بلوچستان کے پشتون بیلٹ کا سیاسی منظر نامہ اچکزئی کو جے یو آئی سے "ایڈجسٹمنٹ" کیوں کرنا پڑی؟

postImg

حمید اللہ شیرانی

postImg

بلوچستان کے پشتون بیلٹ کا سیاسی منظر نامہ اچکزئی کو جے یو آئی سے "ایڈجسٹمنٹ" کیوں کرنا پڑی؟

حمید اللہ شیرانی

بلوچستان کا پشتون بیلٹ مخصوص سماجی ساخت کے باعث اپنا الگ ہی مزاج رکھتا ہے۔ خیبر پختونخوا سے متصل بلوچستان کا ضلع شیرانی، ژوب، قلعہ سیف اللہ، پشین، چمن، قلعہ عبداللہ، ہرنائی، زیارت، لورالائی، دکی، موسیٰ خیل اور ضلع کوئٹہ تک کا علاقہ پشتون بیلٹ کہلاتا ہے۔

الیکشن کمیشن کی نئی حلقہ بندی میں پشتون اکثریتی آبادی والے اضلاع کو بلوچ اکثریت کے اضلاع سے ملا دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں ضلع کوئٹہ کے سوا  پشتون بیلٹ میں چار قومی اور 12 صوبائی حلقے شامل ہیں۔

 ان میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے 251 شیرانی، ژوب اور قلعہ سیف اللہ، این اے 252 موسیٰ خیل، بارکھان، لورالائی، دکی، این اے 265 پشین اور این اے 266 قلعہ عبداللہ اور چمن شامل ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے پی بی ون سے  پی بی سیون اور پی بی 47 سے  پی بی 51 تک کے حلقے شامل ہیں۔

پشتون بیلٹ کے علاقوں میں طویل عرصے سے قبائلی خوانین کے علاوہ جمیعت علما اسلام (جے یو آئی)، قوم پرست جماعتوں یعنی عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی ( پی میپ) کا اثر و رسوخ چلا آ رہا ہے۔

لیکن ان انتخابات میں یہاں ایک نئی سیاسی جماعت کی انٹری سے منظرنامہ کچھ یوں تیدیل ہوا ہے کہ پی میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی کو جے یو آئی چیف مولانا فضل الرحمٰن سے 'سیٹ ایڈجسٹمنٹ' کرنا پڑ گئی ہے۔

یہ سیاسی جماعت محمود خان اچکزئی کے دیرینہ ساتھیوں پر مشتمل ہے جنہوں نے الگ ہو کر نئی جماعت بنا لی ہے۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی میں اندرونی اختلافات پر 2022ء میں محمودخان اچکزئی نے پارٹی سے کئی مرکزی و صوبائی عہدیداروں کو نکال دیا تھا۔ جس کے بعد برطرف شدہ عہدیداران نے ساتھیوں سمیت پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی بنالی تھی۔

اس پارٹی کی پہلی ہی کانگریس میں پی میپ کے سابق سینیٹر مرحوم عثمان کاکڑ کے صاحبزادے خوشحال خان کاکڑ کو پی نیپ کا چیئرمین اور مختیار خان یوسفزئی کو شریک چیئرمین چنا گیا تھا۔
اب اس پارٹی نے پشتون بیلٹ کی کئی نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کر دیے ہیں۔

 پشتون بیلٹ میں شمال سے پہلا قومی حلقہ این اے 251 شیرانی کم ژوب کم قلعہ سیف اللہ تین اضلاع پر مشتمل ہے۔

پچھلی بار اس نشست پر جے یو آئی کے مولانا عبدالواسع منتخب ہوئے تھے۔اب اس حلقے میں پی میپ کے نواب ایاز خان جوگیزئی، پی نیپ کے خوشحال خان کاکڑ، پیپلز پارٹی کے عبدالرحمان مردان زئی اور نوابزادہ امین جوگیزئی بطور آزاد نمایاں امیدوار ہیں۔

نواب ایاز خان پشتونخوا میپ کے سیکرٹری جنرل اور بلوچستان میں پشتون قومی جرگہ کے کنوینر ہیں جو اپنے ووٹ بینک کی بنیاد پر قومی و صوبائی اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں۔

لیکن اس علاقے میں کاکڑ اکثریتی قبیلہ ہے جو مرحوم سینیٹر عثمان خان کے صاحبزادے اور پی نیپ کے چیئرمین خوشحال خان کاکڑ کو سپورٹ کرتا نظر آتا ہے۔

نوجوان صحافی گلزادہ شاکر بتاتے ہیں کہ پی میپ میں اختلاف اور پی نیپ کے وجود میں آنے کے بعد پہلی بار پرانے ساتھی اور قوم پرست رہنما آمنے سامنے ہیں۔ اس نشست پر یہی امیدوار فرنٹ رنر ہیں اور دونوں میں زبردست مقابلہ ہونے جا رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پی میپ اور پی نیپ کے درمیان محاذ آرائی کے نتیجے میں پی نیپ کے چیئرمین خوشحال خان کاکڑ این اے 265 سے بھی امیدوار ہیں جہاں پی میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے۔ لیکن بعد ازاں اچکزئی اس نشست سے جے یو آئی کے چیف مولانا فضل الرحمٰن کے حق میں دستبردار ہو گئے۔

این اے 252 موسیٰ خیل کم بارکھان کم لورالائی کم دکی میں چار اضلاع آتے ہیں جہاں روایتی حریفوں یعقوب خان ناصر اور اسرار خان ترین کے درمیان مقابلہ ہے۔ دونوں اس نشست سے رکن اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں تاہم پچھلی بار اسرار ترین بی اے پی کے ٹکٹ پر جیت گئے تھے۔

 سردار یعقوب ناصر ن لیگ اور سردار اسرار ترین اس بار پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں۔ ان کے علاوہ سردار بابر موسیٰ خیل بھی میدان میں ہیں۔

این اے 253 زیارت کم ہرنائی کم سبی کم کوہلو کم ڈیرہ بگٹی پانچ اضلاع پر مشتمل بلوچ اکثریتی آبادی کا حلقہ ہے۔ گزشتہ عام انتخابات میں یہاں سے جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ شاہزین بگٹی منتخب ہوئے تھے۔

اب کی بار اس نشست کے لیے شاہزین خان بگٹی، صدام خان ترین اور ن لیگ کے دوستین ڈومکی امیدوار ہیں جن میں سے دو کا تعلق بلوچ قبائل اور ایک کا پشتون قبیلے سے ہے۔ اس حلقے میں اچھامقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔

این اے 265 پشین پر جے یو آئی چیف مولانا فضل الرحمان، پی نیپ کے چئیرمین خوشحال کاکڑ اور پیپلز پارٹی کے خان محمد ترین نمایاں امیدوار ہیں جبکہ یہاں سے محمود خان اچکزئی دستبردار ہو چکے ہیں۔

عصمت اللہ حنیفی اس علاقے کی ساست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس نشست پر مولانا فضل الرحمان مضبوط امیدوار ہیں کیونکہ محمود خان اچکزئی ان کے حق میں دستبردار ہو چکے ہیں۔ تاہم ان کا مقابلہ پی نیپ کے چئیرمین خوشحال کاکڑ سے متوقع ہے۔

ضلعی کوئٹہ سے باہر پشتون بیلٹ کا آخری قومی حلقہ این اے 266 قلعہ عبداللہ کم چمن ہے جہاں پشتونخوا میپ کے چئیرمین محمود خان اچکزئی، جے یو آئی کے مولوی صلاح الدین ایوبی اور پیپلز پارٹی کے نذر محد کاکڑ امیدوار ہیں۔

صحافی احمد ظاہر بتاتے ہیں کہ یہ اچکزئی قبیلے کا اکثریتی علاقہ ہے اور سربراہ پی میپ محمود خان اچکزئی اس آبائی نشست سے منتخب ہوتے آئے ہیں۔ لیکن 2018ء کے انتخابات میں وہ جے یو آئی کے صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ اب کی بار محمود خان محفوظ کھیلنا چاہتے تھے اس لیے وہ این اے 265 سے اس خواہش پر 'ایڈجسمنٹ کے تحت' مولانا فضل الرحمٰن کے حق میں دستبردار ہوئے تھے کہ مولانا، ان کے مقابلے میں این اے 266 سے مولوی صلاح الدین ایوبی کو دستبردار کرا دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ جے یو آئی نے این اے 266 سے اپنا امیدوار واپس نہیں لیا تاہم این اے 263 کوئٹہ سے اپنے میدوار مفتی روزی خان کو محمود خان کے حق میں دستبردار کرا دیا ہے۔ محمود خان اچکزئی این اے 263 کوئٹہ سے انتخاب لڑ رہے ہیں جہاں پی نیپ کے صوبائی صدر نصراللہ خان زیرے ان کے خلاف میدان میں اتر چکے ہیں۔

زیرے کوئٹہ کی صوبائی نشست پی بی 45 پر محمود خان کے کزن اور پی میپ کے امیدوار مجید خان اچکزئی کا بھی مقابلہ کر رہے ہیں۔

 نصراللہ زیرے پچھلے دونوں انتخابات میں اس حلقے سے پشتونخوامیپ کے ٹکٹ پر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور اس مرتبہ بھی مضبوط امیدواروں میں سے ایک ہیں۔

پی بی ون شیرانی کم ژوب پشتون بیلٹ کا بھی پہلا صوبائی حلقہ ہے جہاں دیگر امیدواروں کے علاوہ جمعت علما اسلام ف کے حاجی نواز خان کاکڑ اور سابق رکن اسمبلی مولانا محمد خان شیرانی کے صاحبزادے مولوی احمد میدان میں اترے ہیں۔

نوجوان صحافی گلزادہ شاکر کے مطابق اس حلقے میں کاکڑ اور شیرانی قبیلے کے لوگوں کی اکثریت ہے۔ اس لیے مقابلہ بھی انہیں قبائل کی سرکردہ شخصیات میں ہوتا ہے۔

پی بی ٹو ژوب پر آزاد امیدوار سابق وزیر مٹھاخان کاکڑ، ن لیگ کے صوبائی صدر شیخ جعفر خان مندوخیل اور جمیعت علما اسلام کے فضل قادر اہم امیدوار ہیں۔ اس نشست پر مٹھاخان کاکڑ اور ن لیگ کے صوبائی صدر کے درمیان کانٹے کا مقابلہ بتایا جا رہا ہے۔

پی بی تھری قلعہ سیف اللہ کے حلقے میں جعمیت علمائے اسلام ف کے ایک سابق رہنما مولانا نور اللہ اور موجودہ صوبائی امیر مولانا عبدالواسع کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔

جے یو آئی ف کے ٹکٹ پر مولانا نور اللہ 2018 میں انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے تاہم اختلافات کے بعد انہوں نے جمعیت سے علیحدگی اختیار کی اور اس مرتبہ مقامی آل پارٹیز سیاسی اتحاد کی حمایت سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

قلعہ سیف اللہ میں اثر و رسوخ رکھنے والے پشتونخوا نیپ کے چیئرمین خوشحال خان کاکڑ نے بھی مولانا نور اللہ کی حمایت کا اعلان کیا ہے جس سے ان کی پوزیشن مستحکم ہو گئی ہے تاہم قلعہ سیف اللہ جمعیت علمائے اسلام ف کے مضبوط حلقوں میں سے ایک ہے جہاں سے مولانا عبدالواسع گزشتہ انتخابات میں قومی اسمبلی نشست پر منتخب ہوئے تھے۔

بی پی فور موسیٰ خیل کم بارکھان سے مسلم لیگ ن کے عبدالرحمٰن کھیتران، نیشنل پارٹی کے عبد الکریم کھیتران اور جمیعت علما اسلام کے مولوی محمد سرور مضبوط امیدوار ہیں۔

 عبدالرحمن کھیتران یہاں کے سب سے زیادہ اثر رسوخ رکھنے والے سردار ہیں اور گزشتہ پانچ انتخابات میں وہ یا ان کی اہلیہ ہی کامیاب ہوتے آ رہے ہیں۔

پی بی فائیو ضلع لورالائی پر مشتمل ہے۔ یہاں سے 2018ء کے انتخابات میں بلوچستان عوامی پارٹی کے محمد خان طور اتمان خیل منتخب ہوئے تھےجو اس مرتبہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔

 اس نشست پر جمعیت علما اسلام سے مولانا نورالدین اور پی ٹی آئی کے حسن ناصر نمایاں امیدواروں میں شامل ہیں۔ ان تینوں میں سے کسی کی کامیابی کی پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔

حلقہ پی بی سکس  دکی پر ن لیگ کے سردار مسعود علی خان، آزاد امیدوار سردار انور ناصر، جمیعت علما اسلام کے امیدوار یحییٰ خان ناصر اور پشتونخوا میپ کے سردار شفیق ترین امیدوار ہیں۔

دکی سے صحافی اللہ نور ناصر بتاتے ہیں کہ اس علاقے میں ناصر اور ترین قبائل کی اکثریت ہے۔ ایک ایک قبیلے سے دو دو امیدوار ہیں جبکہ جے یو آئی کو اس علاقے میں مذہبی ووٹ کی سپورٹ حاصل ہے۔ تاہم یہ نشست کس کے حصے میں آئے گی کچھ کہنا قبل وقت ہوگا۔

حلقہ پی بی سیون زیارت کم ہرنائی پر مسلم لیگ ن کے نور محمد دومڑ اور جے یو آئی کے خلیل الرحمان دومڑ نمایاں امیدوار ہیں۔ دونوں امیدوار اس حلقے کی اکثریتی آبادی دومڑ قبائل میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں اس لیے یہاں زبردست مقابلہ ہوگا۔

پی بی 47 پشین ون میں آزاد امیدوار اسفندیار کاکڑ، جمیعت علما اسلام کے مولوی کمال الدین اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے امیدوار فرید پانیزئی اہم امیدوار سمجھے جا رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

قلعہ عبداللہ: "شناختی کارڈ بنوا لیا ہے شوہر نے اجازت دی تو ووٹ ڈالنے بھی جاؤں گی"

ضلع پشتین سے تعلق رکھنے وال عصمت اللہ حنیفی بتاتے ہیں کہ اس نشست پر ان تین امیدواروں میں زور دار مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔ تاہم اس حلقے میں کاکڑ قبیلہ زیادہ ہے اس لیے آزاد امیدوار اسفندیار کاکڑ کا پلہ بھاری نظر آتا ہے۔

پی بی 48 پشین ٹو میں پی میپ کے سردار امجد ترین، جمیت علما اسلام کے اصغر ترین اور پی نیپ کے امیدوار عیسیٰ روشان امیدوار ہیں تاہم فائنل ریس امجد ترین اور اصغر ترین کے درمیان ہو گی۔

حلقہ پی بی 49 پشین تھری میں پشتونخوا میپ کے لیاقت آغا اور جمعیت علما اسلام کے امیدوار سید ظفر آغا نمایاں امیدوار ہیں۔ عصمت اللہ کے مطابق اس نشست پر انہیں دونوں کے درمیان کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔

پی بی 50 قلعہ عبداللہ سے جے یو آئی کے محمد نواز کاکڑ، پی میپ کے میر وائس اچکزئی اور عوامی نیشنل پارٹی کے زمرک خان اچکزئی فرنٹ لائن رنر ہیں۔

ضلع چمن اور قلعہ عبداللہ کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والےاحمد ظاہر بتاتے ہیں کہ یہ نشست پچھلے الیکشن میں زمرک خان لے گئے تھے تاہم اس بار زبردست مقابلہ ہو گا۔

پی بی 51 چمن پر جمیعت علما اسلام کے حاجی غوث اللہ، پی میپ کے اباسین اچکزئی، اے این پی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی اور آزاد امیدوار عبدالخالق کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ یہاں سے پچھلی بار اصغر خان اچکزئی منتخب ہوئے تھے۔

صحافی احمد ظاہر کے مطابق اس حلقے میں پی میپ اور اے این پی کے امیدوار اچکزئی قبیلے سے ہیں۔قوم پرست ووٹر تقسیم ہو گا جس کا فائدہ جے یو آئی یا آزاد امیدوار کو ہو سکتا ہے۔
 
کوئٹہ کے شہری حلقوں کا سیاسی منظرنامہ باقی پشتون بیلٹ اور بلوچ علاقوں سے مکمل طور پر الگ ہوتا ہے۔ شہری حلقوں میں پارٹی ووٹ زیادہ ہوتا ہے اور امیدوار کو شخصیت کے ساتھ قبیلے کا ووٹ بھی پڑتا ہے۔

غیر ملکی صحافتی ادارے سے منسلک کوئٹہ کے نوجوان صحافی زین الدین بتاتے ہیں کہ ضلع کوئٹہ میں صوبائی و قومی حلقوں پر قوم پرست جماعتوں، تحریک انصاف اور جے یو آئی کے امیدوار نمایاں ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ کے پشتون آبادی والے علاقوں میں پی میپ اور پی نیپ کے درمیان تین حلقوں پر کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے جن میں پی بی 45 پر مجید خان اچکزئی اور نصراللہ خان زیرے کا ٹاکرا  ہے جبکہ این اے 263 پر محمود خان اور نصراللہ زیرے کامقابلہ ہوگا۔ زین کے بقول قومی نشست پر محمود اچکزئی کا پلہ بھاری ہے۔

تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کا ماننا ہے کہ بلوچستان میں پشتونوں کی سیاسی جماعت (پی میپ) میں تقسیم سے انتخابات میں دونوں گروپوں کو نقصان ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ محمود اچکزئی خان اچکزئی کو جمعیت علما اسلام سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنا پڑی ہے اور ممکن ہے کہ ن لیگ سے بھی مدد مانگنی پڑے۔

پشتونخوا میپ کے مرکزی جنرل سیکٹری عبدالرحیم زیارتوال نے پارٹی کی تقسیم یا اس کے اثرات پر لوک سجاگ کے سوالوں کا جواب تو نہیں دیا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت ووٹ لینے یا دینے کے لیے اپنی حکمت عملی اپنانے میں آزاد ہے اور کسی بھی پارٹی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ یا اتحاد کر سکتی ہے۔

 صحافی جلال نورزئی سمجھتے ہیں کہ پی نیپ یہ الیکشن شاید جیت نہ پائے مگر اس سے پشتونخوا میپ کو نقصان ضرور ہو گا۔ تاہم پی نیپ کے صوبائی صدر نصراللہ خان زیرے کا دعویٰ ہے کہ کوئٹہ، پشین، قلعہ عبداللہ، قلعہ سیف اللہ، لورلائی، ژوب، موسیٰ خیل اور زیارت سے ان کے تمام ٹکٹ ہولڈرز کامیاب ہوں گے۔

تاریخ اشاعت 20 جنوری 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

حمید اللہ شیرانی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ملٹی میڈیا صحافی ہیں۔ وہ مختلف ملکی و غیر ملکی اداروں کے ساتھ کام کرنے کے علاوہ صحافیوں کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی تنظیم “فریڈم نیٹ ورک” کے صوبائی کوآرڈینیٹر بھی ہیں۔

thumb
سٹوری

خیبر پختونخواہ میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.