں اور وہ  انہیں لے کر منڈی پہنچے تو ان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔

"مجھے صرف گوبھی میں ڈھائی لاکھ روپے کا نقصان ہوا،  تنگ آکر میں نے ایک ایکڑ پر کھڑی گوبھی کی فصل پر ہل چلا دیے ہیں۔ مٹر، گاجر وغیرہ بیچنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن منڈی میں ہر سبزی ٹکا ٹوکری ہوئی پڑی ہے۔"

غلام قادر اس صورت حال کاذمہ دار حکومت کو قرار دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب سے موجودہ حکومت آئی ہے اس نے کسانوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ایک ہی سال میں پہلے گندم میں لاکھوں کا نقصان ہوا اور اب سبزیوں میں کاشت کاروں کا کباڑا ہو گیا ہے۔

ضلع وہاڑی چک 531 ای بی کے  چوہدری عمیر علی نے بھی اس بار گندم کی جگہ دو ایکڑ مٹر اور باقی دو ایکڑ پر گوبھی، پیاز، گاجر  وغیرہ کاشت کی ہیں اور وہ بھی سخت پریشان ہیں۔ "ایک من مٹر کا تھیلا منڈی میں زیادہ سے زیادہ 1200 روپے میں بک رہا ہے جو میری نقد لاگت سے بھی کم ہے۔"

محکمہ زراعت پنجاب کا ذیلی ادارہ  کراپ رپورٹنگ سروس تصدیق کرتا ہے کہ گزشتہ سال مٹر کو منڈی تک پہنچانے کی کسان کی فی من لاگت ایک ہزار 942 روپے تھی۔ اگر اس تخمینے کو درست تسلیم کر لیا جائے تو چوہدری عمیر کو فی من 720 روپے اور اوسطاً فی ایکڑ 60 ہزار روپے نقصان ہوا۔

Photo 1

سبزیوں کی قیمتیں پچھلے پانچ برسوں کی کم ترین سطح پر آ چکی ہیں

عمیر علی نے فصل خراب ہونے کے خدشے کے باوجود کچھ روز سبزیوں کی چنائی اور کٹائی روکے رکھی کہ شاید رمضان میں بہتر قیمت مل جائے  مگر اس کا بھی کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔

ملک بھر میں سبزیوں کے ہزاروں کاشتکاروں اسی بحران سے گزر رہے ہیں جنہیں محنت، وقت اور سرمایہ لگانے کے باوجود خسارے کا سامنا ہے۔

ضلع ساہیوال میں چیچہ وطنی سبزی منڈی کے آڑھتی محمد امین بتاتے ہیں کہ 20 برسوں میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ کسان گنے کی طرح  ٹرالیوں میں بھر بھر کر سبزی لا رہے ہیں اور ٹرالیوں ہی کی بولیاں لگ رہی ہیں۔ سبزیوں کی کبھی اتنی بے قدری ہوتی نہیں دیکھی ہے۔
مٹر، گوبھی، گاجر اور مولی کی قیمتیں اس قدر کم ہو گئی ہیں کہ کسان کھڑی فصل تلف کر رہے ہیں یا پھر لوگوں کو سبزیاں مفت لے جانے کا کہہ رہے ہیں۔ 

لاہور کی سبزی منڈی کے آڑھتی فلک شیر بتاتے ہیں کہ ہر سال جب پنجاب سے سبزی آنا شروع ہوتی ہے تو نرخ کچھ کم ہو ہی جاتے ہیں لیکن اس بار بحران اتنا شدید ہے کہ لوگ مویشیوں کے لیے بھی سبزیاں خرید لے جا رہے ہیں۔

صوبائی دارالحکومت کی ہول سیل مارکیٹ کے تجزیے کے مطابق سبزیوں کی قیمتیں پچھلے پانچ برسوں کی کم ترین سطح پر آ چکی ہیں۔ 

فلک شیر کہتے ہیں کہ اس صورت حال سے آڑھتیوں کا بھی نقصان ہو رہا ہے جو کسانوں کو ایڈوانس دے کر سبزی لگواتے ہیں۔ فصل آنے پر کسان قرض واپس کر دیتے ہیں۔ اب کسانوں کو فصل اٹھانے اور  منڈی تک لانے کا خرچ ہی وصول نہیں ہو رہا تو وہ آڑھتیوں کی رقم کیسے چکائیں گے؟

طلب اور رسد کا کھیل: گندم کے ڈسے کو سبزیاں بھی نہ بچا سکیں

فلک شیر کے نزدیک یہ سارا کھیل طلب اور رسد کا ہے۔ پچھلے سال گندم کے ستائے ہوئے کاشت کاروں نے گندم کا رقبہ کم کر کے اس پر سبزیاں لگائیں تو مارکیٹ میں ان کی بہتات ہوگئی۔

سبزیوں پر تحقیق کرنے والے سرکاری ادارے ایوب ایگریکلچر انسٹی ٹیوٹ، فیصل آباد کے سینئر سائنٹسٹ عامر لطیف بھی اتفاق کرتے ہیں کہ سپلائی بڑھنے سے سبزیوں کی قیمتوں میں کمی آئی ہے۔

"پچھلے سال کسانوں کو گندم کی مناسب قیمت نہیں ملی تو رواں سال انھوں نے متبادل فصلوں کو اپنایا جن میں سبزیاں سرِفہرست ہیں۔"

محکمہ زراعت پنجاب کے اعداد و شمار تائید کرتے ہیں کہ رواں سال صوبے میں گندم  پچھلے سال کے مقابلے میں 11 لاکھ 91 ہزار ایکڑ کم کاشت ہوئی ہے۔ ربیع سیزن میں چنے اور سبز چارہ جات کے رقبے میں بھی کمی دیکھی گئی ہے۔

دوسری جانب سبزیوں کی کاشت میں نمایاں اضافہ ہوا۔ مٹر کے رقبے میں ایک لاکھ 18 ہزار ایکڑ (64 فیصد) اور آلو کے رقبے میں ایک لاکھ 18 ہزار ایکڑ (15 فیصد) اضافہ ہوا۔ اسی طرح پیاز کی کاشت 10 ہزار 800 ایکڑ (15 فیصد) بڑھی ہے۔

کراپ رپورٹنگ سروس کے عہدے داروں کے مطابق ٹماٹر، لہسن، گوبھی، گاجر، مولی سمیت دوسری سبزیوں کے زیرکاشت رقبے کا تخمینہ لگانے کا کام ابھی مکمل نہیں ہوا لیکن یہ واضح ہے کہ ان کی کاشت میں کافی اضافہ ہوا ہے۔

'زیادہ کاشت مسئلہ نہیں پورا سسٹم گڑبڑ ہے'

عامر لطیف کے مطابق  اکتوبر اور نومبر میں شدید سموگ کی وجہ سے اگیتی سبزیاں متاثر ہوئیں تو رسد میں کمی کی وجہ سے ان کے نرخ بہت بڑھ گئے۔ اس سے متاثر ہو کر کسانوں نے سبزیاں زیادہ کاشت کر لیں اور جب یہ ایک ساتھ مارکیٹ میں پہنچیں تو  قیمتیں زمین بوس ہو گئیں۔

لودھراں کے پروگریسو کاشت کار اور سبزیوں کے ایکسپورٹر کاشف اسلام، ریسرچر عامر لطیف اور آڑھتی فلک شیر اس سے اختلاف کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں مسئلہ اضافی پیداوار یا زیادہ کاشت کا نہیں بلکہ پورا سسٹم گڑبڑ ہے۔

کاشف کہتے ہیں: "ہمیں سبزیاں جلد بازی میں منڈی پہنچانی ہوتی ہیں کیونکہ اگر تاخیر ہو جائے تو یہ خراب ہو جاتی ہیں۔ اس جلد بازی کے نتیجے میں رسد یکدم بڑھ جاتی ہے جس سے قیمتیں گر جاتی ہیں اور  کسان کے اخراجات بھی پورے نہیں ہو پاتے۔"

وہ کہتے ہیں کہ پراسیسنگ، سٹوریج اور کولڈ چین کی جدید سہولیات میسر ہوں تو سبزیوں کی شیلف لائف بڑھ جاتی ہے۔ "اس سے پیداوار منڈی پہنچانے میں جلد بازی کی ضرورت نہیں رہتی۔ نتیجے میں ایک طرف تو رسد اور طلب میں توزان آ تا ہے، قیمیتیں مستحکم رہتی ہیں اور پھر ایکسپورٹ میں بھی آسانی ہو جاتی ہے۔" 

ان کے مطابق دنیا بھر میں ڈی ہائیڈریٹڈ (خشک شدہ) سبزیاں عام ہیں جو طویل عرصہ محفوظ رہتی ہیں مگر یہ پاکستانی صارفین کا مزاج نہیں

وافر سبزیاں عالمی منڈیوں تک کیوں نہیں پہنچ پاتیں؟

محمد یوسف گل، گجرات میں سبزیوں کے بڑے ایکسپورٹر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ وافر پیداوار کے باوجود پاکستانی سبزیاں عالمی منڈیوں تک نہیں پہنچ پاتیں۔ یہاں سے سبزیاں زیادہ تر گرمیوں میں افغانستان ایکسپورٹ ہوتی ہیں جن میں کریلا، بھنڈی وغیرہ شامل ہیں۔ 
سردیوں کی سبزیاں بہت کم جاتی ہیں ان میں بھی کچھ سالوں سے اضافی ٹیکس اور افغان بارڈر پر بندشوں کے باعث مزید کمی آئی ہے۔

ان کے مطابق پچھلے ایک دو سال میں بعض نئے ایکسپورٹرز نے خلیجی منڈیوں تک رسائی حاصل کی ہے  لیکن وہاں بھی پیاز، لہسن، مٹر، گاجر اور شلجم وغیرہ  بھیجے جاتے ہیں جو جلد خراب نہیں ہوتے۔ 
گوبھی، ٹماٹر یا دوسری سبزیاں زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ خراب نہیں ہوتیں اسی لیے یہ افغانستان تک ہی جا پاتی ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پچھلے پانچ سال میں پاکستان سے مٹر اور گاجر کی  جتنی بھی ایکسپورٹ ہوئی وہ خلیجی ملکوں میں ہوئی جبکہ گوبھی کی منزل صرف افغانستان ہی رہی۔

کاشف اسلام کہتے ہیں کہ افغانستان میں سبزیاں کاشت ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ شاید پاکستان کے پاس یہ مارکیٹ بھی زیادہ دیر نہیں رہے گی۔ جبکہ یورپ میں ایکسپورٹ کے لیے سخت سرٹیفیکیشن درکار ہوتی ہے جو ہر کسان یا چھوٹے ایکسپورٹر کے لیے ممکن نہیں۔ 

"ہمیں کاشت کاروں کی رہنمائی کرنا ہو گی، ضلعے کی سطح پر کسانوں کے کارٹیلز بنا کر انہیں عالمی معیار کی پیداوار اور پیکنگ کے لیے جدید مشینری اور تربیت دینا ہو گی۔ تب ہی عالمی مارکیٹ میں بھی قدم جمائے جا سکتے ہیں۔"

تاریخ اشاعت 8 مارچ 2025

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد آصف ریاض رپورٹر ہیں اور ان کا کام کھیت سے منڈی اور صارف تک زرعی شعبے کے جملہ امور اور مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔

خاموش واپسی یا زبردستی اخراج؟ افغان پناہ گزینوں کی حقیقی کہانیاں

سندھ: کینیڈا سے سائنس سمجھانے آیا محمد نواز سومرو

thumb
سٹوری

طویل لوڈ شیڈنگ سے دنیا کی چھٹی بڑی سولر مارکیٹ بننے کا سفر: کیا نئی پالیسی سے 'سولر سونامی' تھم جائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

سجاگ رپورٹ
thumb
سٹوری

انصاف کی راہ میں گھات لگائے راہزن: اپنی جان لینے والے نیسلے ملازم کی کہانی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceامین وارثی

سولر لگانے والے کیوں پریشان ہیں؟

دریاؤں کے لئے کچھ کرنے کے عالمی دن پر دریائے سندھ کو خراج تحسین

مزدور انصاف مانگتا ہے، عدالت تاریخ دے دیتی ہے

thumb
سٹوری

گناہ بے لذت: گلگت بلتستان میں لوڈشیڈنگ کم کر نے کے لیے ڈیزل جنریٹرز، بجلی تو پھر بھی نہ آئی اور آلودگی بڑھ گئی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر

برطانیہ کی پنجابی دشمنی ہمارے حکمران لے کر چل رہے ہیں

thumb
سٹوری

'کسان کھڑی فصلوں پہ ہل چلا رہے ہیں، سبزیوں کی اتنی بے قدری کبھی نہیں دیکھی'

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ریاض
thumb
سٹوری

شینا کوہستانی یا انڈس کوہستانی: اصلی 'کوہستانی' زبان کون سی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر توروالی
thumb
سٹوری

پاکستان میں لسانی شناختوں کی بنتی بگڑتی بساط: مردم شماریوں کے ڈیٹا کی نظر سے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceطاہر مہدی
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.