حمیدہ بی بی ماں بننے والی تھیں۔ وہ 16 ستمبر کی صبح بڑے بیٹے سات سالہ اذان کو ساتھ لیے اپنا چیک اپ کرانے حیدر آباد سول ہسپتال گئی تھیں۔ لیکن روتی بلکتی اکیلی گھر لوٹیں کیونکہ انہوں نے گائنی وارڈ میں اذان کو کھو دیا تھا۔
اذان کے والد اکرام ایک سرکاری محکمے میں نوکری کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے ٹاور مارکیٹ تھانے میں رپورٹ درج کرائی۔ ہسپتال کی سی سی ٹی وی فوٹیج سے معلوم ہوا کہ اُن کے بیٹے کو سول ہسپتال سے ایک مرد اور عورت نے اغوا کیا ہے۔
"پولیس نے بچے کو چار دن بعد سو کلومیٹر دور واقع شہر سانگھڑ سے بازیاب کرا لیا۔ ہم نے یہ دن کس تکلیف اور اذیت میں گزارے اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔"
ایس ایس پی تھانہ ٹاور مارکیٹ امجد احمد شیخ بتاتے ہیں کہ اذان کو سانگھڑ کے رہائشی اسلم اور ان کی بیوی فریدہ نے اغوا کیا تھا۔
"اسلم بے روزگار تھا اور اس کی بیوی پانچویں بار کی حاملہ تھیں۔ اسلم نے 50 ہزار روپے کے عوض ایک بے اولاد جوڑے سے اپنے اس بچے کا سودا کر رکھا تھا جو ابھی دنیا میں آیا ہی نہیں تھا۔"
اس نے پیشگی رقم بھی وصول کر لی تھی لیکن دوران زچگی ان کا بچہ مر گیا۔ جس کے بعد دونوں میاں بیوی نے مل کر کسی اور بچے کو اغوا کرنے کا منصوبہ بنایا۔
احمد شیخ نے بتایا کہ اب اسلم اور فریدہ جیل میں ہیں اور کیس کا چالان جمع ہو چکا ہے۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 364- اے کے تحت 14 سال سے کم عمر بچے کو اغوا کرنے پر سات سال سے عمرقید یا موت تک کی سزا ہو سکتی ہے۔
سول ہسپتال حیدرآباد سے اذان کا اغوا اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا۔ چند سال قبل نواحی قصبہ 'سیری'کا رہائشی جوڑا بھی یہاں اپنے دو دن کے بچے سے محروم ہو گیا تھا۔
تیس سالہ گلشن اور ان کے شوہر معشوق ملاح اپنے نومولود کے اغوا پر رو دھو کر خاموش ہو چکے ہیں۔اس واقعے کو پانچ سال ہو گئے مگر وہ نہیں جانتے کہ ان کا بچہ کہاں ہے؟ اُلٹا ہسپتال کی تحقیقاتی رپورٹ میں عملے کو 'بے قصور' اور نومولود کے والدین کو "غفلت کے مرتکب" قرار دے دیا گیا تھا۔
لیاقت میڈیکل کالج حیدر آباد سے منسلک سول ہسپتال میں روزانہ درجنوں زچگیاں ہو تی ہیں۔ جس کے باعث زچہ بچہ وارڈز کھچا کھچ بھرے رہتے ہیں۔
سرکاری ریکارڈ کے مطابق گزشتہ سال یہاں شعبہ گائنی میں 17 ہزار ایک سو زچگیاں ہوئیں جن میں چھوٹے آپریشن (سیزیرین)بھی شامل ہیں۔ رواں سال اب تک 12 ہزار 301 سیزیرین ہو چکے ہیں جبکہ نارمل کیسز ان کے علاوہ ہیں۔
شعبہ گائنی میں خاتون ڈاکٹرز اور آپریشن تھیٹر ٹیکنیشنز کے ساتھ 40 سے زیادہ افراد پر مشتمل عملہ ڈیوٹی کرتا ہے۔
تھانہ ٹاور مارکیٹ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سول ہسپتال سے پچھلے پانچ برسوں کے دوران چار بچے اغوا کیے گئے تھے جن سے متعلق اغوا کے تین مقدمات درج کرائے گئے تھے۔ تاہم ایک ہی بچے کو بازیاب کرایا جاسکا ہے۔
ڈاکٹر نجمہ سرھیو حیدر آباد میں راجپوتانہ ھسپتال کے گائنی وارڈ میں کام کرتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کے نومولود بچوں کے اغوا کے بیشتر معاملوں میں لڑکے اغوا کیے جاتے ہیں۔
"بے اولاد یا وہ جوڑے جن کی صرف بچیاں ہوں، وہ بیٹے کے ہی خواہشمند ہوتے ہیں۔ تاہم لڑکیاں صرف بڑی عمر کی اغوا کی جاتی ہیں۔
چائلڈ پروٹیکشن انچارج حیدر آباد عنبریں بلوچ کا خیال ڈاکٹر نجمہ سے تھوڑا مختلف ہے۔ وہ بتاتی ہیں ہسپتالوں سے فقط نو مولود لڑکے ہی نہیں لڑکیاں بھی اغوا ہوتی ہیں۔
"اغوا کاروں کے جو بچہ ہاتھوں لگ جائے اسے اٹھا لیتے ہیں"۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں حیدرآباد سول ہسپتال سے تین نومولود بچیاں لاوارث ملیں جن کو ایدھی کو حوالے کیا تھا۔ تیرہ دسمبر کی صبح کو حیدر آباد کے نسیم نگر تھانے کے حدود کے گاؤں بڈہو پالاری سے مزید چار بچے ٹیوشن سے واپس آتے ہوئے اغوا ہوئے۔ جن میں دو بہنیں، چار سالہ بشریٰ اور سات سالہ علیشبہ اور پانچ سالہ حسنین کو اغوا کیا گیا تھا۔
حیدر آباد پولیس کے اے ایس پی رانا دلاور بتاتے ہیں کہ اس واردات سمیت عنبرین بلوچ نے جو واقعات بتائے ان کا اغوا کی عام وارداتوں سے کوئی تعلق نہیں۔
بڈھو پالاری سے اغوا ہونے والے بچوں کو کراچی سے بازیاب کرا لیا گیا تھا۔ ملزم ظہیر نے بیوی سے علیحدگی کے بعد ایک عورت زارا چانڈیو کے مدد سے ان بچوں کو اغوا کرایا تھا۔
مٹیاری کے نواحی گاؤں سیکھاٹ کی رہائشی 30 سالہ سکینہ نے بھی سات سال قبل دس اکتوبر 2016ء کو یہیں سول ہسپتال کے گائنی وارڈ میں بیٹے کوجنم دیا تھا۔ پورا خاندان خوشی سے نہال تھا لیکن آٹھ گھنٹے بعد ہی نومولود کو وارڈ ہی سے اغوا کر لیا گیا تھا۔
سکینہ ایک کاشتکار کی بیوی ہیں۔مشکل حالات کے باوجود انہوں نے سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کر دی تھی۔ عدالتی حکم کے تحت تین بار جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی گئی لیکن ان کے بچے کو ڈھونڈا نہیں جا سکا۔
اس حوالے سے پولیس نے عدالت کو اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ نومولود کے اغوا میں ہسپتال کا عملہ ملوث تھا۔ اس عرصے میں حیدرآباد کے پانچ ڈی آئی جی اور 11 ایس ایس پی تبدیل ہوئے۔ حتیٰ کہ موجودہ ایس ایس پی تیسری بار اسی علاقے میں تعینات ہوئے ہیں لیکن آج تک اس بچے کا سراغ نہیں مل سکا۔
سکینہ کے بھائی علی نواز نے 2018ء میں عدالت کو بتایا تھا کہ ان کی بہن اس واقعہ کے بعد اپنا ذہنی توازن کھو چکی ہیں۔ ان کے پاس وکیل کی فیس کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔ اس لیے وہ کیس کی مزید پیروی نہیں کر سکتے۔ اب پولیس بھی اس مقدمے کو سی کلاس یعنی غیر فعال قرار دے چکی ہے۔
ایم ایس سول ہسپتال شاھد جونیجو عملے کے اغوا میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 2016ء میں نومولود کے اغوا میں بچے کے والدین کی غفلت ہو گی۔ پولیس نے' اپنی جان چھڑانے کے لیے'اغوا میں ہسپتال عملے کے ملوث ہونے کی رپورٹ دی تھی۔
"تفتیش میں کسی اہلکار کا نام سامنے نہیں آیا اس لیے کسی کے خلاف کارروائی بھی نہیں ہوئی۔"
ایس ایچ او تھانہ ٹاور مارکیٹ کہتے ہیں کہ بچے کے اغوا سے متعلق رپورٹ میں کسی کا نام نہیں دیا گیا تھا۔ تاہم تفتیشی افسر نے عملے کے ملوث ہونے کا خدشہ ضرور ظاہر کیا تھا۔
شاھد جونیجو بتاتے ہیں کہ گائنی وارڈ اور نرسری میں مریض کے ایک رشتہ دار کے علاوہ کسی کو آنے کی اجازت نہیں ہے اب تو وارڈز میں بھی گارڈ تعنیات ہیں۔ ہسپتال کے ایک ملازم نے نام ظاھر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سول ہسپتال میں سکیورٹی انتظامات عدالتی حکم پر کیے گئے ہیں۔
پاکستان میں انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے کام کرنے والی این جی او (ایس ایس ڈی او) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کوثر عباس کا ماننا ہے کہ ہسپتالوں سے بچوں کے اغوا میں زیادہ تر انسانی سمگلروں اور جرائم پیشہ گروہوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
'زمیں کھا گئی یا آسمان نگل گیا'، سکھر میں بچوں کے اغوا کی بڑھتی وارداتوں پر پولیس کی بے بسی
تاہم ایس ایس پی امجد احمد شیخ کسی گروہ کے ملوث ہونے سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ بتاتے ہیں کہ پہلے بالائی سندھ میں ڈاکوؤں کا سات رکنی ایک گینگ ہوتا تھا جو بچوں کے اغوا برائے تاوان میں ملوث تھا۔ لیکن وہ ڈاکو پولیس مقابلے میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ اب ایسا کوئی گینگ موجود نہیں ہے۔
صوبائی حکومت نے بچوں کے تحفظ کے لیے ایک اور ادارہ 'سندھ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی' بھی بنا رکھا ہے۔ بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم غیر سرکاری تنظیم 'سپارک' کے کوآرڈینیٹر کاشف بجیر کہتے ہیں کہ سندھ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی سالانہ 20کروڑ روپے بجٹ ہونے کے باوجود انتہائی غیر فعال ادارہ بن چکی ہے۔
عنبرین بلوچ بتاتی ہیں کہ اس ضلعے میں گزشتہ سال جنوری سے دسمبر تک 20 بچے لاپتہ ہوئے تھے۔ جن میں دو ایسے تھے جنہیں اغوا کیا گیا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ رواں سال سول ہسپتال سے ایک بچہ اغوا ہوا تھا جو مل گیا جبکہ شھر سے چار بچے لاپتہ ہوئے ہیں جس میں سے 17 سالہ محمد امان اور 15 سالہ عبدالصمد کا تاحال پتا نہیں چل سکا۔ یہ دونوں 9 ستمبر کو گم ہوئے تھے تاہم ان کے اغوا کا مقدمہ بھی درج کیا جا چکا ہے۔
فلاحی ادارے ایدھی فاؤنڈیشن حیدر آباد کے انچارج محمد معراج نے لوک سجاگ کو بتایا کہ سندھ میں بےاولاد یا بچوں کو گود لینے کی خواہشمند جوڑوں کو کراچی کے مرکزی دفتر میں بچے حوالے کیے جاتے ہیں۔ یہ وہ بچے ہوتے ہیں جن کا کوئی وارث نہیں ہوتا اور اس معاملے میں میں بہت سخت معیارات ہیں۔
تاریخ اشاعت 22 دسمبر 2023