ملتان کے مختلف تھانوں میں درج ہزاروں مقدمات گزشتہ چار برس سے عدالتوں کونہیں بھجوائے جاسکے۔ ان میں قتل، جنسی زیادتی ، منشیات، ڈکیتی، بوگس چیک، فراڈ ، امانت میں خیانت ،دھوکہ دہی ،اغوا، اقدام قتل، تشدد، چوری، غیر قانونی اسلحہ رکھنے اور دھمکیاں دینے سمیت کئی طرح کے مقدمے شامل ہیں۔
سابق چیف جسٹس آف افتخار چوہدری نے انصاف کی فوری فراہمی یقینی بنانے 2009ء میں جوڈیشل پالیسی نافذ کی تھی جس کے تحت مقدمات نمٹانے کے لیے ایک ٹائم فریم مقرر کرنے کے ساتھ ساتھ پولیس کو 14 روز میں مقدمات کا چالان عدالتوں میں پیش کرنے کا پابند کیا گیا تھا۔ مگر پولیس کی جانب سے ان احکامات پر عملدرآمد دیکھنے میں نہیں آیا۔
صوبے کے دیگر اضلاع کی طرح ملتان میں بھی مقدمات کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جنہیں باقاعدہ سماعت کے لیے ٹرائل کورٹ میں فائل کی صورت میں بروقت نہیں بھیجا جا رہا۔
2019 سے 2023ء تک ویمن کرائسز سنٹر سمیت ضلع ملتان کے 32تھانوں کے ساڑھے 33 ہزار سے زیادہ مقدموں کے چالان ملتان کی عدالتوں کو بھجوائے نہیں گئے۔
2019 کے 96 مقدمات کے چالان، 2020ءکے 337 ، 2021ءکے 2733 اور 2022ءکے 6370 چالان جمع نہیں ہوئے۔
رواں سال ساڑھے 35 ہزار ایف آئی آر درج کی گئیں۔ 10 ہزار 842 چالان عدالتوں کو بھجوائے گئے جبکہ 24 ہزار 323 چالان اب بھی سماعت شروع ہونے کے منتظر ہیں۔
ایسے مقدمات جن میں سات سال تک کی قید کی سزا ہوسکتی ہے ان کا عدالتوں نے چھ ماہ میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے جبکہ سات سال سے زیادہ ، عمر قید یا موت کی سزا کے متوقع کیسز کا فیصلہ مختلف دائرہ کار کی عدالتوں نے ایک سال کے دوران لازمی کرنا ہوتا ہے۔
قانونی ماہرین پولیس کے فرسودہ طریقہ تفتیش، عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے کی روایت، فریقین کے غیر سنجیدہ طرزعمل اوربے جا مقدمہ بازی کے رحجان کو اس صورتحال کی بنیادی وجوہات شمار کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں پراسیکیوشن، پولیس اور عدلیہ کے باہم کمزور ربط کو بھی اس کا نمایاں سبب بتایا جاتا ہے۔
ماہر قانون فرخ تیمور چانڈیو بلوچ کہتے ہیں کہ پولیس کی نفری میں اضافہ وقت کی اہم ضرورت ہے جس کے ساتھ اس کی استعداد کار بہتر بنانے کی بھی ضرورت ہے۔موجودہ نفری کے ساتھ نہ تو جرائم پر قابو پایا جا رہا ہے اور نہ ہی مقدمات نمٹائے جا رہے ہیں۔ نئے قوانین یا پرانے قوانین میں ترمیم کے لیے وکلا کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے تاکہ ان کے تحفظات دور کیے جا سکیں۔
ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن ملتان کے سینئر قانون دان الطاف محمود قریشی کہتے ہیں کہ پولیس میرٹ پر تفتیش کرتے ہوئے زیر تفتیش مقدمات کے چالان بروقت مرتب کرے، سنگین نوعیت کے مقدمات کا جلد از جلدسراغ لگا کر ملزمان کو گرفتار کیا جائے اور ٹرائل کے لیے عدالت میں پیش کیا جائے تو اس صورتحال کا ازالہ ممکن ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پولیس افسر مقدمات کی تفتیش پر توجہ دیں اور میرٹ کو یقینی بنائیں اورتھانوں کے ریکارڈ کو مکمل کیا جائے تو مقدمات کے چالان بھیجنے میں تاخیر کی شکایت نہیں رہے گی۔
یہ بھی پڑھیں
اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرریاں 'چیف جسٹس آف پاکستان کی ذاتی ترجیحات پر منحصر ہیں'۔
اس حوالے سے ملتان پولیس کے ترجمان وضاحت کرتے ہیں کہ محکمے کے اعلیٰ افسر اس مسئلے سے نمٹنے میں سنجیدہ ہیں۔سی پی او نے پولیس پراسیکیوشن کو بہتر بنانے، بروقت چالان عدالت میں جمع کرانے و دیگر قانونی امور کو احسن طریقے سے انجام دینے سے متعلق ہدایات جاری کر رکھی ہیں۔
اس کے علاوہ پولیس اور محکمہ پراسیکیوشن کے اجلاس میں بھی مقدمات کے اندراج اور تفتیش میں موجود کمزرویوں کو دور کر کے تفتیش کے معیار کو بہتر بنانے کی تجاویز دی گئی ہیں۔ سی پی او نے پولیس افسروں کو ہدایت کی ہے کہ پراسیکیوشن برانچ کے ساتھ بہتر ربط رکھیں اورزیرالتوا چالان بروقت عدالت میں جمع کرائیں۔
ماہر قانون میاں بلال ارشد کہتے ہیں کہ بعض کیسوں میں پولیس کی جانب سے نامکمل چالان جمع کرائے جاتے ہیں جو تاخیر کا سبب بنتے ہیں۔ اس ضمن میں پولیس اور محکمہ پراسیکیوشن کو ایک مشترکہ لائحہ عمل وضع کرنا چاہیے۔ پولیس کو بھی روایتی انداز ترک کر کے جدت اختیار کرنی چاہیے تاکہ ٹرائل کیس کی فائلیں جلد تیار ہوں اور تھانے کچہری کے دھکے کھانے والے سائلین کو بھی ریلیف ملے۔
تاریخ اشاعت 28 ستمبر 2023