'ٹینکر نہ آئے تو پیاسا رہنا پڑتا ہے'، میرپور خاص میں سیلاب متاثرین کے لیے پینے کا پانی نایاب ہو گیا

postImg

کلیم اللہ

postImg

'ٹینکر نہ آئے تو پیاسا رہنا پڑتا ہے'، میرپور خاص میں سیلاب متاثرین کے لیے پینے کا پانی نایاب ہو گیا

کلیم اللہ

رواں ماہ کے اوائل میں دن 11 بجے سندھ کے ضلع میرپور خاص کے گاؤں فتح خان پتافی میں خواتین اور بچوں سمیت بہت سے لوگ پانی کے ایک ٹینکر کے گرد جمع ہیں۔ ان میں ہر شخص دوسرے کو پیچھے دھکیل کر پانی بھرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ٹینکر کے گرد دھکم پیل دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے پانی کم اور اس کے ضرورت مند زیادہ ہیں جنہیں خدشہ ہے کہ اگر انہوں نے جلدی نہ کی تو ٹینکر خالی ہو جائے گا اور وہ پانی سے محروم رہ جائیں گے۔

کچھ دیر کے بعد یہ ٹینکر اگلے گاؤں کی جانب روانہ ہو جاتا ہے جہاں دوبارہ یہی منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ فتح خان پتافی اور اس سے متصل دیہات میرپور خاص کی تحصیل جھڈو سے دو کلومیٹر جنوب میں واقع ہیں جہاں زیرِ زمین پانی پینے کے قابل نہیں ہے۔ یہاں رہنے والے لوگ کچھ عرصہ پہلے تک قریبی جھمڑاؤ نہر سے پانی حاصل کرتے تھے جو سیلاب میں کئی مقامات پر شگاف پڑنے کے بعد بند کی جا چکی ہے۔ اس لئے آج کل یہ لوگ روزِ مرہ ضروریات کے لئے ٹینکر سے فراہم کیے جانے والے پانی کی محدود مقدار پر ہی گزارا کر رہے ہیں جو انہیں خاصی تگ و دو کے بعد نصیب ہوتا ہے۔

جھڈو شہر سے نوکوٹ نامی قصبے کی طرف جائیں تو سڑک کے کنارے جگہ جگہ پلاسٹک کے نیلے اور سفید گیلن دکھائی دیتے ہیں۔ یہ گیلن مقامی دیہاتیوں نے ٹینکر سے پانی بھرنے کے لئے پہلے سے تیار رکھے ہوئے ہیں کیونکہ ٹینکر نے سڑک پر مختصر وقت کے لئے رک کر آگے بڑھ جانا ہے۔

یہاں پانی کے انتظار میں کھڑے 50 سالہ محمد سومار بتاتے ہیں کہ ان دنوں یہ ٹینکر ہی اس علاقے میں پینے کے پانی کا واحد ذریعہ ہے۔ اگر کسی وجہ سے کوئی شخص پانی نہ بھر سکے تو اسے اور اس کے اہلِ خانہ کو یا تو پیاسا رہنا پڑتا ہے یا دوسروں سے پانی مانگنا پڑتا ہے۔ اگرچہ علاقے میں لگے نلکوں میں بھی پانی آتا ہے لیکن وہ کڑوا اور مضرِ صحت ہونے کی بنا پر پینے کے قابل نہیں ہوتا۔

سومار بتاتے ہیں کہ سیلاب کے فوری بعد جب ٹینکر دستیاب نہیں تھے تو لوگوں کی بڑی تعداد نلکوں کا پانی پینے کے باعث پیٹ اور جِلد کی بیماریوں میں مبتلا ہو گئی تھی۔ یہاں پر پانی بھرنے کے لئے آنے والی بیشتر خواتین کے ہاتھوں، بازوؤں اور چہرے پر دانے صاف دکھائی دیتے ہیں۔ یہ خواتین سومار کی بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان کی یہ حالت آلودہ پانی پینے کے باعث ہے۔ انہی خواتین میں موجود 25 سالہ ساجدہ کا کہنا ہے کہ علاقے میں خواتین کی بڑی تعداد پورے جسم پر ایسے دانوں کی موجودگی کے باعث سخت تکلیف کا شکار ہے۔

ساجدہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹینکر سے انہیں محدود مقدار میں پانی ملتا ہے جسے صرف پینے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ انہیں برتن اور کپڑے دھونے کے لئے قریبی تالاب میں جمع سیلابی پانی پر انحصار کرنا پڑتا ہے جس سے خاص طور پر خواتین اور بچوں میں کئی طرح کی جِلدی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ چونکہ اس علاقے میں علاج کی سہولیات بھی دستیاب نہیں ہیں اس لئے اکثر لوگوں کی بیماری سنگین صورت اختیار کر جاتی ہے۔ سومار بتاتے ہیں کہ سیلابی پانی پینے والے جانور بھی کئی طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو کر مر رہے ہیں۔

اقوامِ متحدہ میں امدادی امور کے دفتر کی جانب سے 5 دسمبر 2022 کو جاری کردہ رپورٹ میں بھی اس مسئلہ کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی سیلاب متاثرین کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے سندھ میں اب تک چار لاکھ 73 ہزار لوگوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا اہتمام کیا جا چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

اگر فرصت ملے پانی کی تحریروں کو پڑھ لینا: ٹھری میرواہ کے کئی دیہات میں اب بھی آٹھ سے دس فٹ سیلابی پانی کھڑا ہے۔

سومار اور ساجدہ کے گاؤں میں پانی فراہم کرنے والا ٹینکر مقامی فلاحی تنظیم ایکشن فار ویلفیئر اینڈ اویکنگ ان رورل انوائرمنٹ (AWARE) کی جانب سے بھیجا جاتا ہے۔ اس تنظیم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر علی اکبر کہتے ہیں کہ وہ ان دونوں دیہات سمیت اس یونین کونسل (روشن آباد) کو روزانہ 40 ہزار لیٹر پانی فراہم کر رہے ہیں اور جن دیہات میں ٹینکر نہیں جا سکتا وہاں ایک موبائل پلانٹ کی مدد سے روزانہ 24 ہزار لیٹر پانی مہیا کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے اس علاقے میں زیرِ زمین پانی پہلے سے زیادہ خراب ہو گیا ہے جس کے باعث مقامی لوگوں کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔

علی اکبر کہتے ہیں کہ ’’غیر سرکاری تنظیموں کے لئے اس قدر بڑے پیمانے پر پانی کی فراہمی ممکن نہیں لیکن حکومت چاہے تو سب کچھ کر سکتی ہے۔ اب میڈیا میں سیلاب متاثرین کا مسئلہ ٹھنڈا پڑ گیا ہے تو حکومت بھی کہیں نظر نہیں آرہی حالانکہ یہی وہ وقت ہے جب لوگوں کو حکومت کی زیادہ ضرورت ہے کیوں کہ سرکاری مدد کے بغیر سیلاب متاثرین کی بحالی ممکن نہیں۔‘‘

تاریخ اشاعت 10 دسمبر 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

کلیم اللہ نسلی و علاقائی اقلیتوں کو درپیش مخصوص مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے لیڈز یونیورسٹی لاہور سے ماس کمیونیکیشن میں بی ایس آنرز کیا ہے۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.