'خاک اڑتی ہے چار سُو اے دوست'، ملتان میں شجرکاری مہم معطل، جنگلات کا رقبہ تیزی سے کم ہونے لگا

postImg

حسیب اعوان

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

'خاک اڑتی ہے چار سُو اے دوست'، ملتان میں شجرکاری مہم معطل، جنگلات کا رقبہ تیزی سے کم ہونے لگا

حسیب اعوان

loop

انگریزی میں پڑھیں

ملتان میں بلین ٹری سونامی منصوبے کے تحت شجرکاری کی مہم طویل عرصہ سے معطل ہے۔ لاکھوں پودے دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث خراب ہو چکے ہیں اور درختوں کو غیرقانونی طور پر متواتر کاٹے جانے سے رہے سہے جنگلات کی بقا خطرے سے دوچار ہے۔

محکمہ جنگلات ملتان ڈویژن نے پچھلے پانچ سال میں آٹھ کروڑ 45 لاکھ سے زیادہ اور اس کے جنوبی زون نے دو کروڑ 42 لاکھ سے زیادہ پودے اگائے تھے۔ یہ پودے نہروں کے کناروں، عباسیہ، چیچہ وطنی، پیرووال اور ڈیرہ غازیخان کے جنگلات، ولہار صادق آباد اور لال سہانرہ پارک سمیت بہت سی جگہوں پر اگائے گئے جن میں سے بیشتر کو بڑھنے کا موقع نہیں مل سکا۔

ڈویژنل فاریسٹ آفیسر راشد محمود تصدیق کرتے ہیں کہ ملتان اور گردونواح میں درختوں کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے جس سے موسم اور ماحول براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔

جنگلات کے رقبے میں متواتر کمی کے باعث پچھلے چند سال سے ملتان اور گردونواح کا اوسط درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔

اِس سال یکم جولائی کو ملتان کا درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ رہا۔ 2022ء میں اسی روز درجہ حرارت 43 ڈگری اور 2021ء میں 44 ڈگری ریکارڈ کیا گیا تھا۔

محکمے کے چند اہلکاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے بتایا کہ پچھلے پانچ سال میں شجرکاری مہمات کے تحت لگائے گئے بہت سے پودے درخت بننے سے پہلے ہی ختم ہو گئے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ محکمے کے پاس فنڈ کی کمی ہے۔

پنجاب میں نگران حکومت قائم ہونے کے بعد ترقیاتی فنڈ کی فراہمی بند کر دی گئی تھی جس سے محکمہ جنگلات بھی متاثر ہوا ہے۔

دسمبر 2022ء سے محکمے کو بلین ٹری سونامی منصوبے کے تحت شجرکاری اور پودوں کی دیکھ بھال کے لیے مالی وسائل مہیا نہیں کیے گئے۔ جون 2023ء میں اس سلسلے میں 68 لاکھ روپے کی سپلیمنٹری گراںٹ جاری کی گئی تھی لیکن فنڈز استعمال نہیں کیے جا سکے۔

اس وقت محکمے میں پانچ ہزار کے قریب دیہاڑی دار ملازمین کو پچھلے ایک ماہ کی تنخواہ کی مد میں 12 لاکھ روپے ادا کیے جانا ہیں جس کے لیے وسائل نہیں ہیں۔

ان ملازمین میں محکمے کی نرسیوں میں پودوں کی دیکھ بھال کرنے والے مالی اور جنگلات کی حفاظت پر مامور عملہ شامل ہے۔

عملے کو تنخواہیں نہ ملنے سے پودوں اور جنگلات کی حفاظت کا کام متاثر ہوا ہے اور لکڑی چوری کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔

پچھلے پانچ سال میں محکمے نے لکڑی چوروں کے خلاف 200 مقدمات درج کرائے اور ملزموں کو 21 لاکھ روپے سے زیادہ جرمانہ کیا گیا۔ ان مقدمات میں مجموعی طور پر ایک کروڑ 80 لاکھ روپے سے زیادہ مالیت کی لکڑی چوری ظاہر کی گئی تھی۔

محکمہ جنگلات کے رینج فاریسٹ آفیسر محمد رفیق ( فرضی نام) ںے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کا کہتے ہوئے بتایا کہ پچھلے چند سال میں لگائے جانے والے نئے پودے نظر نہ آنے کی بڑی وجہ ان کی بڑھتی ہوئی چوری ہے۔ محکمہ جنگلات میں قانونی کارروائی کا نظام بہت ناقص ہے اور لکڑی چوروں کو قانونی شکنجے میں لانے کے لیے موثر اقدامات نہیں اٹھائے جاتے۔

انہوں نے بتایا کہ ایک فاریسٹ گارڈ کے پاس اوسطاً دو ہزار ایکڑ پر مشتمل جنگلات اور 150 سے 400 کلومیٹر لمبی نہروں اور سڑکوں کے کنارے درختوں کی حفاظت کی ذمہ داری ہے۔

"ان ملازمین کے لیے اتنے بڑے رقبے کی حفاظت کرنا ممکن ہی نہیں اور دوسری بات یہ کہ جس ملازم کو تنخواہ نہیں ملے گی وہ اپنا کام دلچسپی اور دلجمعی سے کیسے کر سکتا ہے؟"

محکمہ جنگلات ملتان ڈویژن کے پاس کُل 65 فاریسٹ گارڈ ہیں جو بغیر اسلحے کے ڈیوٹی دیتے ہیں جبکہ اس عہدے پر 25 اسامیاں خالی ہیں۔

ایک اہلکار نے بتایا کہ فاریسٹ گارڈ کے مقابلے میں لکڑی چوروں کے پاس جدید اسلحہ اور جدید طرز کی مشینری اور آرے ہوتے ہیں جن کی مدد سے ان کے لیے لکڑی چوری کرنا کوئی مشکل کام نہیں اور محکمے کے لیے ان پر ہاتھ ڈالنا بھی آسان نہیں ہوتا۔

دوسری جانب راشد محمود کا دعویٰ ہے کہ لکڑی چوری میں جو بھی ملوث ہو اس کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی جاتی ہے۔

تاہم محکمہ جنگلات کے ڈپٹی سیکرٹری ٹیکنیکل ڈاکٹر خرم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ گزشتہ شجرکاری مہمات میں لگائے جانے والے نئے پودے پروان نہیں چڑھ سکے۔

ان کا کہنا ہے کہ 95 فیصد نئے پودے پھل پھول رہے ہیں جس کی تصدیق انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کی ٹیم نے دسمبر 2022ء میں ملتان کے دورے میں کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

شجر گرا تو پرندے تمام شب روئے:'نارووال اور گردونواح کے جنگلاتی رقبے میں کمی آنے سے جانور اور پرندے بھی ختم ہو رہے ہیں'

یہ دورہ ٹین بلین ٹری سونامی کے منصوبے کی شفافیت جانچنے کے عمل کا حصۃ تھا۔ ڈاکٹر خرم کے مطابق ٹیم نے جنگلات کی سیٹلائٹ کے ذریعے تصاویر لیں اور پھر مختلف جگہ کے دورے کرنے کے بعد بتایا تھا کہ شجرکاری مہم کامیاب رہی ہے۔

ماہر ماحولیات ڈاکٹر احسن خان ترین کا کہنا ہے کہ تیزی سے بڑھتی آبادی کے نتیجے میں لکڑی کی ضرورت بھی بڑھ رہی ہے جس کا لکڑی چوری کے رحجان سے گہرا تعلق ہے۔ اس کے علاوہ رہائشی منصوبوں کی تعمیر کے لیے بڑے پیمانے پر سبز رقبے کو ختم کیا جا رہا ہے لیکن اس کی جگہ نئے درخت نہیں اگائے جا رہے۔ ان حالات میں ماحولی نظام بری طرح متاثر ہوا ہے اور گرمی کی شدت بڑھتی جا رہی ہے۔

ڈاکٹر احسن کہتے ہیں کہ اگر منظم انداز میں بڑے پیمانے پر شجرکاری اور درختوں کی حفاظت کے انتظامات نہ کیے گئے تو چند ہی دہائیوں میں یہ علاقہ انسانی رہائش کے لیے موزوں نہیں رہے گا۔

*رازداری کے تحفظ کے لئے نام تبدیل کر دیئے گئے ہیں۔

تاریخ اشاعت 18 جولائی 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

حسیب اعوان ملتان کے نوجوان صحافی ہیں۔ گزشتہ چھ برسوں سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں کام کر رہے ہیں۔ مختلف قومی اخبارات اور چینلوں سے منسلک رہے ہیں۔

thumb
سٹوری

پسنی: پاکستان کا واحد "محفوظ" جزیرہ کیوں غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceملک جان کے ڈی

پنجاب: فصل کسانوں کی قیمت بیوپاریوں کی

چمن: حکومت نے جگاڑ سے راستہ بحال کیا، بارشیں دوبارہ بہا لے گئیں

thumb
سٹوری

بھٹہ مزدور دور جدید کے غلام – انسانی جان کا معاوضہ 5 لاکھ روپے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

ہندؤں کا ہنگلاج ماتا مندر، مسلمانوں کا نانی مندر"

thumb
سٹوری

نارنگ منڈی: نجی سکولوں کے طالب علموں کے نمبر زیادہ کیوں آتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز

ای رکشے کیوں ضروری ہیں؟

لاہور میں کسان مظاہرین کی گرفتاریاں

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان: انس کے سکول کے کمپیوٹر کیسے چلے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنثار علی

خیبر پختونخوا، دعویٰ : تعلیمی ایمرجنسی، حقیقت: کتابوں کے لیے بھی پیسے نہیں

thumb
سٹوری

کوئٹہ شہر کی سڑکوں پر چوہے بلی کا کھیل کون کھیل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

شاہ زیب رضا
thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.