رائے سنگھ سوڈھو نامی وکیل پر الزام ہے کہ وہ کسی شیڈولڈ کاسٹ جج کے سامنے پیش ہونا پسند نہیں کرتے۔
یہ الزام ایک خط میں لگایا گیا ہے جو صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر کی تحصیل ننگرپارکر میں متعین سول جج کرم علی شاہ نے 16 مئی 2022 کو صوبے میں وکالت کے پیشے کی نگرانی کرنے والے ادارے، سندھ بار کونسل، کو لکھا ہے۔ اس میں انہوں نے شکایت کی ہے کہ رائے سنگھ سوڈھو شیڈولڈ کاسٹ جج کے سامنے پیش ہونے کے بجائے اپنے مقدمے دوسری عدالتوں میں منتقل کرا لیتے ہیں۔
عدالتی ریکارڈ ان کی شکایت کی توثیق کرتا ہے۔ اس کے مطابق 43 سالہ رائے سنگھ سوڈھو چھ ایسے مقدمات میں پیش ہونے سے انکار کر چکے ہیں جن کی شنوائی تحصیل چھاچھرو میں متعین شیڈولڈ کاسٹ برادری سے تعلق رکھنے والے سول جج آکاش میگھواڑ کر رہے تھے۔ اس انکار کی مبینہ وجہ یہ ہے کہ وہ خود کو اونچی ذات کا فرد خیال کرتے ہیں اور شیڈولڈ کاسٹ والوں کو نیچی ذات کے لوگ سمجھتے ہیں۔ مقامی وکلا کی رائے میں "ٹھاکر راجپوت ہونے کے ناطے" رائے سنگھ سوڈھو کے لیے ایک "میگھواڑ جج کو عدالت میں مائی لارڈ کہنا بہت مشکل ہے"۔
تاہم رائے سنگھ سوڈھو اس بات تردید کرتے ہیں کہ انہوں نے ذات پات کی بنیاد پر کسی جج کے سامنے پیش ہونے سے انکار کیا ہے۔ اس کے برعکس ان کا دعویٰ ہے کہ وہ کئی مقدمات میں آکاش میگھواڑ کی عدالت میں پیش ہو چکے ہیں اور ابھی بھی ان کے پندرہ کے قریب مقدمے ریجھو مل نامی سول جج کی عدالت میں زیرسماعت ہیں جن کا تعلق بھی میگھواڑ برادری سے ہے۔
وہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن تھرپارکر کے صدر رہ چکے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ کام کرنے والے متعدد وکلا میگھواڑ، بھیل اور کولہی نامی شیڈولڈ کاسٹ برادریوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے موجودہ صدر موہن لال ایڈووکیٹ بھی شامل ہیں جن کا تعلق میگھواڑ برادری سے ہے۔ رائے سنگھ سوڈھو کا دعویٰ ہے کہ موہن لال ایڈووکیٹ کو ووٹ دینے والوں میں وہ خود بھی شامل تھے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے خلاف سندھ بار کونسل کو بھیجے گئے خط کی اصل وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کی حمایت سے 14 مئی 2022 کو جج کرم علی شاہ کے "نامناسب رویے" کے خلاف ایک قرارداد پیش کی تھی جس میں سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے ان کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ان کے مطابق "جج صاحب نے اس قرارداد کے جواب میں کارروائی کرتے ہوئے میرے خلاف بے بنیاد الزامات عائد کیے ہیں"۔
ذات پات کی تقسیم
سندھ بار کونسل نے ابھی تک جج کرم علی شاہ کے خط پر کوئی کارروائی نہیں کی۔ اس کے وائس چیئرمین ذوالفقار علی جلبانی کہتے ہیں کہ وکلا کے خلاف دائر کی گئی شکایات کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کو بھیج دی جاتی ہیں جو فیصلہ کرتی ہے کہ ان پر کیا پیش قدمی کی جانی چاہیے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ "اگر اس کمیٹی نے رائے سنگھ سوڈھو کے خلاف کوئی کارروائی تجویز کی تو اس پر ضرور عمل کیا جائے گا"۔
اس دوران جج کرم علی شاہ کا خط سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکا ہے جس کے نتیجے میں شیڈولڈ کاسٹ برادریوں سے تعلق رکھنے والے وکلا نے رائے سنگھ سوڈھو کے مبینہ طرزِعمل پر احتجاج بھی کیا ہے۔ ان وکلا میں ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن تھرپارکر کے 27 سالہ رکن شنکر میگھواڑ بھی شامل تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ رائے سنگھ سوڈھو کا شیڈولڈ کاسٹ جج کے سامنے پیش ہونے سے انکار کوئی انوکھا واقعہ نہیں۔ بلکہ، ان کے بقول، وہ آئے روز دیکھتے ہیں کہ "کس طرح عدالتوں اور وکلا کی تنظیموں میں ذات پات کی بنیاد پر امتیاز برتا جاتا ہے"۔ اس روزمرہ کے تجربے کی بنیاد پر وہ کہتے ہیں کہ "اونچی ذات سے تعلق رکھنے والے وکلا خود کو شیڈولڈ کاسٹ وکلا اور ججوں سے برتر تصور کرتے ہیں"۔
وسند تھری، جو ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن تھرپارکر کے سابق صدر اور سندھ کے سماجی مسائل پر ایک روشن خیال نکتہ نظر رکھنے والی سیاسی جماعت عوامی تحریک کے رہنما ہیں، کہتے ہیں کہ ذات پات کی تقسیم کے ذمہ دار وہ قدیم مذہبی تصورات ہیں جنہیں وکلا سمیت ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ آج بھی درست سمجھتے ہیں۔ لیکن، ان کے مطابق، آئینِ پاکستان کی شق نمبر 25 کی رُو سے تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں۔ چنانچہ وہ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ذات پات کی بنیاد پر کس شہری کے ساتھ کوئی منفی امتیازی سلوک نہ ہو۔
وہ صبح کبھی تو آئے گی
پاکستان میں شیڈولڈ کاسٹ ہندوؤں کی کل تعداد 2017 کی مردم شماری کے مطابق آٹھ لاکھ 49 ہزار چھ سو 14 ہے (جبکہ ملک کی مجموعی ہندو آبادی 45 لاکھ کے لگ بھگ ہے)۔ ان کی بڑی تعداد تھرپارکر اور عمر کوٹ کے اضلاع میں رہتی ہے اور سماجی، معاشی اور تعلیمی اعتبار سے بہت پس ماندہ ہے۔
تاہم مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی جامشورو میں انجینئرنگ فیکلٹی کے ڈین کے طور پر کام کرنے والے ڈاکٹر خانجی ہریجن سمجھتے ہیں کہ شیڈولڈ کاسٹ ہندوؤں کے حالات میں بہتری آ رہی ہے جس کی بنا پر انہیں یقین ہے کہ ہندو آبادی میں پائی جانے والی ذات پات کی تقسیم ہمیشہ برقرار نہیں رہے گی۔ ان کا اپنا تعلق بھی شیڈولڈ کاسٹ برادری سے ہے اور وہ کہتے ہیں کہ "تعلیم نے شیڈولڈ کاسٹ ہندوؤں کو سماجی طور پر مضبوط بنا دیا ہے"۔ ان کے مطابق "اب ان برادریوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہر شعبے میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں جس سے نہ صرف سماجی سطح پر ان کے خلاف نفرت میں قدرے کمی آئی ہے بلکہ خود انہوں نے بھی امتیازی رویوں کا مقابلہ کرنا سیکھ لیا ہے"۔
لیکن تھرپارکر کی تحصیل اسلام کوٹ سے تعلق رکھنے والے 68 سالہ سونو کھنگرانی کا تجربہ اس سے قطعاً مختلف ہے۔
وہ تھردیپ مائیکرو فنانس فاؤنڈیشن نامی غیرسرکاری ادارے کے سربراہ ہیں۔ غربت، ذات پات، قحط سالی اور ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف ان کی جدوجہد کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے وفاقی حکومت نے 2010 میں انہیں صدارتی ایوارڈ بھی دیا تھا جو کسی شیڈولڈ کاسٹ ہندو کو ملنے والا اس طرح کا پہلا سرکاری اعزاز ہے۔
ان کے مطابق تھرپارکر اور اس کے نواحی اضلاع میں غریب اور ان پڑھ شیڈولڈ کاسٹ ہندوؤں کے خلاف منفی امتیازی سلوک روز کا معمول ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان برادریوں سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے، خوش حال اور اچھے عہدوں پر فائز لوگوں کو بھی ہر وقت اسی قسم کے سماجی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ اپنی زندگی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 1982 میں وہ سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام میں بطور لیکچرار کام کر رہے تھے جب ایک دن یونیورسٹی کے ڈائریکٹر فنانس نے کسی بات پر انہیں موچار (موچی کا بیٹا) کہتے ہوئے اپنے دفتر سے نکل جانے کو کہا۔ وہ کہتے ہیں کہ "میں اس بات پر اتنا دلبرداشتہ ہوا کہ میں نے سرکاری نوکری کو ہی خیرباد کہہ دیا"۔
اسی طرح جب 2008 اور 2012 کے درمیان انہیں ایک سرکاری ادارے، سندھ رورل سپورٹ آرگنائزیشن، کا چیف ایگزیکٹو بنایا گیا تو اس وقت بھی ان کے کئی ماتحت ان کی ذات کی وجہ سے ان کی بات ماننے سے انکار کر دیتے تھے۔ ان کے بقول جب وہ کسی نائب قاصد کی بازپرس کرتے تو وہ انہیں کہہ دیتا کہ "تم تو موچی کے بیٹے ہو تم ہمارا کیا بگاڑ لو گے"۔
اس تفریق کے اثرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ شیڈولڈ کاسٹ برادریوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا اپنی قابلیت منوانے کے لیے دوسروں سے کہیں زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے کیونکہ "انہیں اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے ہندوؤں جیسے تعلیمی اور معاشی مواقع نہیں ملتے"۔ حتیٰ کہ جب ان میں سے کوئی کسی فیصلہ ساز عہدے پر بھی پہنچ جاتا ہے "تو اعلیٰ ذات کے ہندو اسے دل سے قبول نہیں کرتے"۔
تاریخ اشاعت 15 جولائی 2022