پنجاب کو پاکستان میں بڑا بھائی کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی آبادی دیگر تمام وفاقی اکائیوں کے مجموعے سے بھی زیادہ رہی ہے اور اسی وجہ سے قومی اسمبلی میں پنجاب کی سیٹوں کی تعداد پختونخوا، سندھ، بلوچستان اور اسلام آباد کی کل سیٹوں سے بھی زیادہ ہے۔
لیکن اب یہ بدلنے والا ہے۔
2023ء کی مردم شماری کے تازہ ترین غیر حتمی نتائج کے مطابق اب پنجاب کی آبادی پاکستان کی آبادی کے نصف سے زائد نہیں رہی بلکہ نصف کے برابر ہو گئی ہے۔
ادارہ شماریات پاکستان کے ایک حالیہ ٹویٹ کے مطابق 30 اپریل 2023ء تک چاروں صوبوں اور وفاقی دارالحکومت کی مجموعی آبادی 23 کروڑ 36 لاکھ شمار کی گئی ہے جبکہ پنجاب میں 11 کروڑ 68 لاکھ افراد کا شمار کیا گیا جو کل آبادی کا ٹھیک نصف یعنی 50 فیصد بنتا ہے۔
ادارے کے مطابق چند اضلاع میں مردم شماری کا سلسلہ 15 مئی تک جاری رہے گا تاکہ تمام افراد کی شماری کو یقینی بنایا جا سکے اور کسی بھی شکایت کا ازالہ کیا جا سکے۔ امکان یہی ہے کہ حتمی اعداد موجودہ اعداد سے کچھ ہی مختلف ہوں گے اور اس مضمون میں لگائے گئے حسابات میں فرق آنے کے امکانات کم ہی رہیں گے۔
پاکستان کے قیام کے بعد 1951ء میں ہونے والی پہلی مردم شماری کے مطابق پنجاب کی آبادی پاکستان ( اس وقت کا مغربی پاکستان) کی کل آبادی کا 61 فیصد تھی لیکن بعد میں ہونے والی تمام مردم شماریوں میں کل آبادی میں بڑے بھائی کا تناسب کم ہوتا رہا۔ گویا پنجاب میں آبادی میں اضافے کی شرح دوسرے تمام صوبوں سے کم رہی تھی۔ 1998ء سے 2017ء کے درمیان پنجاب کے کل آبادی میں حصے میں تین فیصد پوائینٹ سے کچھ کم کی کمی واقع ہوئی اور اب 2017ء اور 2023ء کی مردم شماریوں نے اس میں تین فیصد پوائینٹ کی کمی ظاہر کی ہے۔
اس کمی کا ایک فوری نتیجہ تو یہ نکلے گا کہ قومی اسمبلی میں پنجاب کی آٹھ سیٹیں کم ہو جائیں گی یعنی موجودہ 141 سیٹیں کم ہو کر 133 رہ جائیں گی جو کل 266 سیٹوں کا ٹھیک نصف بنتی ہیں۔
2017ء کی مردم شماری میں ظاہر ہونے والی کمی کا نتیجہ بھی یہی نکلا تھا جب 2018ء کے انتخابات کے لیے نئی حلقہ بندیاں کی گئی تھیں تو پنجاب کا حصہ 148 سے کم ہو کر 141 پر آ گیا تھا۔
2018ء میں قومی اسمبلی میں سیٹوں کی کل تعداد 272 تھی جن میں وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں کی سیٹیں 12 تھیں جو اس کے آبادی میں تناسب سے دوگنی تھیں۔ فاٹا کو یہ امتیازی حیثیت اس لیے دی گئی تھی کہ اس علاقے کو کسی صوبائی اسمبلی میں نمائندگی حاصل نہیں تھی۔ 2018ء میں فاٹا کے صوبہ پختونخوا میں ضم کر دیا گیا تو اس امتیازی حیثیت کا جواز ختم ہو گیا۔ اب سابقہ فاٹا کے علاقوں کی قومی اسمبلی میں چھ سیٹیں ہیں اور یوں کل سیٹوں کی تعداد 266 ہو گئی ہے۔
پنجاب کے حصے میں کمی کا فائدہ کس صوبے کو ہو گا؟
2017ء کی مردم شماری کے نتائج پر سب سے زیادہ اور سخت اعتراضات سندھ کو تھے۔ صوبے کے قائدین کے خیال میں مردم شماری کا طریقہ کار ناقص تھا جس کے نتیجے میں ان کی تمام آبادی کو نہیں گنا گیا تھا۔ سب سے زیادہ مخالفت کراچی کے قائدین نے کی تھی کیونکہ مردم شماری نے ملک کے اس سب سے بڑے شہر کی آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ ظاہر کی تھی جبکہ ان کے اندازے میں یہ اس سے کہیں زیادہ تھی۔
حالیہ اعدادوشمار 2017ء سے 2023ء کے درمیان کراچی کی آبادی میں 18 لاکھ کا اضافہ ظاہر کر رہے ہیں جبکہ انہی چھ سالوں میں لاہور کی آبادی میں ساڑھے چھ لاکھ کا اضافہ ہوا ہے۔
یہ تو ابھی چند ہفتوں بعد ہی معلوم ہو گا کہ آیا 2023ء کی مردم شماری پر بھی سندھ کے قائدین معترض رہتے ہیں یا نہیں لیکن ایک بات بالکل واضح ہے کہ پنجاب کی سیٹوں میں کمی کا بڑا 'فائدہ' سندھ کو نہیں ہو گا اور کراچی کو تو بالکل بھی نہیں!
نئے اعدادوشمار کے مطابق قومی اسمبلی میں سندھ کی سیٹوں کی تعداد میں محض ایک کا اضافہ ہو گا یعنی یہ موجودہ 61 سے بڑھ کر 62 ہو جائیں گی۔ 15 مئی تک جب مردم شماری حتمی طور پر مکمل ہو جائے گی تو اعدادوشمار میں ہونے والے ردوبدل کے نتیجے میں یہ ممکن ہے کہ سندھ کی سیٹوں میں ایک کی بجائے دو کا اضافہ ہو جائے لیکن تناسب کا حساب کچھ ایسا بن رہا ہے کہ ہر دو صورتوں میں کراچی کی سیٹیں پہلے کی طرح 20 ہی رہیں گی۔ گویا اضافی سیٹیں سندھ کے دوسرے اضلاع کو جائیں گی۔
ابھی یہ حساب لگانا ممکن نہیں کہ اضافی سیٹیں کس ضلع کو ملیں گی کیونکہ ادارہ شماریات نے اب تک ضلع وار آبادی ظاہر نہیں کی ہے۔
پنجاب کی سیٹوں میں کمی کا سب سے زیادہ 'فائدہ' بلوچستان کو ہو گا کہ اس کی سیٹوں کی تعداد موجودہ 16 سے چھلانگ لگا کر 23 ہو جائے گی۔ یعنی سات سیٹوں کا اضافہ!
بلوچستان کی آبادی میں 2017ء اور 2023ء کے درمیان 63 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جو ملک میں ہونے والے مجموعی اضافے (15 فیصد) کا چار گنا ہے۔ یہ غیر معمولی ہے جس کی دو ہی بڑی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ پہلی یہ کہ گذشتہ مردم شماری میں صوبے کی آبادی کو اصل سے کم گنا گیا تھا اور دوسری یہ کہ موجودہ میں اصل سے زیادہ گنا گیا ہے۔
ادارہ شماریات کی معلومات کی روشنی میں دوسری بات کے امکانات کم دکھائی دیتے ہیں کہ اس بار جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کا لاتے ہوئے کاغذی فارموں کی بجائے ڈیٹا کا براہ راست اندراج کمپیوٹر ٹیبلٹ پر کیا گیا ہے، ہر گھر کی جیوٹیگنگ کی گئی ہے اور نادرہ کے شناختی کارڈ کے ڈیٹا بیس سے استفادہ کیا گیا ہے۔ان اقدامات نے اصل سے کم یا زیادہ گنتی کے امکانات کو بہت کم کر دیا ہے۔
موجودہ اور گذشتہ مردم شماروں کے دوران پنجاب کی آبادی میں چھ فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا ہے اور پختونخوا میں 11 فیصد جس کے سبب اس صوبے کا قومی اسمبلی کی سیٹوں میں حصہ بنا ردوبدل 45 ہی رہے گا۔
ادارہ شماریات نے اپنے حالیہ ٹویٹ میں اسلام آباد کی آبادی نہیں بتائی جس کو چار صوبوں کے ساتھ قومی اسمبلی میں نمائندگی حاصل ہے۔ اپنے حساب کو مکمل کرنے کے لیے ہم نے وفاقی دارالحکومت کی حالیہ آبادی کا تخمینہ اس مفروضے کی بنیاد پر لگایا ہے کہ یہاں آبادی میں اضافے کی شرح وہی رہی ہو گی جو اس سے پہلے کی دو مردم شماریوں کے درمیان تھی۔ آبادی کے تناسب کے حساب سے اس بات کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں کہ نئی حلقہ بندیوں میں اسلام آباد کی سیٹوں کی موجودہ تعداد – تین – میں کوئی تبدیلی ہو سکے۔
کیا آئندہ انتخابات نئی حلقہ بندیوں کے مطابق ہو پائیں گے؟
مردم شماری کے حتمی نتائج مشترکہ مفادات کونسل میں پیش کیے جاتے ہیں، جہاں تمام صوبوں کی رضامندی حاصل کرنے کے بعد وفاقی حکومت انہیں سرکاری طور پر شائع کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
One in every five Christians missing in census
مردم شماری کے نتائج کی سرکاری اشاعت کے بعد الیکشن کمیشن پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابی حلقوں کا از سر نو تعین کرے۔ اس مضمون میں قومی اسمبلی کی سیٹوں میں جس ردوبدل کی تفصیل بیان کی گئی ہے وہ نئی حلقہ بندیوں میں ہی کارفرما ہو گی۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کے مطابق کمیشن کو دیگر انتظامات کے ساتھ حلقہ بندیوں کا کام انتخابات سے چار ماہ پہلے مکمل کرنا چاہیے۔
اگر موجودہ قومی اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کرتی ہے تو اگلے انتخابات اس سال وسط اکتوبر میں ہونے چاہیں گویا الیکشن کمیشن کو نئی حلقہ بندیاں وسط جون تک مکمل کرنی چاہیں جبکہ ادارہ شماریات مردم شماری 15 مئی تک مکمل کرے گا جس کے بعد اسے مشترکہ مفادات کونسل میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔
آئندہ انتخابات کو نئی حلقہ بندیوں کے تحت منعقد کروانے کے لیے تمام متعلقہ اداروں کو دن رات ایک کرنا پڑے گا۔
تاریخ اشاعت 5 مئی 2023