نذیراں بی بی کا دن سورج نکلنے سے پہلے شروع ہوتا ہے۔ علی الصبح وہ اپنی بھینس کے لیے ایک میل دور سے چارہ کاٹ کر لاتی ہیں۔ پھر وہ چھ لوگوں پر مشتمل اپنے خاندان کے لیے ناشتہ تیار کرتی ہیں اور خود ناشتہ کرنے کے بعد کھیتوں میں کام کرنے نکل جاتی ہیں جہاں وہ 10 گھنٹے مسلسل آلو چنتی ہیں۔
20 فروری 2022 کی دوپہر کو وہ ایک کھیت میں اکڑوں بیٹھی زمین سے آلو نکال رہی ہیں۔ وہ تیز بخار اور کھانسی میں مبتلا ہیں اور ان کی کمر میں بھی شدید درد ہے۔ لہٰذا ہر تھوڑی دیر بعد وہ کچھ لمحوں کے لیے سستاتی ہیں، اپنے ہاتھوں سے اپنی کمر کو ملتی ہیں، ایک لمبی سانس لیتی ہیں اور پھر کام میں لگ جاتی ہیں۔
وہ آرام نہیں کر سکتیں کیونکہ اگر وہ ایسا کریں گی تو، ان کے بقول، "شاید رات کو میرے کنبے کو سالن کے بغیر ہی روٹی کھانا پڑے"۔
نذیراں بی بی کی عمر 55 سال کے لگ بھگ ہے اور ان کا تعلق وسطی پنجاب کے شہر ساہیوال سے 30 کلو میٹر مشرق میں واقع 184 نائن ایل نامی گاؤں سے ہے۔ ان کی دو بیٹیاں بھی ان کے ساتھ کھیت سے آلو چن رہی ہیں۔ ان میں سے ایک کی عمر 15 سال ہے اور دوسری کی 13 سال۔
وہ تینوں اس وقت تک کام کریں گی جب تک سورج کی روشنی موجود ہے۔ اس دوران سات دیگر مزدوروں کے ساتھ مل کر وہ لگ بھگ ڈیڑھ ایکڑ زمین سے آلو چن کر انہیں بوریوں میں بھر چکی ہوں گی۔ اس مشقت کے بدلے میں انہیں پانچ سو روپے فی کس کے قریب مزدوری ملے گی۔
وہ کہتی ہیں کہ ایک سال پہلے ان کی بیٹیوں کو کام نہیں کرنا پڑتا تھا اور وہ خود بھی کبھی کبھار بیماری یا کسی گھریلو مصروفیت کے باعث چھٹی کر لیتی تھیں کیونکہ اس وقت ان کا شوہر ابھی زندہ تھا۔ وہ راج کے طور پر کام کرتا تھا اور، ان کے بقول، ہر مہینے لگ بھگ 15 ہزار روپے کما لیتا تھا۔ ان کے پاس دو بھینسیں اور ایک گائے بھی تھی جن کا دودھ فروخت کرنے سے بھی کچھ پیسے مل جاتے تھے۔
لیکن پچھلے سال کے شروع میں ایک حادثے میں ان کے شوہر کا انتقال ہو گیا جبکہ کچھ ماہ بعد دو بیٹیوں کی شادی کرنے کے لیےانہیں اپنی گائے اور ایک بھینس بھی فروخت کرنا پڑی۔ ان دونوں وجوہات کی بنا پر ان کے معاشی حالات اتنے خراب ہو گئے ہیں کہ اب وہ اور ان کی بیٹیاں "سارا سارا دن کھیتوں میں مزدوری کرنے کے بعد بھی دو وقت کےکھانے کا انتظام مشکل سے کر پاتی ہیں"۔
کھیت میں اپنا کام ختم کرنے کے بعد نذیراں بی بی میں اتنی سکت بھی نہیں بچتی کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکیں۔ اس کے لیے انہیں اپنی بیٹی کا سہارا لینا پڑا ہے۔ اس کے باوجود ان کے لبوں پر کوئی شکوہ ہے نہ ہی انہیں کسی سے کوئی شکایت ہے۔
ان کے گاؤں کے قریب واقع بس سٹاپ، اڈہ نائی والا بنگلہ، پر نجی کلینک چلانے والے محمد عتیق نامی ڈاکٹر ہر سال ان جیسی سینکڑوں عورتوں کا علاج کرتے ہیں۔ وہ ساہیوال کے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میں میڈیکل سپیشلسٹ کے طور پر بھی کام کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے پاس علاج کے لیے آنے والی اکثر دیہاتی خواتین کو نذیراں بی بی کی طرح کمر، ٹانگوں اور جسم کے دوسرے حصوں میں درد کی شکایت ہوتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کی ایک وجہ ان کے کام کی نوعیت ہے اور دوسری وجہ انہیں متوازن خوراک کا دستیاب نہ ہونا ہے۔ ان کے مطابق "دیہی علاقوں کی خواتین میں جلدی امراض بھی بہت زیادہ پائے جاتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر ان کا کام ایسا ہوتا ہے جس میں ان کے ہاتھ مٹی اور پانی میں لتھڑے رہتے ہیں"۔
مزدوروں کے حالات کار کے بارے میں وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے 19-2018 میں کیا گیا ایک سروے ان کی اس بات کی تائید کرتا ہے کہ دیہاتی خواتین میں بیماریوں کا ایک بڑا سبب ان کی معاشی سرگرمیاں ہیں۔ اس کے مطابق ہر سو زرعی مزدور خواتین میں سے تقریباً 84 اپنا کام کرتے ہوئے یا تو مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوجاتی ہیں یا انہیں کام کے دوران کوئی چوٹ لگ جاتی ہے۔
اس کے برعکس 34.5 فیصد مرد زرعی مزدور کام کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں یا اس کی وجہ سے لگنے والے زخموں کا نشانہ بنتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زرعی مزدور خواتین یا تو مردوں کی نسبت زیادہ مشکل کام کرتی ہیں یا انہیں کام کے دوران درکار حفاظتی انتظامات فراہم نہیں کیے جاتے۔
کام زیادہ، معاوضہ آدھا
گاؤں 184 نائن ایل کے ہی ایک اور کھیت میں مزدوروں کا ایک گروہ صبح سے کام میں جتا ہوا ہے۔ اس میں شامل 20 خواتین مسلسل جھکی ہوئی مکئی کا بیج زمین میں بو رہی ہیں جبکہ دو مرد انہیں یہ بیج فراہم کر رہے ہیں۔
ان مردوں کے ذمے اس بات پر نظر رکھنا بھی ہے کہ خواتین میں سے کون صحیح کام کر رہا ہے اور کون سستی برت رہا ہے۔ ان میں سے ایک اس گروہ کے ٹھیکیدار منظور حسین ہیں جن کی ذمہ داری کام تلاش کرنا، اجرت طے کرنا اور اس اجرت کو خواتین مزدوروں میں تقسیم کرنا ہے۔ دوسرا مرد ایک مزدور خاتون کا شوہر ہے۔
منظور حسین کا کہنا ہے کہ "مردوں کو بیج کی فراہمی کا کام اس لیے دیا گیا ہے کہ وہ دوڑ دوڑ کر تمام مزدوروں کو فوری طور پر بیج پہنچا سکتے ہیں"۔ ان کے مطابق خواتین یہ دوڑ دھوپ نہیں کر سکتیں اس لیے انہیں اس کام پر متعین کرنے سے پورے گروہ کی کارکردگی متاثر ہوسکتی ہے۔
ایک خاتون مزدور مسکراتے ہوئے اس جواز کو رد کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ مرد عام طور پر اپنے لیے آسان کام کا انتخاب کرتے ہیں۔ ان کے مطابق چونکہ بیج فراہم کرنے کی نسبت بیج بونا کہیں زیادہ دقت طلب کام ہے اس لیے یہ کام خواتین سے لیا جاتا ہے۔ وہ مکئی اور چاول کی بوائی، آلو اور کپاس کی چنائی اور گندم کی کٹائی کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ یہ مشکل ترین کام زیادہ تر خواتین ہی کرتی ہیں۔ اس کے بعد وہ پوچھتی ہیں: "اگر یہ کام آسان ہیں تو پھر مرد انہیں کرنے کے بجائے شہر جاکر فیکٹریوں میں ملازمت کرنے کو ترجیح کیوں دیتے ہیں؟"
تاہم انہیں شکایت ہے کہ مردوں سے زیادہ محنت کرنے کے باوجود خواتین کو ان کی نسبت کم معاوضہ ملتا ہے۔ ان کے مطابق انہیں مکئی کی بوائی کا زیادہ سے زیادہ روزانہ معاوضہ چھ سو روپے ملتا ہے لیکن ان کے پاس ہی کھیتوں میں کیاریاں بنانے پر مامور چار مزدوروں میں سے ہر ایک روزانہ ایک ہزار روپیہ کما لیتا ہے۔ وہ سوچتی ہیں کہ آخر ایسا کیوں ہے حالانکہ ان کے خیال میں "اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ خواتین کی بوئی اور کاٹی ہوئی فصلوں کی پیداوار مردوں کی بوئی اور کاٹی ہوئی فصلوں سے کم ہوتی ہے"۔
وفاقی ادارہ شماریات کی طرف سے 2018 میں جاری کی گئی ایک رپورٹ ان کے شکوے کی توثیق کرتے ہوئے کہتی ہے کہ زرعی شعبے میں کام کرنے والی ہر سو میں سے 56 خواتین ہر ہفتے 50 گھنٹے سے زیادہ کام کرتی ہیں جبکہ ہر سو میں سے صرف 22 مرد زرعی مزدوروں کو ہر ہفتے اتنے گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود مرد زرعی مزدوروں کی اوسط ماہانہ اجرت 12 ہزار سات سو 39 روپے ہے جبکہ زرعی مزدور خواتین ہر ماہ اوسطاً صرف سات ہزار پانچ سو 56 روپے کما پاتی ہیں۔
دوسرے لفظوں میں مجموعی طور پر وہ مردوں وہ مردوں سے ڈھائی گنا زیادہ کام کرتی ہیں لیکن ان کے کمائے ہوئے ہر سو روپے کے مقابلے میں صرف 59 روپے کماتی ہیں۔
معاشرے کے کمزور طبقوں کو بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کے لیے کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم روٹس فار ایکوئٹی کی سربراہ ڈاکٹر عذرا طلعت سعید اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ زرعی مزدور خواتین جو بھی کام کرتی ہیں اسے کمتر سمجھا جاتا ہے اس لیے اس کا معاوضہ بھی کم ادا کیا جاتا ہے۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ "مکئی اور چاول کی بوائی دراصل انتہائی مہارت والے کام ہیں کیونکہ اگر بیجوں یا پودوں کو مناسب گہرائی یا مناسب فاصلے پر نہ بویا جائے تو فصل کی پیداوار کم ہو جاتی ہے"۔ اس کے باوجود، ان کے مطابق، جب خواتین ان کاموں کو انجام دیتی ہیں تو محض صنفی امتیاز کی بنا پر انہیں مردوں کی نسبت کم اجرت دی جاتی ہے۔
اربوں روپے مالیت کی بیگار
وفاقی ادارہ شماریات کے 19-2018 کے لیبر فورس سروے کے مطابق ملک میں بھر میں مزدوروں کی کل تعداد چھ کروڑ 87 لاکھ 50 ہزار ہے۔ ان میں سے پانچ کروڑ 24 لاکھ 10 ہزار مرد ہیں جبکہ ایک کروڑ 63 لاکھ 40 ہزار خواتین ہیں۔
اسی سروے کے مطابق دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کی کل تعداد چار کروڑ 58 لاکھ 60 ہزار ہے جن میں سے تین کروڑ 23 لاکھ 60 ہزار مرد اور ایک کروڑ 35 لاکھ خواتین ہیں۔ ان دیہی مزدور خواتین میں سے ایک کروڑ آٹھ لاکھ 14 ہزار آٹھ سو 50 (یعنی 80.11 فیصد) زرعی شعبے میں کام کر رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
بستی بستی موت کے ڈیرے: سِلی کوسز کا شکار مزدور انصاف کے متلاشی۔
لیکن 2018 میں دیہی عورتوں کے حالاتِ زندگی کے بارے میں شائع کی گئی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کا کہنا ہے کہ اگرچہ پاکستان کے زرعی شعبے میں کام کرنے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن ان کے کام کی اہمیت کو ابھی بھی مکمل طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خواتین کو زرعی شعبے میں عام طور پر مجبوراً کام کرنا پڑتا ہے اس لیے اکثر ان کے پاس کام کی نوعیت اور اجرت کا انتخاب کرنے کی آزادی نہیں ہوتی۔
نتیجتاً ان میں سے 60 فیصد کو کبھی کوئی اجرت نہیں ملتی کیونکہ وہ اپنے ہی خاندان کی فصلوں اور مویشیوں کی دیکھ بھال کر رہی ہوتی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق اس کام کی سالانہ معاشی مالیت تقریباً چھ سو 83 ارب روپے بنتی ہے جو کہ خواتین مزدوروں کے کام کی مجموعی مالیت کا 57 فیصد اور ملک کی کل مجموعی سالانہ پیداوار کا 2.6 فیصد ہے۔
تاہم ڈاکٹر عذرا طلعت سعید کا کہنا ہے کہ اپنے کام کا معاوضہ پانے والی زرعی مزدور خواتین کو بھی باقاعدہ ادائیگی نہیں کی جاتی لہٰذا ان کی کمائی کو اجرت یا تنخواہ کہنا صحیح نہیں۔ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ "اجرت یا تنخواہ ایسے معاوضے کو کہتے ہیں جو ہر مہینے ملتا ہے لیکن زرعی مزدور خواتین کو معاوضہ صرف ان دنوں ملتا ہے جب وہ کام کر رہی ہوتی ہیں"۔
ان کے کام میں کسی قسم کی ہفتہ وار یا سرکاری چھٹی کا کوئی تصور ہی موجود نہیں۔
تاریخ اشاعت 10 مارچ 2022