بلوچستان میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی پالیسی بنانے کا فیصلہ: کیا 'سب سے بڑے سٹیک ہولڈر' کی آواز بھی سنی جائے گی؟

postImg

مطیع اللہ مطیع

postImg

بلوچستان میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی پالیسی بنانے کا فیصلہ: کیا 'سب سے بڑے سٹیک ہولڈر' کی آواز بھی سنی جائے گی؟

مطیع اللہ مطیع

بلوچستان میں ضلع قلعہ سیف اللہ کے حاجی فضل محمد کا چار ایکڑ پر انار اور سیب کا باغ گزشتہ سال آنے والی بارشوں اور سیلاب میں اجڑ گیا تھا۔ اس باغ میں پھلوں سے لدے سینکڑوں درخت تھے جو اب چٹیل میدان کا منظر پیش کرتا ہے۔

جب سیلاب آیا تو پانی اس علاقے میں کئی ماہ کھڑا رہا کیونکہ اسے اخراج کا راستہ نہیں مل سکا تھا۔ چنانچہ جو درخت سیلاب میں گرنے سے بچ گئے تھے وہ کھڑے پانی کے باعث خراب ہو گئے۔ فضل محمد نے اپنے باغ کو تیار کرنے پر سخت محنت کی تھی۔ چونکہ اس علاقے میں بجلی کی لوڈشیڈنگ زیادہ ہوتی ہے اس لیے وہ ٹیوب ویل کو چلانے کے لیے شمسی توانائی کے 177 پینل بھی لائے تھے۔ تاہم سیلاب نے سب کچھ برباد کر دیا۔

فضل محمد کا مطالبہ ہے کہ اس علاقے میں آبی گزرگاہوں پر تجاوزات ختم کی جائیں تاکہ آئندہ انہیں ایسی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

محکمہ زراعت کے ریسرچ آفیسر سراج الدین خان ںے بتایا کہ سیب اور انگور سرد علاقوں کے پھل ہیں۔ روایتی طریقے کے مطابق انہیں تقریباً 15 دنوں کے بعد پانی دیا جاتا ہے اور پانی کا زیادہ دیر ٹھہرے رہنا ان درختوں کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیلابی پانی کھڑا ہونے سے اس علاقے میں تمام باغات تباہ ہو گئے ہیں۔

حاجی فضل محمد اب سرکاری امداد کے منتظر ہیں تاہم اب تک انہیں گندم کے ایک بوری بیج کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔

کاشت کاروں کی تنظیم زمیندار ایکشن کمیٹی کے چیئرمین ملک نصیر احمد شاہوانی کہتے ہیں کہ صوبے کی آبادی کے بڑے حصے کا روزگار زراعت سے وابستہ ہے اور موسمیاتی تبدیلی نے سب سے زیادہ نقصان زمینداروں کو ہی پہنچایا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات بلوچستان پر طویل عرصے سے ظاہر ہو رہے ہیں۔ پروونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے رواں سال بھی یہاں مون سون بارشوں سے ممکنہ خطرات کے بارے میں آگاہ کیا ہے جس سے پہاڑی سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ، دریائی سیلاب اور آندھی کے نتیجے میں انفراسٹرکچر کی تباہی اور فصلوں اور مویشیوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

پی ڈی ایم اے نے کوئٹہ، جعفرآباد، جھل مگسی، صحبت پور، اوستہ محمد، نصیرآباد، بارکھان، ڈیرہ بگٹی، قلعہ سیف اللہ، ہرنائی، کچھی، خضدار، کوہلو، لسبیلہ، لورالائی، موسیٰ خیل اور سبی کو ہائی رسک اضلاع قرار دیا ہے۔ 2023ء کی مون سون بارشوں میں اب تک 21 افراد کی ہلاکت ہوئی ہے جبکہ چار ہزار سے زیادہ گھروں کو نقصان پہنچا ہے۔

پی ڈی ایم اے کے مطابق 2022ء میں مون سون کی غیر معمولی بارشوں اور سیلاب سے بلوچستان کے 32 اضلاع کے 91 لاکھ 82 ہزار 616 افراد متاثر ہوئے تھے۔

انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے) کے ڈائریکٹر کلائمیٹ غلام مرتضیٰ کلوار نے بتایا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد ماحولیات صوبائی معاملہ بن گیا ہے۔ خیبر پختونخوا اور سندھ کے بعد بلوچستان نے بھی موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے بارے میں اپنی پالیسی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں سابق سیکرٹری اسفند یار خان کاکڑ کے دور میں یو این ڈی پی کے ذریعے پالیسی پر کام کا آغاز کیا گیا ہے۔ پالیسی ڈرافٹ کے بعد تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر ایکشن پلان تشکیل دیا جائے گا جس کو صوبائی کابینہ سے منظور کرایا جائے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ کوشش ہے تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر بہترین پالیسی تشکیل دی جائے جس کی بدولت کسی بھی بڑے نقصان کو کم سے کم رکھنا ممکن ہو۔ اس حوالے سے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو محدود رکھنے اور ان سے مطابقت پیدا کرنے پر خاص توجہ دی جا رہی ہے۔

نصیراحمد شاہوانی سمجھتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق بلوچستان کی پالیسی ایک مثبت پیش رفت ہو گی لیکن ضروری ہے کہ اس معاملے میں سب سے بڑے سٹیک ہولڈر یعنی زمیندار کو بھی اعتماد میں لیا جائے۔

صوبائی سیکرٹری ماحولیات و موسمیاتی تبدیلی نیاز احمد نیچاری کہتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ سے پیدا ہونے والی موسمیاتی تبدیلی صرف پاکستان کا نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ موسم بدلنے سے کوئٹہ کا درجہ حرارت بڑھ گیا ہے جو اب 41 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا محکمہ فی الوقت وفاقی حکومت کی بنائی گئی قومی موسمیاتی تبدیلی پر ہی عمل پیرا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہوتی گندم کی پیداوار: کیا ہمیں غذائی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟

ماہر ماحولیات و صحافی عافیہ سلام سمجھتی ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کے بجائے ماحولیاتی تغیر بہتر اصطلاح ہے کیونکہ موسم کے ساتھ پورا ماحول بدل رہا ہے۔ ان کے مطابق ماحولیاتی تغیر میں پاکستان کا حصہ یا کردار ایک فیصد سے بھی کم ہے تاہم جرمن واچ انڈیکس کے مطابق یہ اس مسئلے سے بری طرح متاثر ہونے والے ملکوں میں سے ایک ہے۔

عافیہ سلام کہتی ہیں کہ زیادہ رقبے کی وجہ سے ماحولیاتی تغیر کے حوالے سے بلوچستان کے مختلف علاقوں کی مشکلات بھی الگ الگ ہیں۔ صوبے کو جن بڑے خطرات کا سامنا ہے ان میں سیکڑوں کلومیٹر طویل ساحلی پٹی پر سمندر کی سطح میں اضافہ، جنگلات کی کٹائی اور پانی کی کمی یا خشک سالی شامل ہیں۔

عافیہ سلام نے بتایا کہ ملک میں کلائمیٹ چینج جینڈر ایکشن پلان بھی بن گیا ہے کیونکہ صنفی مسائل بھی موسمیاتی مسئلے کا حصہ ہیں اور آدھی آبادی کونظر انداز کر کے موسمیاتی تبدیلی کی کسی پالیسی پر عمل ممکن نہیں ہو گا۔

تاریخ اشاعت 30 اگست 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

مطیع اللہ مطیع کوئٹہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی، خواتین اور بچوں کی حقوق سے متعلق مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

کوئٹہ شہر کی سڑکوں پر چوہے بلی کا کھیل کون کھیل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

شاہ زیب رضا
thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.