حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے: کیا سرِعام پھانسیوں سے جنسی جرائم کم ہو جاتے ہیں؟

postImg

رضا گیلانی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے: کیا سرِعام پھانسیوں سے جنسی جرائم کم ہو جاتے ہیں؟

رضا گیلانی

loop

انگریزی میں پڑھیں

10 ستمبر 2020 کو لاہور سیالکوٹ موٹروے پر رات کے دو بجے ایک خاتون کے ساتھ اس کے بچوں کی آنکھوں کے سامنے ہونے والی جنسی زیادتی کے واقعے کے بعد معاشرے کے مختلف حصوں کی جانب سے شدید ردِ عمل سامنے آیا ہے۔ انسانی اور خواتین کے حقوق سے بالخصوص وابستہ لوگوں اور تنظیموں نے اس حوالے سے پچھلے کچھ دنوں میں ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج کئے جن کے دوران اس سوال نے بھی جنم لیا کہ اس جرم کے ذمہ دار افراد کو کس قسم کی سزا دی جائے۔

لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا کہنا ہے کہ عورتوں اور بچوں پر ہونے والے سنگین جنسی جرائم کی روک تھام کے لئے مجرموں کو سزائے موت دینا اور خصوصی طور پر سرِ عام پھانسی پر لٹکانا ہی بہترین طریقہ ہے۔ ٹوئیٹر اور فیس بک سمیت پاکستان میں سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز پر ہونے والی حالیہ اور موجودہ گفتگو کا مقبول ترین موضوع سرِ عام پھانسی ہی ہے۔

حکومتی نمائندوں نے بھی سرِ عام پھانسی کے لئے قانون سازی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وفاقی وزیر برائے آبی وسائل فیصل واوڈہ نے کہا کہ حکومت ایسے قوانین متعارف کروائے گی جن کے ذریعے سنگین جنسی جرائم میں ملوث لوگوں کو سزائے موت دی جا سکے گی۔ انھوں نے مزید کہا کہ معاشرے کا آزاد خیال طبقہ ہمیشہ ایسی واقعات کے بعد انسانی حقوق کا علم بلند کرتے ہوئے سزائے موت کی مخالفت کرتا ہےجس پر اس کو شرم آنی چاہیئے۔

اسی طرح وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان نے بھی ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ان کے نزدیک جنسی جرائم کی روک تھام کے لیے مجرمان کی آختہ کاری (castration) کا عمل بہت ضروری ہے تا کہ وہ ایسے جرم کرنے کے قابل ہی نہ رہیں۔ انھوں نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ جنسی جرائم کے خاتمے کے لئے ان کے مرتکب افراد کو چوک میں لٹکایا جائے۔

اس رپورٹ میں ہم ان دعووں کا جائزہ لیں گے اور اعداد و شمار کی مدد سے یہ تعین کریں گے کہ ان میں کتنی سچائی موجود ہے۔

دعویٰ نمبر1: سنگین جنسی جرائم کی روک تھام کا واحد موثر حل سزائے موت ہے

دسمبر 2014 میں حکومتِ پاکستان نے پھانسی پر لگائی گئی عارضی پابندی ختم کر دی۔ اس وقت سے اب تک تقریباً پانچ سو افراد کو پھانسی دی جا چکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پچھلے چھ سالوں میں ہر ہفتے تقریباً دو افراد تختۂ دار پر لٹکائے جا چکے ہیں۔


اسی طرح 2010 سے 2018 تک پاکستان میں تقریباً 2788 لوگوں کو موت کی سزا سنائی جا چکی ہے۔ یعنی اوسطاً ہر سال تین سو افراد کو مختلف جرائم کا ارتکاب کرنے پر سزائے موت سنائی گئی ہے۔

ان سالوں کے جرائم کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس عرصے میں جرائم کے واقعات میں کمی کی بجائے ایک واضح اضافہ ہوا۔ جہاں 2013 میں تقریباً پانچ لاکھ جرائم درج کئے گئے وہیں 2017 میں یہ تعداد ساڑھے چھ لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی۔

اگر بالخصوص خواتین اور بچوں پر ہونے والی جنسی جرائم کے اعداد و شمار دیکھے جائیں تو صورتحال مزید سنگین نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر جنوری 2018 میں قصور میں زینب نامی آٹھ سالہ بچی کے ساتھ جنسی زیادتی اور اس کا قتل ہونے کے بعد بھی سزائے موت اور سرِ عام پھانسی کے مطالبات سامنے آئے اور مجرم عمران علی کو اکتوبر 2018 میں پھانسی بھی دے دی گئی۔ تاہم پنجاب میں 2019 میں بچوں پر ہونے والے جنسی جرائم میں معمولی سی کمی آنے کے باوجود اس سال صوبے میں روزانہ کی بنیاد پر تقریباً سات بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ سال 2020 کے پہلے چھ ماہ میں پاکستان میں ہونے والے 1489 ایسے جرائم میں سے 57 فی صد واقعات پنجاب میں ہی ہوئے۔

اسی طرح 2018 کی نسبت 2019 میں عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں بھی تقریباً 200 فی صد اضافہ دیکھا گیا۔ جہاں 2018 میں عورتوں پر جنسی تشدد کے 1214 واقعات درج ہوئے وہاں 2019 میں یہ تعداد 3880 سے تجاوز کر گئی۔

دعویٰ نمبر 2: ضیا الحق کے دور میں سرِ عام پھانسیوں کے بعد جرائم کی شرح میں واضح کمی آئی

حال ہی میں اس خیال کا اظہار ہمارے یہاں تواتر سے ہوا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں سرِ عام دی جانے والے سزائیں پاکستان میں جرائم کی تعداد میں خاطر خواہ کمی کا باعث بنی تھیں۔ ضیاء الحق کے دور میں نہ صرف پھانسی بلکہ کوڑے لگانے کی سزائیں بھی عوامی مقامات پر دی جاتی تھیں اور اکثر اوقات تماشائیوں کی تعداد پچاس ہزار سے بھی زیادہ ہوا کرتی تھی۔

اس حوالے سے سب سے مشہور واقعہ 22 مارچ  1978 میں پیش آنے والا پپو ریپ اور قتل کیس ہے جس میں اعجاز حسین عرف پپو نامی بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کر کے اور اسے قتل کر کے اس کی لاش جوہڑ میں پھینکنے والے مجرمان کو لاہور کے شادمان چوک پر سرِ عام پھانسی دی گئی ۔ ان کی لاشیں غروبِ آفتاب تک اسی مقام پر لٹکائی گئیں۔

یہ سلسلہ اگلے دس سال تک جاری رہا۔ حتیٰ کہ 1988 – جو جنرل ضیاء الحق کی حکومت کا آخری سال تھا – میں بھی میانوالی میں تیس ہزار لوگوں کے سامنے دوست محمد نامی مجرم کو پھانسی دی گئی اور ساہیوال میں لالو نامی مجرم کو تیس ہزار سے زائد لوگوں کی موجودگی میں موت کے گھاٹ اتارا گیا۔

تاہم اس بات کا تعین کرنا کہ ان واقعات کے بعد آنے والے سالوں میں جرائم کے شرح کم ہوئی تھی تقریباً نا ممکن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس زمانے میں ہونے والے جرائم کے کوئی سرکاری اور غیر سرکاری اعداد و شمار موجود ہی نہیں ہیں۔ یعنی نہ ہی اس بات کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ سرِ عام سزاؤں کے بعد پاکستان میں جرائم کی شرح میں کمی آئی اور نہ ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ جرائم کی تعداد بڑھتی رہی۔ البتہ اعداد و شمار کی اس کمی کے باوجود اگر اس زمانے کے محض لاہور کے چند اخبارات ٹٹولے جائیں تو ان میں کم از کم گیارہ ایسے واقعات کی شہ سرخیاں موجود ہیں جن میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور تشدد کیا گیا۔

ضیاء الحق کے دور میں بالخصوص عورتوں کے ساتھ ہونے والے جنسی زیادتی کے واقعات بڑی تعداد میں درج ہی نہیں ہوئے جس کی کئی اہم وجوہات تھیں۔ ان میں سرِ فہرست ضیاء الحق کے نافذ کردہ حدود آرڈیننسز تھے جن کہ مطابق زنا بالجبر کے مقدمات میں حد کے نفاذ کے لئے چار مردوں کا عدالت میں پیش ہو کر گواہی دینا لازم بنا دیا گیا تھا۔ اکثر مقدمات میں نفاذِ حد کی یہ شرط پوری نہ ہونے کی وجہ سے متاثرہ خواتین پر زنا کے مقدمات چلائے گئے۔ اس وجہ سے عورتوں کے لئے جنسی زیادتی کے مقدمات کو تھانے میں جا کر درج کروانا مشکل ہو گیا تھا۔

اس صورتِ حال کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ 1979 میں پاکستان کی جیلوں میں ستر خواتین قید تھیں۔ لیکن ضیاء حکومت کے اختتام تک یہ تعداد تقریباً چھ ہزار ہو چکی تھی۔ نیشنل کمیشن آن دا سٹیٹس آف ویمن، جو کہ ایک سرکاری ادارہ ہے، کی 2003 میں شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق ان خواتین قیدیوں میں سے 80 فی صد اس لئے جیل میں تھیں کیونکہ ان پرزنا بالجبر کے ثبوت پیش نہ کرنے کی بنیاد پر زنا کاری کا مقدمہ درج کر لیا گیا تھا۔

اس ضمن میں صفیہ بی بی کا کیس بہت اہم ہے۔ وہ ایک نابینا خاتون تھیں جن کو ایک سے زائد افراد نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ چونکہ قانون کے مطابق ان کا عدالت میں ان مجرمان کی نشاندہی کرنا لازم تھا اور ان کے لئے نابینا ہونے کے باعث یہ کرنا نا ممکن تھا، عدالت نے ان کا کیس خارج کرتے ہوئے الٹا ان پر زنا بالرضا کا مقدمہ چلایا اور ان کو سرِ عام کوڑوں کی سزا سنائی۔

اسی طرح جہاں مینہ نامی ایک تیرہ سالہ یتیم لڑکی کو مبینہ طور پر اس کے چچا اور ان کے بیٹوں نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ جب وہ گواہوں کی عدم موجودگی کے باعث یہ بات ثابت کرنے میں ناکام ہوئیں تو ان کے حمل کو بنیاد بنا کر ان پر زنا کاری کا مقدمہ بنایا گیا اور انھیں سو کوڑوں کی سزا دی گئی۔

یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ کیا سرِعام پھانسیاں دینا پاکستانی قانون کے مطابق ہے یا نہیں؟

1994 میں پاکستان سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ سنگین ترین جرائم میں بھی سرِ عام پھانسیاں دینا بنیادی انسانی تقدس کے اصولوں کے منافی ہے اور آئین میں موجود مروجہ اصولوں کی بھی نفی ہے۔ یوں جنل ضیاء الحق کے دور میں شروع ہونے والا سرِ عام پھانسیوں کا سلسلہ اپنے اختتام کو پہنچا۔

سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ 2019 میں اس وقت برقرار رکھا گیا گیا جب جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف پر غداری کے مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے اسپیشل کورٹ نے انھیں موت کی سزا سنائی اور ساتھ یہ بھی کہا کہ ’اگر وہ مردہ پائے جائیں، تو ان کی لاش کو ڈی چوک اسلام آباد تک گھسیٹ کر لایا جائے اور وہاں تین دن تک لٹکایا جائے‘۔  اس فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ نے ’غیر انسانی اور غیر آئینی‘ قرار دیتے ہوئے کالعدم کر دیا۔

اسی طرح زینب کے قاتل کو سرِعام پھانسی دینے کا مطالبہ جب لاہور ہائی کورٹ میں اٹھایا گیا تو ججوں نے ایک بار پھر اس مطالبے کو رد کر دیا۔

دعویٰ نمبر 3: سعودی عرب میں سرِ عام پھانسی دینے کے باعث جرائم میں کمی آئی ہے

سعودی عرب میں سرِ عام سزائیں دینے کا رواج بہت پرانا ہے۔ جمعے کے دن صبح نو بجے مختلف جرائم میں ملوث مجرمان کو سرِ عام پھانسیاں دینا وہاں ایک مروجہ عمل ہے۔ بچوں کے ساتھ زیادتی کی صورت میں یہ سزا مزید سنگین بنا دی جاتی ہے اور مجرم کے سر کو تن سے جدا کر کے اس کی لاش کو تین دن کے لئے ٹانگ دیا جاتا ہے۔

موٹروے ریپ کیس کے بعد سرِ عام پھانسی کی سزا کا مطالبہ کرنے والوں کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ چونکہ سعودی عرب نے ان سرِ عام سزاؤں کے ذریعے سنگین جرائم پر کافی حد تک قابو پا لیا ہے، لہٰذا پاکستان کو بھی وہاں سے سبق لے کر اسی طریقے سے جرائم کی روک تھام کرنی چاہیئے۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ سرِ عام پھانسیوں سے لوگوں کے ذہن میں موت کا خوف بیٹھ جاتا ہے اور یہ خوف انھیں جرائم کرنے سے روکتا ہے۔

مگر حقائق اس دعوے کے برعکس ہیں۔

گزشتہ چند سالوں میں سعودی عرب میں پھانسی کی سزاؤں میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ در حقیقت 2014 کی نسبت سعودی عرب میں 2019 میں سزاؤں میں تقریباً 104 فی صد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یورپین سعودی آرگنائزیشن فار ہیومن رائٹس، جو کہ یورپ میں قائم سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر کام کرے والا ادارہ ہے، کے مطابق 2018 میں سر قلم کرنے کے واقعات میں 2017 کی نسبت 70 فی صد اضافہ ہو چکا تھا۔ اگر ان سزاؤں کے ذریعے سعودی عرب مجرمان کو خوفزدہ کرنے میں کامیاب ہوتا تومنطقی طور پر ان سرِ عام سزاؤں میں کمی ہو جانی چاہیئے تھی۔ لیکن ان سزاؤں کی تعداد میں اضافے کا مطلب ہے کہ اس ملک میں ہر سال جرائم کی تعداد بھی بڑھی ہے۔ 

اس کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ تھومسن ریوٹرز فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق سعودی عرب ابھی بھی خواتین کے لئے دنیا کا پانچواں سب سے خطرناک ملک ہے۔ اس طرح عورتوں پر غیر جنسی تشدد کے اعتبار سے بھی سعودی عرب دنیا کا ساتواں بد ترین ملک ہے

دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی صورتحال مٖختلف نہیں ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ موت کی سزائیں دینے والے ممالک میں چین، ایران، سعودی عرب، عراق، پاکستان، مصر اور ویتنام سرِ فہرست ہیں۔ ان میں سے دو ممالک، ایران اور عراق، کا شمار آج بھی جرائم کی شرح کے حوالے سے دنیا کے سرِ فہرست پچاس ممالک میں ہوتا ہے۔

یہاں ہمارے ہمسائے ملک انڈیا کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔ وہاں 20 مارچ 2020 کو نربھیا ریپ کیس کے چار مجرمان کو پھانسی دی گئی۔ ان مجرمان نے نربھیا نامی 23 سالہ خاتون کو 2012 میں گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا اور ان پراتنا جسمانی تشدد کیا تھا کہ وہ اس کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسیں۔ لیکن ان پھانسیوں کے باوجود انڈیا میں جنسی جرائم میں کسی بھی قسم کی واضح کمی دیکھنے میں نہیں آئی اور آج بھی انڈیا کو عورتوں کے لئے تمام جنسی اور غیر جنسی جرائم کے اعتبار سے دنیا کا سب سے خطرناک ملک تصور کیا جاتا ہے۔ 

دعویٰ نمبر 4: جرم کی سزا اس کی سنگینی کے مطابق ہونی چاہیے۔ جو ریپ کرے اسے صرف پھانسی ہی ملنی چاہیے

پاکستان میں عدالتی نظام کی صحت اور اس میں موجود بنیادی سقم اس بات کے غماز ہیں کہ یہاں تمام مقدمات میں انصاف کے تمام تقاضوں کا پورا ہونا تقریباً نا ممکن ہے۔ اس لئے یہاں سنگین سزائیں دیتے ہوئے ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کیا وہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتی ہیں۔ انٹرنیشنل کرائسس گروپ، جو کہ بیلجیئم میں قائم انسانی حقوق پر تحقیق کرنے والا ادارہ ہے، کے مطابق پاکستانی عدالتی نظام میں صرف پانچ سے دس فی صد مقدمات میں ہی جرم اور سزا کا تعین ہو پاتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں خصوصاً عورتوں پر ہونے والے جرائم کے مقدمات میں تفتیش کا نظام اتنا فرسودہ ہے کہ تفتیش کرنے والے اہلکاروں کے پاس مناسب تربیت ہی نہیں ہوتی۔ قانونی چارہ جوئی کے طریقۂ کار غیر موثر ہیں اور عدالتی عمل میں غیر ضروری اور غیر معمولی تاخیر انصاف کے بنیادی اصولوں کو ہی پامال کر دیتی ہے۔

پاکستان میں سزائے موت کا مجرم پھانسی سے قبل اوسطاً گیارہ سال جیل میں گزارتا ہے جسے سپریم کورٹ میں اپنی اپیل کی پہلی شنوائی کے لئے تقریباً دس سال کا انتظار کرنا پڑتا ہے

اکثر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ملزمان کو فیصلوں کے انتظار میں کئی سال جیل میں گزارنا پڑتے ہیں۔ کئی مقدمات میں یہ بھی ہو چکا ہے کہ کچھ افراد کو پھانسی ہو جانے کے بعد عدالتوں نے انھیں بے قصور قرار دیا ہے۔

ایسے ہی ایک مقدمے میں مظہرحسین  نامی انیس سالہ نوجوان کو 1997 میں اسلام آباد میں ایک شخص کا قتل کرنے کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی۔  تاہم بعد میں سپریم کورٹ نے ثبوت کی عدم دستیابی کے باعث انھیں باعزت بری کر دیا۔ لیکن جب وہ رہا ہوئے تو وہ تقریباً انیس سال کا عرصہ جیل میں گزار چکے تھے۔
اسی طرح مئی 2005 میں دو بھائیوں، غلام قادر اور غلام سرور، کو قتل کرنے کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی۔ تقریباً دس سال تک وہ دونوں پاکستانی عدالتی نظام میں ایک جگہ سے دوسری جگہ دھکے کھاتے رہے اور اپنی بے گناہی کا اظہار کرتے رہے۔ آخر کار 6 اکتوبر 2016 کو سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا کہ ان کے خلاف اتنے ثبوت نہیں ہیں کہ ان پر عائد کردہ جرم ثابت ہو سکے۔ لہٰذا عدالت نے انھیں بری کرنے کا حکم دے دیا۔ مگر اس واقعے سے ایک سال قبل ہی 13 اکتوبر 2015 کو انھیں پھانسی دی جا چکی تھی۔

اسلام آباد میں قائم قانونی ادارے فاؤنڈیشن آف فنڈامینٹل رائٹس اوربرطانیہ میں قائم بین الاقوامی وکلاء کے ادارے ریپریو(Reprieve) مل کر ایک رپورٹ میں پاکستان میں سزائے موت کے بارے میں درج ذیل نتائج اخذ کر چکے ہیں:

  • سزائے موت کا مجرم اوسطاً پھانسی سے قبل گیارہ سال جیل میں گزارتا ہے۔
  • پھانسی پر عائد پابندی کے اٹھنے کے بعد کم ازکم تیرہ قیدی پھانسی سے قبل بیس سال جیل میں گزار چکے تھے جو کہ عمر قید کے برابر ہے۔
  • عام طور پر سزائے موت کے قیدی کو سپریم کورٹ میں اپنی اپیل کی پہلی شنوائی کے لئے تقریباً دس سال کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
  • 78 فیصد مقدمات میں سپریم کورٹ سزائے موت کو کالعدم قرار دے دیتی ہے۔

یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 22 ستمبر 2020  کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔

تاریخ اشاعت 1 جون 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

رضا گیلانی نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے سیاسیات میں بی اے آنرز کیا ہے۔ وہ نظم و نسق، ادارہ جاتی بدعنوانی، کارکنوں کے حقوق اور مالیاتی انتظام کے امور پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.