خیبرپختونخوا میں اینٹوں کے بھٹوں کی زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقلی کا منصوبہ پانچ سال میں بھی اہداف حاصل نہ کر سکا

postImg

ذیشان اعظم کاکاخیل

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

خیبرپختونخوا میں اینٹوں کے بھٹوں کی زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقلی کا منصوبہ پانچ سال میں بھی اہداف حاصل نہ کر سکا

ذیشان اعظم کاکاخیل

loop

انگریزی میں پڑھیں

خیبرپختونخوا میں قائم اینٹوں کے نصف سے زیادہ بھٹے غیر قانونی طور پر چل رہے ہیں۔ ایسے بیشتر بھٹے پشاور، نوشہرہ ، ڈی آئی خان، ٹانک اور لکی مروت کے اضلاع میں قائم ہیں۔ یہ بھٹے صوبائی حکومت کے کسی ادارے کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہیں اور ان سے پیدا ہونے آلودگی سے لوگ جلد، سینے، گلے اور معدے کے امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔

محکمۂ ماحولیات کے ایک اہلکار کے مطابق خیبرپختونخوا میں ایسے تقریباً  1200 غیر رجسڑڈ بھٹے ہیں تاہم ان کا کوئی باقاعدہ ریکارڈ محکمہ انڈسٹریز، سوشل ویلفئیر، محکمۂ ماحولیات یا کسی بھی دوسرے ادارے کے پاس موجود ہیں۔

ان میں سب سے زیادہ تقریباً  450 بھٹے نوشہرہ اور پشاور میں ہیں، بنوں، ڈی آئی خان اور لکی مروت میں ان کی تعداد تقریباً  250 تک ہے، اسی طرح کوہاٹ، صوابی، چارسدہ اور صوبے کے دوسرے مضافاتی علاقوں میں بھی ایسے بھٹے دیکھے جا سکتے ہیں۔

ان بھٹوں سے خارج ہونے والے کاربن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر مادے آلودگی کا باعث ہیں۔ ان مادوں کے اخراج کو کنٹرول کرنے کے لیے یکم جون 2019 میں زگ زیگ ٹیکنالوجی متعارف کرانے کا منصوبہ شروع کیا گیا، لیکن پانچ سال گزرنے کے بعد بھی یہ منصوبہ اپنے مقررہ اہداف حاصل نہیں کر سکا۔

اس دو سالہ منصوبے کے تحت خیبر پختونخوا کی اینٹ کی بھٹیوں میں زگ زیگ ٹیکنالوجی لگا کر آلودگی کنٹرول کرنے اور ان غیر رجسٹرڈ بھٹیوں کو رجسٹرڈ کرانے کیلئے 2019 میں 11 ملین روپے کی لاگت سے زگ زیگ ٹیکنالوجی متعارف کرائی گئی۔

اس منصوبے کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے حکومت نے اسے پانچ سال تک توسیع دی اور اس کی لاگت بڑھا کر 52 ملین روپے کر دی۔ ابتدائی طور پر دو سالہ منصوبے کے دوران صوبے کے 10 اضلاع کی ایک ایک بھٹہ خشت فیکٹری کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کرانا تھا تاہم پانچ سال گزر جانے اور منصوبے کیلئے مختص 53 ملین روپے میں سے 13 ملین روپے خرچ ہونے کے بعد بھی مقررہ اینٹ کی بھٹیوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے کا ہدف حاصل نہیں ہوسکا ہے۔

اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں دس اضلاع کی اینٹ کی بھٹیوں کو زگ زیگ پر منتقل کیا جانا تھا، ان اضلاع میں نوشہرہ، مردان، صوابی، ہری پور، بنوں، لکی مروت، ڈی آئی خان، ٹانک، ملاکنڈ اور مردان شامل تھے لیکن لاکھوں روپے خرچ ہونے کے بعد بھی اب تک صرف ایک بھٹہ خشت کو ہی اس ٹیکنالوجی پر منتقل کیا جاسکا ہے۔

محکمہ ماحولیات کے ذرائع کے مطابق، منصوبے کے مقاصد حاصل نہ ہونے سے جہاں لاکھوں روپے ضائع ہوگئے تو وہیں آلودگی کنٹرول کرنا بھی خواب بن گیا ہے۔ جس مقصد کیلئے زگ زیگ ٹیکنالوجی کو متعارف کرایا گیا تھا اس کے وہ مقاصد سالوں بعد بھی حاصل نہیں ہوسکے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اینٹ کی بھٹیوں سے خارچ ہونے والی آلودگی کو کنٹرول کرنے کا اب حکومت کے پاس کوئی مناسب بندوبست موجود نہیں ہے۔

صحت کے ماہرین کے مطابق اینٹ کی بھٹوں سے خارچ ہونے والی آلودگی دوسرے لوگوں سے زیادہ مقامی لوگوں کیلئے خطرناک ہے کیونکہ ان کا جلد، سانس، معدے، گلے یا پھیپڑوں کی بیماری میں متاثر ہونے کے امکانات کافی زیادہ ہوتے ہیں۔

پشاور کے مضافاتی علاقے متنی، بازید خیل، پھندو اور نوشہرہ کے علاقے پبّی، تارو جبہ، چراٹ اور دیگر علاقوں کے مقامی رہائشی ان بھٹیوں سے خارچ ہونے والی آلودگی کے باعث مختلف امراض کا شکار ہیں۔

خیبرپختونخوا کے محکمۂ ماحولیات کے مطابق صوبے کی بھٹہ خشت فیکٹریوں کو جدید ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے والے دو سالوں کے منصوبے کو مزید تین سال (کل پانچ سال) تک توسیع تو دی گئی، لیکن متعلقہ محکمے کی عدم دلچسپی کہیے یا درکار سٹاف کی کمی، یہ منصوبہ مقررہ اہداف فنڈز خرچ کرانے کے باوجود بھی حاصل نہیں کرسکا۔ ان کا خیال ہے کہ زگ زیگ ٹیکنالوجی اب تک نافذ العمل نہ ہونے میں جہاں محکمہ کی عدم دلچسپی شامل ہے تو وہی اینٹ بھٹیوں کے مالکان کا عدم تعاون بھی شامل ہے، اگر حکومت اور محکمہ اس ٹیکنالوجی کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے سخت کارروائی کریں تو اس ٹیکنالوجی کو متعارف کروانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

محکمۂ ماحولیات کی دستاویزات کے مطابق زگ زیگ ٹیکنالوجی متعارف کروانے سے ان فیکٹریوں میں کوئلے کے بطور ایندھن استعمال میں 40 فیصد کمی ہو گی، جس سے گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج بھی تقریباً 50 فیصد تک کم ہو جائے گا۔ اس سے اینٹ مالکان کے نہ صرف خام مال کے اخراجات کم ہوں گے بلکہ ان کی پیدوار بھی بڑھ جائے گی، کیونکہ زگ زیگ ٹیکنالوجی کی مدد سے 90 فیصد محفوظ طریقے سے اینٹ نکالنا ممکن ہے جو روایتی طریقہ کار سے 20 سے 30 فیصد بہتر ہے۔

غیر رجسٹرڈ اینٹ کی بھٹیوں سے متعلق زگ زیگ ٹیکنالوجی کے پراجیکٹ منیجر انجنئیر فیضان نے بتایا کہ سٹاف کی کمی کے ساتھ بھٹیوں کے مالکان کی جانب سے نئی ٹیکنالوجی نصب کرنے میں تعاون نہ ملنے کے باعث اس منصوبے کو کامیابی سے نہیں چلایا جاسکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کے لئے پہلے مرحلے میں 10 بھٹیوں کو جدید ٹیکنالوجی پر منتقل نہیں کرایا جا سکا ہے۔

ان کے مطابق، اب رجسٹریشن نہ کرانے والی یا زگ زیگ ٹیکنالوجی لگانے سے انکار کرنے والی بھٹیوں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے اور صوبے کے مختلف اضلاع میں 35 سے زائد اینٹ کی بھٹیوں کو ضلعی انتظامیہ کے تعاون کے ساتھ بند کیا گیا ہے۔

انجینئر فیضان کے مطابق خیبرپختونخوا انوارمینٹل پروٹیکشن ایکٹ 2014 کے سیکشن 17 کے تحت ان غیر رجسٹرڈ فیکٹریوں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے اور انہیں مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ زگ زیگ ٹیکنالوجی لگا کر نہ صرف اپنے پیداوار میں اضافہ کریں بلکہ ماحولیاتی آلودگی بھی کم کریں۔

"زگ زیگ ٹیکنالوجی کو سمجھنے کیلئے روایتی طریقے کے تحت کام کرنے والے مزدوروں کو جدید تربیت دی گئی اور اب تک 14 مزدوروں کو پنجاب میں ایک مہینے تک تربیت دی گئی، جس پر لاکھوں روپے خرچ کیے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

تھرپارکر میں کوئلہ بنانے کے کُپے اور اینٹوں کے غیرقانونی بھٹے صحت عامہ کے لیے سنگین خطرہ بن گئے

صوبے میں گاڑیوں سے خارچ ہونے والے دھویں کے بعد کارخانے اور اینٹ کی بھٹیاں فضائی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ اینٹ کی بھٹیوں سے خارج ہونے والی آلودگی سے متعلق چیئرمین شعبۂ ماحولیات، جامعہ پشاور پروفیسر ڈاکٹر نفیس کا کہنا تھا کہ 30 فیصد آلودگی کارخانوں اور اینٹ کی بھٹیوں سے خارج ہونے والے دھویں کے باعث ہے۔

زگ زیگ ٹیکنالوجی سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت پرانی ٹیکنالوجی ہے، جو پہلی بار 1868 میں سوئٹرز لینڈ میں متعارف ہوئی، اس کے بعد 1970 میں ہندوستان میں بھی ایسی ٹیکنالوجی متعارف کرائی گئی۔ پاکستان میں یہ ٹیکنالوجی سال 2019 میں آئی لیکن اب بھی اس کا صحیح معنوں میں استعمال نہیں کیا جارہا ہے کیونکہ حکومت اور بھٹیوں کے مالکان کے درمیان اس ٹیکنالوجی کو لگانے پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا ہے۔ ان کے مطابق ان بھٹیوں میں پرانے ٹائرز جلائے جاتے ہیں، جن کا دھواں نہایت مضر ہے، جس کیلئے جو بھی جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جائے، وہ بے کار ہے۔

خیبرپختونخوا میں سرکاری سطح پر آلودگی کی جانچ کا کوئی مناسب بندوسبت نہیں، جبکہ طلبہ یا تحقیق کرنے والے افراد کے اکھٹے کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق پشاور کی ہوا میں پی پی ایم 02 اور پی پی ایم 05 پارٹیکولیٹ میٹر موجود ہے، جو انتہائی خطرناک بات ہے۔

ڈاکٹر نفیس کہتے ہیں کہ ایک اینٹ کی بھٹی کو زگ زیگ پر منتقل کرنے کیلئے بھٹہ مالک کو 50 لاکھ روپے درکار ہوتے ہے، ان کے خیال میں شاید اسی وجہ سے یہ منصوبہ ناکامی سے دوچار ہے۔

تاریخ اشاعت 25 اکتوبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

پشاور سے تعلق رکھنے والے ذیشان اعظم کاکاخیل 2015 سے صحافت کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔ ذیشان اعظم گورننس اور سماجی مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔

ہندؤں کا ہنگلاج ماتا مندر، مسلمانوں کا نانی مندر"

ای رکشے کیوں ضروری ہیں؟

thumb
سٹوری

نارنگ منڈی: نجی سکولوں کے طالب علموں کے نمبر زیادہ کیوں آتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز

لاہور میں کسان مظاہرین کی گرفتاریاں

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان: انس کے سکول کے کمپیوٹر کیسے چلے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنثار علی

خیبر پختونخوا، دعویٰ : تعلیمی ایمرجنسی، حقیقت: کتابوں کے لیے بھی پیسے نہیں

thumb
سٹوری

کوئٹہ شہر کی سڑکوں پر چوہے بلی کا کھیل کون کھیل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

شاہ زیب رضا
thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.