سرامکس انڈسٹری کے مرکز گوجرانوالہ میں بیشتر یونٹ بند ہو چکے ہیں اور اس وقت سرامکس مصنوعات کی پیداوار نہ ہونے کے برابر ہے۔ شہر میں ٹائل بنانے والے دو بڑے یونٹ یعنی ماسٹر ٹائلز اور سونیکس ٹائلز بند پڑے ہیں اور اس صنعت میں کام کرنے والے ہزاروں مزدوروں کو بے روزگاری کا سامنا ہے۔
گوجرانوالہ کے قریب چند دا قلعہ میں سرامکس مصنوعات تیار کرنے والے عاطف لون کا کہنا ہے کہ وہ فیکٹریوں کی 30 فیصد پیداوار کم کر چکے ہیں اور اخراجات میں کمی کی خاطر ایک تہائی مزدوروں کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔ تاہم اس کے باوجود ان کا خسارہ کم نہیں ہو سکا۔
انہوں نے اس کا ایک سبب گیس کی قیمتوں میں اضافے کو قرار دیا جو بقول ان کے ایک سال میں دوگنا بڑھ گئی ہیں۔
پاکستان سرامکس مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے چیئرمین رانا شہزاد حفیظ نے لوک سجاگ کو بتایا کہ سرامکس انڈسٹری کے لیے بڑا مسئلہ تعمیرات کی کمی سے مال فروخت نہ ہونا ہے۔ اسی لیے زیادہ تر لوگ پہلے سے موجود مال کو بیچ رہے ہیں۔
ان کے بقول فیکٹری مالکان سے مزدوروں تک چار ہزار گھرانے اس کاروبار سے براہ راست منسلک ہیں۔ دکانوں کو شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد 40 ہزار تک پہنچ جاتی ہے۔
سرامکس سے گھروں اور دفاتر میں استعمال ہونے والی مختلف اشیا جیسا کہ بیسن، کموڈ، فلش، ٹائلز اور برتن تیار کیے جاتے ہیں۔
رانا شہزاد حفیظ کہتے ہیں کہ گیس کی قیمتیں بڑھاتے وقت صنعت کاروں کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔ وہ آرڈر لیتے وقت مال کی قیمت طے کرتے ہیں لیکن اس کی تیاری کے دوران گیس کی قیمت بڑھ چکی ہوتی ہے۔
"انڈسٹری چلانی ہے تو بجلی اور گیس کی قیمتوں سمیت تمام ٹیکسوں کو سالانہ بنیادوں پر مقرر کریں اور ڈالر کی قیمت کو کنٹرول کریں۔"
انہوں نے کہا کہ سرکاری اداروں میں محکمہ سوئی گیس کی پالیسیاں سب سے زیادہ سرامکس انڈسٹری پر اثرانداز ہو رہی ہیں۔ نرخ زیادہ ہونے کے ساتھ گیس کے بلوں کی وصولی کا طریقہ کار غلط ہے۔پہلے مہینہ ختم ہونے کے بعد بل آتا تھا تو اس کی ادائیگی کی جاتی تھی، اب تین بل ایڈوانس وصول کیے جاتے ہیں، اگر کوئی فیکٹری ایک دن بھی بل لیٹ کرے تو اس کا کنکشن کاٹ دیا جاتا ہے۔
نعمان ایوب بٹ کا خاندان گزشتہ 40 سال سے سرامکس مصنوعات کی تیاری کا کام کر رہا ہے۔ ان کے خیال میں اس صنعت کی صورت حال پہلے کبھی اتنی بری نہیں رہی۔
وہ کہتے ہیں کہ سرامکس انڈسٹری کے سیلز ٹیکس کو گیس بلوں کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے۔ اگر کسی فیکٹری کی گیس کا بل ایک کروڑ روپے آتا ہے تو اسے 17 لاکھ روپے سیلز ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ حالیہ بجٹ میں اسے 18 لاکھ روپے کر دیا گیا ہے۔ یہ ٹیکس گیس کے بلوں میں وصول کیا جاتا ہے۔
سرامکس تیار کرنے کے لیے کچھ خام مال درآمد بھی کیا جاتا ہے۔ عاطف لون کہتے ہیں کہ اس پر کسٹم ڈیوٹی بڑھا دی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سرامکس کے لیے درآمد ہونے والے زرگونیم اور بیریم کی قیمتیں پہلے ہی بڑھ چکی ہیں۔
"انہیں چین اور افریقی ممالک سے منگوایا جاتا ہے۔ کچھ ہی عرصہ قبل تین ٹن زرگونیم اور بیریم 10 سے 12 لاکھ روپے میں درآمد کی جاتی تھی، اب 30 سے 40 لاکھ روپے میں ہو رہی ہے۔"
عاطف کے مطابق ڈالر ریٹ کے اتار چڑھاؤ نے بھی کاروبار کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ نعمان ان سے اتفاق کرتے ہیں۔
"ڈالر کی اڑان نے کاروبار کو ختم کر کے رکھ دیا ہے، باہر سے مال منگوائیں تو پاکستان آتے آتے ریٹ بڑھ چکا ہوتا ہے، باہر مال بھیجیں تو مال پہنچنے تک ملکی کرنسی گر چکی ہوتی ہے۔"
شیخ ضیا الحق کا کہنا ہے کہ برآمدات و درآمدات کا کاروبار ڈالر سے جڑا ہے، ڈالر ریٹ مستحکم ہونے سے برآمدات بڑھیں گی۔ ڈالر کی قیمتیں بڑھنے پر پیداواری لاگت، کسٹم ڈیوٹی، کنٹینر کے سفری اخراجات وغیرہ بھی بڑھ جاتے ہیں۔
"ڈالر کی قیمت بڑھنے سے برآمدات اور درآمدات دونوں کوفائدہ نہیں ہوتا۔ جو لوگ کاروباری نہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ڈالر اوپر جائے تو برآمد کنندہ کو فائدہ ہوتا ہے، یہ تاثر درست نہیں"۔
گیس نرخوں میں اضافے کے بارے محکمہ سوئی گیس کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ سرامکس انڈسٹریز کو ایل این جی گیس سپلائی کی جاتی ہے جس کا گیس ٹیرف ڈالر ریٹ اور انٹرنیشنل مارکیٹ ریٹ کے ساتھ منسلک ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ روس اور یوکرین کی جنگ کے بعد عالمی منڈی میں مجموعی طور پر گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا جبکہ پاکستان میں ڈالر کی قیمتیں بھی تیزی سے اوپر گئیں جس سے ایل این جی کی قیمتوں میں ان دونوں وجوہات کی بنا پر اضافہ ہونا لازمی امر تھا۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ریگولر گیس کی قیمت عموماً سالانہ ملکی بجٹ میں ماہ جون میں طے کی جاتی ہے جبکہ ایل این جی کی قیمتوں کا تعین ماہانہ بنیادوں پر ہوتا ہے جس سے سرامکس انڈسٹریز مالکان کو قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کی شکایت ہوتی ہے۔
شیخ ضیاالحق نے شکایت کی کہ پنجاب کی انڈسٹری کو مہنگی گیس دی جا رہی ہے۔ اوگرا نے سوئی ناردرن گیس پائپ لائن کمپنی اور سوئی سدرن کمپنی کے لیےالگ الگ ٹیرف مقرر کر رکھا ہے۔ اسی طرح کمرشل ٹیرف اور ایل این جی ٹیرف مختلف ہیں۔
صوبوں کے درمیان ریٹ کے فرق پر محکمہ سوئی گیس کے آفیسر نے بتایا کہ پاکستان میں گیس کی دو ہی کمپنیاں سوئی ناردرن گیس پائپ لائن کمپنی اور سوئی سدرن گیس کمپنی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
قبائلی اضلاع میں بند ہوتے کارخانے: ہزاروں محنت کشوں کا روزگار خطرے میں پڑ گیا
"سوئی سدرن گیس کمپنی کے دائرہ کار میں بلوچستان اور سندھ شامل ہیں جہاں سے گیس نکلتی ہے۔ وہاں گیس منتقلی کے اخراجات کم ہوتے ہیں اس لیے ان علاقوں کا گیس ریٹ کم ہوتا ہے۔ سوئی ناردرن کے علاقوں میں پنجاب اور خیبر پختون خوا شامل ہیں جہاں تک گیس منتقل کرنے کے اضافی اخراجات ہوتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ان علاقوں کا گیس ٹیرف نسبتاً زیادہ ہے"۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی ادارے اوگرا کے پاس گیس کی قیمتوں کا تعین کا اختیار ہے اور وہی گیس کی سپلائی اور اس پر اٹھنے والے اخراجات کی روشنی میں قیمتوں کا فیصلہ کرتا ہے۔
سرامکس انڈسٹری بند ہونے سے بے روزگار ہونے والوں میں ایمن آباد کے رہائشی محمد زبیر بھی شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فیکٹری نے پہلے تین ماہ تک تنخواہیں روکے رکھیں اور کہا کہ آرڈر ملے گا تو سب ورکرز کو ادائیگیاں کر دیں گے۔ تین ماہ بعد اچانک فیکٹری کو تالا لگا دیا گیا اور کہا گیا کہ جب کام ہو گا تو بلا لیں گے۔ بقایا جات بھی ادا کر دیں گے اور نیا کام بھی دیں گے۔ دو ماہ گزر گئے ہیں نہ بقایا جات ملے نہ ہی نیا کام"۔
انہوں نے بتایا کہ وہ سرامکس کی تیاری کا کام گزشتہ 27 برس سے کر رہے ہیں اور ہنرمند ہیں، مگر بیروزگار ہونے پر انہوں نے مجبوراً چائے کا کھوکھا لگا لیا ہے کیونکہ سب یہی کہہ رہے ہیں کہ فیکٹریاں اب نہیں کھلیں گی۔
تاریخ اشاعت 26 جولائی 2023