کھانا بنانے اور پانی گرم کرنے کے لیے بجلی کے چولہے و گیزر کی خریداری کیوں بڑھ رہی ہے؟

postImg

آصف محمود

postImg

کھانا بنانے اور پانی گرم کرنے کے لیے بجلی کے چولہے و گیزر کی خریداری کیوں بڑھ رہی ہے؟

آصف محمود

عاصمہ آفتاب، لاہور کے علاقہ مناواں کی رہائشی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کے علاقے میں اکثر گیس کی قلت رہتی ہے جبکہ سردیوں میں گیس صبح اور دوپہر کو بہت کم وقت کے لیے آتی ہے جس کا پریشر بھی کم ہوتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ محلے میں بعض لوگ گیس کا پریشر بڑھانے کے لیے کمپریسر لگا لیتے ہیں جس کی وجہ سے باقی گھروں میں گیس بالکل ہی بند ہو جاتی ہے اور کھانا بنانا ناممکن ہو جاتا ہے۔

"تنگ آکر میں نے الیکٹرک (برقی) چولہا خرید لیا ہے، ہمارے گھر میں پانچ کلو واٹ کا سولر سسٹم موجود ہے۔ جب چولہا جلانا ہوتا ہے اس وقت ہم دیگر تمام برقی آلات بند کر دیتے ہیں لیکن رات کو لیسکو والی بجلی ہی استعمال کرتے ہیں۔"

عاصمہ آفتاب کو الیکٹرک چولہا خریدے ڈیڑھ ماہ ہو گیا ہے اور وہ اس سے مطمئن دکھائی دیتی دیں۔ کہتی ہیں کہ کھانا بنانے کے لیے گیس کے انتظار اور اس کی بو دونوں سے جان چھوٹ گئی ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ الیکٹرک چولہا جلانے سے بجلی کا بل کتنا آیا؟ تو مسکراتے ہوئے بتایا کہ ماہانہ بل میں لگ بھگ 12 سو  روپے کا اضافہ ہوا ہے۔

"ہم دن کو سولر استعمال کرتے ہیں مگر رات کو چوں کہ پانی کا پمپ، استری اور فریج بجلی پر چلتے ہیں اس لیے ماہانہ بل عموماً چار سے پانچ ہزار روپے آتا ہے۔ اس بار الیکٹرک چولہا استعمال ہونے کے بعد بل چھ ہزار سے کچھ زیادہ آیا ہے۔"

ملک اور خصوصاً لاہور میں سردیوں کے دوران پانی گرم کرنے کے لیے گیزر کا استعمال عام ہے جس میں زیادہ تر گیس ہی جلائی جاتی ہے۔ مگر اب اس رحجان میں بھی تبدیلی دکھائی دے رہی ہے۔

 مغل پورہ کے رہائشی محمد نعیم بتاتے ہیں کہ گیس کے نرخ بڑھ چکے ہیں اور گیزر کے برنر کا پائلٹ ہر وقت چلتا رہتا تھا جس سے بھاری بل آ جاتا تھا۔  اب انہوں نے انسٹینٹ الیکٹرک واٹر ہیٹر(برقی گیزر) لگا لیا ہے جو گیس کے گیزر کی نسبت سستا پڑتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ الیکٹرک گیزر کے تھرموسٹیٹ کو سیٹ کر لیں تو مقررہ حد تک پانی گرم ہونے کے بعد ہیٹر خود بخود بند ہوجاتا ہے۔ جب پانی استعمال ہو گا تو یہ خود ہی آن ہو جائےگا یعنی بجلی ضائع نہیں ہوتی۔

پاکستان میں سولر سسٹم عام ہونے کی وجہ سے بھی برقی آلات کا استعمال اور خریداری بڑھ رہی ہے جو گیس اپلائنسز کے مقابلے میں ماحول دوست ہیں۔

عالمی ڈیٹا ویب سائٹ اسٹیٹسا  بھی تصدیق کرتی ہے کہ مالی مشکلات کے باوجود پاکستانی صارفین میں بڑھتی ہوئی آگہی اور حکومتی اقدامات کے باعث توانائی بچانے والے (انرجی ایفیشنٹ) گھریلو آلات کی مانگ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

رواں سال(2024ء) ملک میں گھریلو آلات کی مارکیٹ کی آمدنی 5.61 ارب امریکی ڈالر رہی جبکہ اگلے پانچ سال کے دوران یعنی 2029ء تک اس میں سالانہ 0.74 فیصد اضافے کی توقع ہے۔ ان آلات کی فروخت میں آن لائن مارکیٹ کا حصہ 25 فیصد بنتا ہے۔

اس ویب سائٹ کے مطابق عالمی سطح پر دیکھا جائے تو چین نے رواں سال گھریلو آلات سے 160 ارب ڈالر کمائے ہیں۔

پاکستان میں برقی آلات بیچنے والی بین الاقوامی کمنیوں کی کارکرگی پر نظر ڈالی جائے تو 'ہائیر' مارکیٹ میں چھ فیصد شیئر کے ساتھ ٹاپ پر رہی، توشیبا کا پانچ فیصد اور سام سانگ کا شیئر تین فیصد رہا۔

اگرچہ خواتین کے لیے گیس والے چولہے پر کھانا بنانا زیادہ آسان ہے جو تیز آگ پر جلدی تیار ہو جاتا ہے۔ تاہم گیس کی قلت اور بھاری بلوں کے باعث متبادل یعنی الیکٹرک چولہے کا استعمال بڑھ رہا ہے۔

عابد مارکیٹ لاہور کے تاجر میاں عبدالرحمن بتاتے ہیں کہ اس وقت بجلی کے دو اقسام کے چولہے دستیاب ہیں جن میں الیکٹرک ہیٹر اور دوسرا ڈیسک ٹاپ چولہا یا انڈکشن کک ٹاپ ہے۔ انڈکشن چولہے کی خصوصیت یہ ہے کہ اگر غلطی سے اس پر ہاتھ لگ جائے تو زیادہ نقصان نہیں پہنچتا۔

وہ کہتے ہیں کہ الیکٹرک اور انڈکشن چولہے گرم اور ٹھنڈا ہونے میں گیس چولہوں کی نسبت زیادہ وقت لیتے ہیں۔اس کے علاوہ انڈکشن پر پکانے کے لیے مخصوص دھاتوں سے تیار کیے گئے'نان سٹک' برتنوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

"جن لوگوں نے تیار شدہ کھانا صرف گرم کرنا ہوتا ہے وہ زیادہ تر پورٹیبل اور کاؤنٹر ٹاپ وغیرہ یعنی بجلی سے چلنے والے ٹوسٹر اوون، ایئر فرائیر اور سلو ککر جیسے آلات رکھتے ہیں۔ یہ ناصرف کم خرچ اور ماحول دوست ہیں بلکہ استعمال میں آسان بھی ہوتے ہیں۔"

ایک اور تاجر شیخ محمد ابراہیم بتاتے ہیں کہ گھریلو برقی آلات میں سے چولہے،گیزر، اوون اور ٹوسٹر کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔ اوون اور ٹوسٹر درمیانہ طبقہ بھی خریدتا ہے جبکہ الیکٹرک چولہے اور انڈکشن زیادہ تر متمول لوگ ہی لیتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ لاہور کے کئی نئے رہائشی علاقوں میں سوئی گیس میسر ہی نہیں ہے جہاں لوگ عموماً ایل پی جی استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اس کی قیمت میں اضافے اور ماحولیاتی شعور کی وجہ سے لوگ اب برقی چولہوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مارکیٹ میں سیل کے درست اعدادوشمار کا تو انہیں اندازہ نہیں البتہ ان کی اپنی دکان پر گزشتہ تین ماہ کے دوران الیکٹرک چولہوں، الیکٹرک گیزر اور انڈیکشن کی فروخت میں 10 سے 15 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

غیرسرکاری ادارے 'دی نالج فور م' کی ڈائریکٹر زینیا شوکت بتاتی ہیں کہ برصغیر کے لوگ آگ پر تیار کیے گئے کھانوں کو زیادہ پسند کرتے ہیں اور ان کا ذائقہ ڈیویلپ ہوچکا ہے۔ لیکن گیس کم اور مہنگی ہوتی جارہی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ دیہات میں لوگ لکڑی، گوبر کے اوپلے اور فصلوں کی باقیات وغیرہ جیسا روایتی ایندھن جلا لیتے ہیں لیکن شہروں میں یہ ممکن نہیں ہے۔ دوسری طرف بجلی کی قیمتوں میں تین سال کے دوران 155 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

ان کا ماننا ہے کہ حکومت کوئی واضح متبادل پلان نہیں دے پا رہی۔کم آمدنی والے خاندان برقی آلات کے استعمال کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ کئی علاقے تو ایسے ہیں جہاں اب بھی کئی کئی گھنٹے لوڈ شیڈنگ رہتی ہے۔ ان حالات میں حکومت کو موثر اور قابل عمل منصوبہ سامنے لانا ہوگا۔

تاہم بعض ماہرین کا خیال ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں کمی کی حکومتی کوششوں کی وجہ سے برقی آلات کے استعمال میں تیزی آئی ہے۔ واضح رہے کہ وزیراعظم نے گزشتہ ماہ بجلی کے استعمال کے حوالے سے 'ونٹر پیکج' کا اعلان کیا تھا۔

نیپرا کے مطابق ونٹرپیکیج کے تحت گزشتہ سال کے مقابلے میں بجلی کے زیادہ استعمال پر اضافی بجلی کی قیمت فی یونٹ 26 روپےسات پیسے ہوگی۔ اس رعایت کی میعاد تین ماہ (دسمبر تا فروری) مقرر کی گئی ہے جو صارفین کو دسمبر کے بلوں سے ملے گی۔

ملک میں بعض گھرانے کھانا بنانے اور پانی گرم کرنے کے لیے سستا ایندھن 'بائیوماس' بھی استعمال کررہے ہیں جو کھاد(گوبر) اور کوڑے کو ملا کر بنایا جاتا ہے۔

محمد بشارت، مغلپورہ میں بائیوماس پر چلنے والے چولہے تیار کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ 'بائیوماس' توانائی کا ماحول دوست ذریعہ ہے جس سے جلنے والے عام چولہے پر چھ افراد کا کھانا بآسانی بنایا جا سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ بائیوماس والے چولہے سے دھواں نہیں نکلتا، اس کے لیے گیس کی ضرورت ہے نہ ہی زیادہ بجلی کی۔ اس میں ایک چھوٹا کمپریسر لگایا جاتا ہے جو پاوربینک سے بھی چلایا جاسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

گیس کی قیمتیں سال میں تین بار بڑھائی گئیں پھر گھروں میں چولہے کیوں نہیں جلتے؟

"ایک خاندان اگر ماہانہ چار ہزار کی ایل پی جی جلاتا ہے تو ان کا بائیوماس چولہے کا خرچ صرف دو سے ڈھائی ہزارروپے ہوگا، اب تو پکوان سنٹر بھی یہی چولہا استعمال کررہے ہیں۔"

توانائی اور ماحولیات پر کام کرنے والے تھنک ٹینک 'رینیوایبل فرسٹ 'کی مینجر لرننگ اینڈ کمیونیکیشن کومل طارق کا ماننا ہے کہ گیس، بجلی یا بائیو فیول کا استعمال تو صارفین کی ضرورت اور بجٹ پر منحصر ہے۔

"تاہم یہ طے ہے کہ گیس، تیل یا لکڑی وغیرہ سے خارج ہونے والا دھواں اور کاربن مونو آکسائیڈ ہماری صحت و ماحول دونوں کے لیے زہر قاتل ہیں جن سے جان چھڑانی ہے تو ماحول دوست آلات کا استعمال بڑھانا ہو گا۔"

وہ کہتی ہیں کہ گیس سے الیکٹرک یا انڈکشن چولہوں کی جانب منتقلی کا عمل کوئی زیادہ پیچیدہ نہیں ہے۔ جدید برقی چولہوں میں وہی خصوصیات ہیں جو عام گیس والے چولہے میں ہوتی ہیں۔

کومل طارق کے مطابق حکومت کچھ ایسا منصوبہ بنارہی ہے جس کے تحت گھریلو صارفین کو فراہم کی جانے والی گیس، پاور پروڈیوسرز(آئی پی پیز) کو دی جائے گی جو انہیں امپورٹڈ ایندھن کی نسبت سستی پڑے گی۔

"لاگت کم ہو گی تو بجلی صارفین کو بھی سستی ملے گی۔"

وہ سمجھتی ہیں کہ ماحولیاتی شعور اور مستقبل میں بجلی سستی ہونے کی امید پر لوگ برقی آلات کے استعمال کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

ماہرین کی آرا اپنی جگہ، مارکیٹ کے جائزے سے لگتا یہی ہے کہ گیس کے بھاری بلوں کاخوف اور سولر توانائی کی سہولت مل کر شہریوں کو الیکٹرک چولہوں و گیزرز کی طرف کھینچ رہے ہیں۔

تاریخ اشاعت 14 دسمبر 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

آصف محمودکا تعلق لاہور سے ہے۔ گزشتہ 20 سال سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ غیرمسلم اقلیتوں، ٹرانس جینڈرکمیونٹی، موسمیاتی تبدیلیوں، جنگلات، جنگلی حیات اور آثار قدیمہ سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

'میری کروڑوں کی زمین اب کوئی 50 ہزار میں بھی نہیں خریدتا': داسو-اسلام آباد ٹرانسمیشن لائن پر بشام احتجاج کیوں کر رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

شوگر ملوں کے ترازو 83 ارب روپے کی ڈنڈی کیسے مار رہے ہیں؟ کین کمشنر کا دفتر کیوں بند ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ریاض
thumb
سٹوری

دیامر میں درختوں کی کٹائی، جی بی حکومت کا نیا'فاریسٹ ورکنگ پلان' کیا رنگ دکھائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر

شیخ ایاز میلو: میرا انتساب نوجوان نسل کے نام، اکسویں صدی کے نام

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں مادری زبانوں کی تعلیم کا اقدام کتنا موثر ثابت ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

بہاولپور میں طالبہ کا سفاکانہ قتل، پولیس مرکزی ملزم تک کیسے پہنچی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر خان

نئی نہروں کا مسئلہ اور سندھ کے اعتراضات

thumb
سٹوری

شام میں ملیشیا کے کیمپوں میں محصور پاکستانی جنہیں ریاست نے اکیلا چھوڑ دیا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر خان
thumb
سٹوری

زرعی انکم ٹیکس کیا ہے اور یہ کن کسانوں پر لاگو ہوگا؟

arrow

مزید پڑھیں

عبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی، عوام کے تحفظ کا ادارہ یا استحصال کاہتھیار؟

arrow

مزید پڑھیں

سہیل خان
thumb
سٹوری

کھانا بنانے اور پانی گرم کرنے کے لیے بجلی کے چولہے و گیزر کی خریداری کیوں بڑھ رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

پنجاب: حکومتی سکیمیں اور گندم کی کاشت؟

Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.