شمعون گِل نے 17 جولائی 2022 کو خیبرپختونخوا کے وسطی شہر مردان کے سٹی پولیس سٹیشن میں ایک درخواست جمع کرائی جس میں انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ان کی اور ان کے اہلِ خانہ کی زندگی کو خطرہ ہے۔ انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ ان کی اہلیہ، دو کمسن بچوں، ساس، سسر، دو برادرانِ نسبتی، ان کی بیویوں اور اُن کے دو بچوں سیمت 12 افراد پر مشتمل ان کے خاندان کو سرکاری تحفظ فراہم کیا جائے۔
وہ پشاور میں ایک پادری کے طور پر کام کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ مردان کی یونین کونسل باغِ ارم میں ایک دعائیہ مرکز تعمیر کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہاں مقامی مسیحی برادری کے بچوں کو ان کی مذہبی تعلیمات سے آگاہ کیا جا سکے اور انہیں مختلف ہنر سکھائے جا سکیں۔ ان کے مطابق ان کے سسر امانت مسیح نے اپنی آٹھ مرلہ زمین اس مرکز کے لیے مختص کر رکھی ہے۔
لیکن ان کا کہنا ہے کہ جون 2022 میں جب انہوں نے اس کی تعمیر شروع کرائی تو بہت سے مقامی مسلمان یہ کہہ کر اس کی مخالفت کرنے لگے کہ وہ اپنے علاقے میں غیرمسلموں کی عبادت گاہ تعمیر ہونے نہیں دیں گے۔ ان کے بقول "بعض لوگوں نے مجھے یہ بھی کہا ہے کہ اگر میں اس کام سے باز نہ آیا تو مجھے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے"۔
وہ کہتے ہیں کہ اس صورتِ حال کی وجہ سے "صوبائی محکمہ کمیونیکیشن اینڈ پبلک ورکس نے مرکز کی تعمیر شروع کرنے کے دو روز بعد اس پر کام روک دیا"۔ لیکن دوسری طرف "پولیس نے مجھے ہراساں کرنے والوں کے خلاف ابھی تک کوئی مقدمہ درج نہیں کیا"۔
مردان سٹی پولیس سٹیشن کے انچارج عاشق حسین کہتے ہیں کہ یہ مقدمہ اس لیے درج نہیں کیا گیا کہ اس کا جواز ہی ختم ہو چکا ہے اور "فریقین کے درمیان راضی نامہ ہو چکا ہے"۔ ان کے مطابق اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ شکایت کنندہ "اب کسی خدشے کے بغیر آزادانہ نقل و حرکت کر رہے ہیں"۔
لیکن شمعون گِل ایسے کسی راضی نامے کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہیں ابھی بھی ہراساں کیا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق "چند روز پہلے تقریباً 10 لوگوں نے مجھے راستے میں روک کر پوچھا کہ کیا تم اب بھی دعائیہ مرکز بنانے کا ارادہ رکھتے ہو''۔ ان کی اہلیہ صائمہ گِل بھی کہتی ہیں کہ "مقامی لوگوں نے میرے شوہر اور والد کو جرگے کے بہانے بلا کر ڈرایا دھمکایا ہے اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دے کر ان پر مرکز کے لیے مختص زمین سستے داموں مقامی مسلمانوں کو فروخت کرنے کے لیے دباؤ ڈالا ہے"۔
شمعون گِل نے پولیس کو دی گئی اپنی درخواست کی ایک نقل مردان کے ڈپٹی کمشنر حبیب اللہ عارف کے دفتر میں بھی جمع کرائی ہے جن کا کہنا ہے کہ انہوں نے عوامی مخالفت کے پیشِ نظر "مرکز کی تعمیر کا معاملہ صوبائی حکومت کو بھجوا دیا ہے" تاکہ وہ اس کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کر سکے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس تنازع کو ختم کرنے کے لیے ضلعی انتظامیہ "مرکز کے لیے متبادل جگہ ڈھونڈنے کی کوشش بھی کر رہی ہے"۔
اکثریت کی دھونس یا اقلیت کے حقوق؟
فرانس کے ایک اخبار میں پیغمبرِ اسلام کی توہین پر مبنی خاکوں کی اشاعت کے خلاف مردان میں 2012 میں ایک احتجاجی جلوس نکالا گیا جس میں شامل بعض لوگوں نے مقامی چھاؤنی کی حدود میں واقع ایک مسیحی چرچ میں توڑپھوڑ کی اور اسے آگ لگا دی۔ بعدازاں اس چرچ کے مینار کی تعمیرِنو کے لیے صوبائی حکومت نے مسیحی برادری کے مذہبی رہنماؤں کو 50 لاکھ روپے بطور عطیہ دیے۔
لیکن چرچ کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ اس رقم کو مینار پر خرچ کرنے کے بجائے اس سے ایک دعائیہ مرکز بنایا جائے کیونکہ، ان کے مطابق، مردان میں رہنے والے ساڑھے تین ہزار افراد پر مشتمل مسیحی برادری کے پاس مذہبی، سماجی اور معاشی سرگرمیوں کے لیے چرچ کے علاوہ کوئی اجتماعی جگہ موجود نہیں۔
امانت مسیح نے جو اُس وقت ضلع کونسل مردان کے اقلیتی رکن تھے کہا کہ وہ اس کی تعمیر کے لیے اپنی ذاتی زمین دینے کو تیار ہیں۔
تاہم مقامی مسلمان اس فیصلے سے خوش نہیں ہوئے بلکہ چند ہفتے قبل جب مرکز کی تعمیر شروع ہوئی تو باغِ ارم محلہ کونسل کے منتخب چیئرمین اور جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمان گروپ) کے رہنما قاری محمد جنید نے اس کے خلاف ایک احتجاجی جلوس نکالا جس میں مسیحی برادری کے خلاف نعرے بازی بھی کی گئی۔ شمعون گِل کے والد کے مطابق اس جلوس میں شامل لوگ اتنے مشتعل تھے کہ " اگر پولیس بروقت موقع پر پہنچ کر میرے بیٹے کو اپنی حفاظت میں نہ لے لیتی تو مظاہرین کے ہاتھوں اس کی جان بھی جا سکتی تھی"۔
محمد جنید کا کہنا ہے کہ وہ اس مرکز کی مخالفت اس لیے کر رہے ہیں کہ ان کی یونین کونسل میں "مسلمانوں کی واضح اکثریت ہے جبکہ یہاں رہنے والے مسیحوں کی تعداد اتنی نہیں کہ انہیں کسی نئی مذہبی عمارت کی ضرورت ہو "۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مرکز کے نام پر دراصل ایک نیا چرچ بنایا جا رہا ہے کیونکہ، ان کے مطابق، "اگر اس کا نقشہ دیکھا جائے تو یہ ایک چرچ ہی لگتا ہے"۔
یہ بھی پڑھیں
پاکستان کے مسیحی وراثتی قوانین: مسیحی عورتوں کے حقِ وراثت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ۔
انہیں اس کی تعمیر پر خرچ ہونے والے سرکاری پیسے پر بھی اعتراض ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ "حکومت نے مسیحی برادری کو 50 لاکھ روپے کسی مرکز کے لیے نہیں دیے تھے بلکہ چرچ کے مینار کی تعمیرنو کے لیے دیے تھے"۔
عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے مردان شہر کے میئر حمایت اللہ مایار (جو مردان کے ضلع ناظم اور قومی اسمبلی کے رکن بھی رہ چکے ہیں) بھی دعائیہ مرکز کی تعمیر کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ''آئین پاکستان کی شق 20 یہ اجازت نہیں دیتی کہ مسلمانوں کے دیے ہوئے چندے یا ٹیکس کے پیسوں سے اقلیتوں کے لیے کوئی عبادت گاہ تعمیر کی جائے''۔
تاہم آئین ان کے نکتہ نظر سے متفق دکھائی نہیں دیتا کیونکہ اس کی شق 20 میں ٹیکسوں یا چندے کا ذکر ہی نہیں بلکہ اس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ پاکستانی شہری خواہ کسی مذہب یا فرقے سے تعلق رکھتے ہوں انہیں "اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے، برقرار رکھنے اور چلانے کا حق حاصل ہے"۔
پشاور میں رہنے والے مسیحی سماجی کارکن آگسٹن جیکب اسی بنا پر کہتے ہیں کہ آئینی اور قانونی طور پر دعائیہ مرکز بنانے اور اسے عبادت کے لئے استعمال کرنے میں کوئی قباحت نہیں بشرطیکہ اس میں کوئی غیرقانونی کام نہ کیا جائے۔
تاہم خیبرپختونخوا اسمبلی کے اقلیتی رکن روی کمار، جن کا تعلق صوبے کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف سے ہے، کہتے ہیں کہ مرکز کی تعمیر تبھی کی جانے چاہیے جب قاری محمد جنید اور ان کے ساتھی ایک مشاورتی عمل کے نتیجے میں اسے قبول کر لیں۔ لیکن، ان کے مطابق، "اگر اسلام کی رو سے اس معاملے میں کوئی قباحت ہو تو ہم اس معاملے میں پیچھے ہٹنے کو بھی تیار ہیں"۔
تاریخ اشاعت 29 اگست 2022