" لگتا ہے اقلیتی کوٹہ صرف کاغذوں میں ہی موجود ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔"

postImg

آصف محمود

postImg

" لگتا ہے اقلیتی کوٹہ صرف کاغذوں میں ہی موجود ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔"

آصف محمود

مریم گل مسیحی برادری سے تعلق رکھتی ہیں اور لاہور کی رہائشی ہیں۔ انہوں نے 2021ء میں گریجویشن کی تھی اور پر امید تھیں کہ انہیں اقلیتی کوٹے کی بنیاد پر سرکاری ملازمت مل جائے گی لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ تاہم شادی کے بعد انہیں ایک نجی ہسپتال کے اکاؤنٹ ڈیپارٹمنٹ میں نوکری مل گئی۔

"میں نے دل سے سرکاری نوکری کا خیال نکال دیا ہے کیونکہ مجھے لگتا ہے اقلیتی کوٹہ صرف کاغذوں میں ہی موجود ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔"

حکومت نے 2009ء میں سرکاری ملازمتوں میں اقلیتوں کے لیے  پانچ فیصد کوٹہ مختص کیا تھا لیکن پندرہ سال گزرجانے کے باوجود  آج بھی اس پالیسی پرمکمل عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔

پاکستان پبلک ایڈمنسٹریشن ریسرچ سنٹر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی سالانہ رپورٹ کے مطابق 2021-22ء میں وفاقی محکموں میں غیرمسلم ملازمین کی کل تعداد 19ہزار 128 تھی۔ ان میں میں سب سے زیادہ 17 ہزار 683 ملازمین مسیحی، 167 احمدی، ایک ہزار چھ ہندو، 243 شیڈولڈ کاسٹ اور 29 سکھ ملازم تھے۔

رپورٹ کے مطابق 18-2017 میں غیر مسلم ملازمین کی تعداد 16 ہزار 711 تھی جو مجموعی ملازمین کا دو اعشاریہ آٹھ فیصد تھے۔

سال 19-2018 میں یہ تعداد 16 ہزار 612 تھی، یعنی اس میں 0.59 فیصد کمی ہوئی۔ جبکہ 13 فیصد اضافے کے ساتھ اگلے سال 20-2019 میں یہ تعداد 18 ہزار 782 تک پہنچ گئی۔سال 21-2020میں 1.59 فیصد اضافہ ہوا اور غیر مسلم ملازمین کی تعداد 19ہزار 81 ہوگئی جبکہ 22-2021میں 0.24 فیصد اضافے کے ساتھ تعداد 19 ہزار 128 ہو گئی۔

پنجاب کے سرکاری محکموں میں غیرمسلم ملازمین کی تعداد سے متعلق چیف سیکرٹری پنجاب، ایڈیشنل سیکرٹری سروسز اینڈجنرل ایڈمنسٹریشن اور محکمہ انسانی حقوق واقلیتی امور پنجاب نے کوئی ڈیٹا فراہم نہیں کیا۔

ادارہ برائے سماجی انصاف کی رپورٹ کے مطابق محکمہ انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب نے  جولائی 2018ء میں سپریم کورٹ میں اقلیتوں کے جاب کوٹہ سے متعلق جو رپورٹ جمع کروائی تھی اس میں بتایا گیا کہ مجموعی طور پر 8337 آسامیوں پر 5151 ملازم بھرتی کئے گئے جبکہ 3186 پوسٹیں خالی تھیں۔

پنجاب کے 40 سرکاری محکموں میں سے صرف 29 محکموں کا ڈیٹا فراہم کیا گیا اور ان میں سے بھی 9 سرکاری محکمے ایسے تھے جن میں اقلیتوں کے لئے مختص کوٹہ کی بنیاد پر کوئی ملازم بھرتی نہیں کیا گیا جس کی بڑی وجہ یہ بتائی گئی کہ زیادہ تر غیرمسلم امیدوار اہلیت پر پورا نہیں اترتے تھے۔

اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے نصیب انجم سپریم کورٹ کے وکیل ہیں، انہوں لوک سجاگ کو بتایا کہ وہ 2018ء میں وفاق اور 2020ء میں حکومت پنجاب کے خلاف الگ الگ پیٹیشنز دائر کر چکے ہیں، جن میں انہوں نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ  پنجاب حکومت نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور وفاقی حکومت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کی پوسٹوں میں اقلیتوں کے لیے مختص کوٹہ کو نظرانداز کیا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے لاہور ہائی کورٹ میں بھی انٹرا کورٹ اپیل دائر کر رکھی ہے جو ابھی تک زیر التوا ہے۔

قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے پنجاب کے ممبر ندیم اشرف نے اس حوالے سے لوک سجاگ کو بتایا کہ ان کے پاس سرکاری نوکریوں میں اقلیتوں کے کوٹہ سے متعلق کوئی تفصیلی رپورٹ توموجود نہیں لیکن امیدواروں کی جانب سے مختلف محکموں کے خلاف کی جانے والی شکایات پر کارروائی کو ضرور یقینی بنایا جاتا ہے۔

"سرکاری محکموں کو اقلیتوں کا کوٹہ مکمل نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ محکمے اپنی پوسٹوں کا باقائدہ حساب کتاب نہیں رکھتے۔ وقتا، فوقتا جو پوسٹیں خالی ہوتی ہیں، ان پر بھرتی کر لی جاتی ہے حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ تمام پوسٹوں میں اقلیتوں کا کوٹہ نکال کر ان کو بھرتی کرلیا جائے"۔

سرکاری نوکریوں میں اقلیتوں کے کوٹہ سمیت دیگر مسائل اور شکایات کو سامنے رکھتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2019ء میں یک رکنی اقلیتی کمیشن تشکیل دیا تھا۔ جو اپنے قیام سے اب تک اقلیتوں سے متعلق مختلف امور پر کام کر رہا ہے۔

کمیشن کے سربراہ  ڈاکٹر شعیب سڈل نے لوک سجاگ کو بتایا کہ انہوں نے دیگر معاملات کے ساتھ سرکاری محکموں میں اقلیتوں کے لیے مختص کوٹہ پر عمل درآمد کے لیے بھی کام کیا تھا۔

"میرے لیے یہ حیران کن تھا کہ ملک بھر میں اقلیتوں کے لیے مختص 30 ہزار 866 پوسٹیں خالی تھیں۔ ان میں سے تین ہزار 943 وفاق، 18 ہزار 914  پنجاب، تین ہزار 165 سندھ، تین ہزار670 خیبرپختونخوا، 824 بلوچستان اور 347 پوسٹیں گلگت بلتستان میں خالی تھیں"۔

انہوں نے بتایا کہ یہ اسامیاں بتدریج مکمل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاہم ابھی تک وہ نتائج سامنے نہیں آسکے جس کی توقع تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بیشتر غیر مسلم امیدوار میرٹ پر پورا نہیں اترتے اور تحریری ٹیسٹ یا انٹرویو میں فیل ہوجاتے ہیں۔
لیکن زمینی حقائق ڈاکٹر  شعیب کے موقف سے میل نہیں کھاتے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

خیبرپختونخوا میں اقلیتی برادری مخصوص ملازمتی کوٹے میں حق تلفی پر نالاں

لاہور کے علاقے  یوحنا آباد کے یوسف دین کی عمر 29 سال ہے، وہ غیر شادی شدہ ہیں۔ انہوں نے 2020ء میں انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ماسٹرز کیا تھا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد سرکاری نوکری کے لیے بہت تگ و دو کی، پنجاب فوڈ اتھارٹی سمیت دیگر سرکاری محکموں میں اوپن میرٹ اور اقلیتوں کے لیے مختص کوٹہ پر ملازمت کے لیے اپلائی کیا مگر ان کا انتخاب نہیں ہوسکا۔ فی الحال وہ ایک نجی تعلیمی ادارے میں ٹیچر ہیں۔

ڈاکٹر شعیب کہتے ہیں کہ  وہ ہائرایجوکیشن کمیشن کو ہدایات جاری کر چکے ہیں کہ تعلیم کے تمام شعبوں میں داخلوں کے لئے غیرمسلم طالب علموں کے لیے دو فیصد کوٹہ مقرر کیاجائے تاکہ وہ بھی تعلیم حاصل کرکے اعلی انتطامی عہدوں پر فائز ہوسکیں۔

پاکستان میں سکھوں کی نمائندہ پاکستان سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی کے سربراہ سردار امیر سنگھ نے لوک سجاگ کو بتایا، ایسا نہیں ہے کہ اقلیتی کوٹے پر بھرتیاں نہیں ہوتیں، لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اقلیتوں کے لیے مختص ہزاروں سیٹیں خالی پڑی رہتی ہیں۔

ادارہ برائے سماجی انصاف کے سربراہ پیٹرجیکب نے لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا پاکستان میں آج بھی اقلیتوں کے لیے مختص 70 فیصد پوسٹیں خالی ہیں۔ اس کے حل کے لیے ادارہ برائے سماجی انصاف کی طرف سے حکومت کو مختلف تجاویز دی گئی تھیں جن میں  اقلیتوں کے لیے سکول،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پانچ فیصد کوٹہ اور  نوجوانوں کو پیشہ ورانہ ،تکنیکی اور ہنرمندی کی تعلیم کے مواقعوں کی فراہمی کے مطالبات شامل تھے۔    سرکاری محکموں کی طرح پرائیویٹ سیکٹر میں بھی اقلیتوں کے لیے جاب کوٹہ مختص کرنے اور  ملازمت کوٹہ کے نفاذ، نگرانی اور شکایات کے ازالہ کے لیے انتظامی ادارہ یا ملازمت کوٹہ ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کی مانگ کی گئی تھی لیکن ان میں سے کسی تجویز پر عمل نہیں ہوا۔

تاریخ اشاعت 9 فروری 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

آصف محمودکا تعلق لاہور سے ہے۔ گزشتہ 20 سال سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ غیرمسلم اقلیتوں، ٹرانس جینڈرکمیونٹی، موسمیاتی تبدیلیوں، جنگلات، جنگلی حیات اور آثار قدیمہ سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

بلوچستان: بجلی نہ ملی تو لاکھوں کے باغات کوڑیوں میں جائیں گے

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں چھوٹے پن بجلی منصوبوں کے ساتھ کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.