لوئر دیر کے ایک گاؤں میں مقامی جرگے نے خواتین کے بارے میں ایک انوکھا فیصلہ کیا ہے جس کی علاقے میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
اس فیصلے کے مطابق گاؤں میں کسی دلہن کا حق مہر ایک تولہ سونے سے کم یا زیادہ نہیں ہو گا۔ جرگے نے اس فیصلے سے روگردانی کرنے والوں کی سزا بھی طے کر دی ہے جس کے مطابق پورا گاؤں ایسے خاندان کا سماجی بائیکاٹ کرے گا اور اسے ایک لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔
یہ فیصلہ تین سو گھرانوں پر مشتمل گاؤں ماچلے کے ایک جرگے نے کیا ہے۔ ماچلے لوئر دیر کی یونین کونسل درہ اکاخیل میں واقع ہے۔
مقامی مشران کے جرگے کے مطابق یہ فیصلہ سونے کی قیمت میں بے تحاشہ اضافے اور حالیہ مہنگائی کے باعث کیا گیا ہے۔
جرگے کی سربراہی کرنے والے 52 سالہ نصیب گل نے بتایا کہ گاؤں میں شادی کے موقع پر چار سے سات تولے سونا بطور حق مہر مقرر کرنے کا رواج ہے لیکن اب اتنے سونے کا انتظام کرنا مشکل ہو گیا ہے جس کی وجہ سے شادی میں تاخیر ہو جاتی ہے۔ اسی لیے گاؤں کے مشران نے مل کر لوگوں کی آسانی کے لیے یہ فیصلہ کیا ہے۔
''اس علاقے میں منگنی کے موقع پر نکاح پڑھا دیا جاتا ہے اور حق مہر بھی اسی وقت مقرر کیا جاتا ہے۔ جب تک لڑکی کا حق مہر ادا نہیں کیا جاتا، شادی تکمیل کو نہیں پہنچتی۔ جرگے کے فیصلے سے شادیوں میں تاخیر ختم ہو جائے گی''۔
جرگے کے فیصلے پر عید الفطر کے بعد عمل درآمد کا فیصلہ کیا گیا ہے کیونکہ علاقے میں منگنی اور شادی کا سیزن عید کے بعد شروع ہوتا ہے۔
جرگے کے ایک ممبر کے مطابق اس فیصلے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ قبل ازیں جتنی منگنیاں ہو چکی ہیں ان میں نکاح کے وقت جتنا حق مہر مقرر کیا گیا ہے وہ برقرار رہے گا۔ گاؤں سے باہر رشتہ کرنے کی صورت میں لڑکی کے گھر والوں پر اس فیصلے کا اطلاق نہیں ہو گا۔
پچاس روپے کے اسٹامپ پیپر پر لکھے گئے اس اقرار نامے پر مقامی جرگے کے 30 ارکان کے دستخط موجود ہیں جس کی نقل لوک سجاگ کو بھی موصول ہوئی ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی لوئر دیر کی سماجی کارکن شاد بیگم اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ اس طرح کے جرگوں میں خواتین کے حقوق کے لیے بات کرنے کی بجائے دراصل ان سے حقوق چھینے جاتے ہیں۔
اس علاقے میں خواتین کو نہ تو جائیداد میں صحیح حق ملتا ہے اور نہ ہی ان کی تعلیم پر کوئی توجہ دی جاتی ہے اور اب حق مہر پر بھی قدغن لگائی جا رہی ہے۔
''حق مہر عورت کا اہم سرمایہ ہوتا ہے اور اسے متعین کرنے کا اختیار عورت کے سوا کسی دوسرے کو نہیں۔ لوئر دیر میں زیادہ تر لوگوں کی معاشی حالت اچھی ہے لہٰذا حق مہر کم کرنا خواتین کے ساتھ زیادتی ہے۔''
ان کا کہنا ہے کہ حق مہر متعین کرنے کے بجائے جرگے کو شادی بیاہ کے دیگر اخراجات کم کرنے کے بارے فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔
ان کے مطابق علما اس بات پر زور دیں کہ خواتین کو وراثت میں حصہ ملے۔ وہ حق مہر کی اہمیت بھی اجاگر کریں۔
جب نصیب گل سے پوچھا گیا کہ آیا جرگے میں خواتین کو جائیداد میں ان کا قانونی حصہ دینے یا جہیز پر بھی بات ہوئی تو نصیب گل نے بتایا کہ اس علاقے میں بعض لوگ جائیداد میں حصہ دیتے ہیں اور بعض نہیں دیتے۔ بسا اوقات بیٹی یا بہن والدین سے وراثت میں ملنے والی جائیداد سے دستبردار ہو جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں جرگے نے لوگوں کو آزادی دی ہے کہ خواتین کو جائیداد میں حصہ دینے کا فیصلہ وہ آپس میں اور خود کریں۔
ماچلے گاؤں کے رحیم خان جرگے کے اس فیصلے پر خوش ہیں۔ لوک سجاگ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ ''پورے گاؤں والے اس فیصلے کو مانتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے فائدے کے لیے کیا گیا ہے۔''
یہ بھی پڑھیں
'شرعی نکاح' یا رجسٹر والا نکاح: کم عمری کی شادی کی روایت نے نیا راستہ ڈھونڈ لیا
''میں نے اپنی بیٹی کی شادی کے موقع پر چار تولے سونا حق مہر مقرر کیا تھا۔ لڑکے والوں نے چار تولہ سونے کے زیورات تیار کرکے حوالہ کئے تو تب ہی دلہن کو رخصت کیا گیا۔ لیکن اس وقت نرخ کم تھا اور اب بہت زیادہ ہے اور اتنے سونے کی خریداری ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔
رحیم کے مطابق اس فیصلے کے لیے تمام گھرانوں کے سربراہوں سے رائے لی گئی تھی۔
لوئر دیر کے سماجی کارکن کبیر روغانی نے بتایا کہ اس فیصلے کی تحریری نقل جب سوشل میڈیا پر پھیلی تو لوگوں نے اس پر سخت تنقید کی اور کہا گیا کہ حق مہر ایک شرعی فعل ہے اور کسی دوسرے فرد کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اس کی مقرر شدہ حد لوگوں پر مسلط کرے۔
تحصیل لعل قلعہ میدان کے اسسٹنٹ کمشنر نورزالی خان نے بتایا کہ انتظامیہ کو ماچلے گاؤں میں جرگے کے فیصلے کے بارے سوشل میڈیا کے ذریعے پتا چلا ہے لیکن ابھی تک کسی شخص نے اس فیصلے کے حوالے سے شکایت نہیں کی اور اگر کوئی شکایت موصول ہوئی تو اس کی قانونی حیثیت کو دیکھ کر ہی کارروائی کی جائے گی۔
تاریخ اشاعت 13 اپریل 2023