محمد رشید اپنی گندم کی تباہ حال فصل پر ٹریکٹر چلا کر اسے تلف کر رہے ہیں۔ ساتھ میں انہیں یہ فکر بھی لاحق ہے کہ وہ اس فصل کے اخراجات کے لیے لیا 10 لاکھ روپے کا قرض کس طرح لوٹائیں گے؟
رشید پنجاب کے بالائی ضلع منڈی بہاؤالدین میں درمیانے درجے کے کاشت کار ہیں۔ وہ ٹھیکے پر زمین لے کر کاشتکاری کرتے ہیں اور ان کا زرعی رقبہ شہر سے 10 کلومیٹر دور سوہاوہ دلوانہ نامی قصبے میں ہے۔
ان کے بقول اس سال انھوں نے 12 ایکٹر زرعی زمین ٹھیکے پر لی ہے جس میں سے آٹھ ایکڑ پر گندم کاشت کی تھی جبکہ باقی رقبے پر مویشیوں کے لیے سبز چارہ اگایا ہوا تھا۔
"گندم کی فصل بالکل تیار تھی اور اپریل میں کٹائی ہونا تھی لیکن ژالہ باری نے پوری فصل اجاڑ دی۔ میں نے 65 ہزار روپے فی ایکڑ پر ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔ اپنے ایک عزیز سے گندم کی کاشت کے لیے 10 لاکھ روپے کاقرض بھی لیا تھا۔ اب نہ جانے کیسے میں ٹھیکے اور ادھار کی رقم ادا کروں گا"۔
20 اور 21 مارچ 2023ء کی رات منڈی بہاؤالدین کے کسانوں کے اچھی نہیں تھی۔
اس علاقے میں بارشیں تو ہوتی رہتی ہیں لیکن اس رات جو کچھ ہوا وہ محمد رشید کے بقول شاید اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔
اس رات تیز ہواؤں کے ساتھ موسلادھار بارش اور پھر شدید ژالہ باری ہوئی۔ جس نے کٹائی کے لیے تیار کھڑی گندم کی فصل کے ساتھ کسان کو بھی اجاڑ دیا۔
ژالہ باری کے بعد زمین پانچ سے چھ انچ "برف" کی تہہ سے ڈھک گئی۔ ایسا لگتا تھا جیسے یہاں برف باری ہوئی ہو۔
اولے گرنے سے ملکوال کا علاقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا جہاں 20 سے 30 کلومیٹر کے علاقے میں چنے، باجرے، چارے اور آلو کی فصلیں شدید متاثرہ ہوئیں۔
ماجد رفیق کا تعلق منڈی بہاوالدین سے 15کلومیٹر دور واسو گاؤں سے ہے۔ انہوں نے 17 ایکڑ رقبہ ٹھیکے پر لے رکھا ہے جس میں سے 12 ایکڑ پر گندم کاشت کی تھی۔
منڈی بہاؤالدین میں ہونے والی اس ژالہ باری نے پانچ ہزار آٹھ سو ایکڑ رقبے پر لگی گندم کی فصل کو شدید متاثر کیا ہے
ژالہ باری کے بعد ماجد کی فصل اگلے روز تک چھ انچ "برف" میں دبی رہی اور دھوپ پڑنے پر بھی اٹھ نہ سکی۔
"میں نے چار ایکڑ پر سبزیاں کاشت کی تھیں، بدقسمتی سے وہ بھی ساری خراب ہوگئی ہیں"۔
اب ماجد نے نقصان کو کم کرنے کے لیے مزدور لگا کر گندم کی فصل اور سبزیوں کی کھیت سے صفائی شروع کرا دی ہے تاکہ وہ جلداز جلد کوئی دوسری فصل کاشت کر سکیں۔
محمد رشید اور ماجد رفیق کے مقابلے میں سوہاوہ بولانی نامی قصبے سے تعلق رکھنے والے محمد جاوید ایک چھوٹے کاشت کار ہیں اور انھوں نے اپنے ملکیتی چار ایکٹر رقبے میں سے ایک ایکڑ پر گندم کی فصل کاشت کر رکھی تھی جس کا مقصد ان کے بقول سال بھر کے لیے خاندان کی آٹے کی ضرورت پوری کرنا تھا۔
"میں نے مہنگی کھاد، بیج اور کیڑے مار دواؤں پر ہزاروں روپے خرچ کیے تھے مگر اب کچھ بھی باقی نہیں بچا"۔
وہ اب فصل پر روٹر چلا کر اسے جوار کے لیے تیار کررہے ہیں۔
''میں نے جانوروں کے لیے تین ایکڑ پر چارہ اگایا تھا لیکن وہ بھی خراب ہوگیا۔ اب جانور بھوکے ہیں اور میری جیب خالی ہے"۔
کسان اتحاد کے ضلعی صدر نصر گوندل باکھوآنہ خود بھی زمیندار ہیں۔انہوں ںے سجاگ کو بتایا کہ اس مرتبہ بیشتر کسانوں ںے کھاد اور زرعی ادویات بلیک میں مہنگے داموں خریدی تھیں تاہم قدرتی آفت نے ان کا سب کچھ اجاڑ دیا ہے۔
ان کے مطابق بیشتر کسانوں کے پاس اگلی فصل کی تیاری کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ "حکومت کو چاہیے کہ جن لوگوں کا نقصان ہوا ہے ان کی کچھ نہ کچھ مدد ضرور کی جائے"۔
انھوں نے حکومت کو یہ مشورہ بھی دیا کہ وہ پہلے سے ہی گندم کاانتظام کرلے کیوں کہ اس مرتبہ اسے اپنے سرکاری اہداف کوپورا کرنے کے لیے کسان سے گندم نہیں ملے گی۔
اس سال گندم کی قومی پیداوار میں ایک لاکھ 74 ہزار من کمی واقع ہونے کا اندیشہ ہے
ڈسڑکٹ آفیسر زراعت محمد اقبال، جنہوں نے محکمے کے دیگر اہلکاروں کی مدد سے فصل کو پہنچنے والے نقصان کا جائزہ لیا ہے، وہ بھی تصدیق کرتے ہیں کہ ضلع منڈی بہاوالدین کے متعدد علاقوں میں گندم کو بری طرح نقصان پہنچا ہے۔
ان علاقوں میں سوہاوہ دلوآنہ، سوہاوہ بولانی، بھچر، واسو، چک نمبر5، چک نمبر14، چک نمبر15، عیدل اور کھٹیالہ سیداں شامل ہیں۔
زرعی آفیسر نے یہ تو نہیں بتایا کہ اس ژالہ باری سے کتنا نقصان ہوا ہے تاہم ان کے مطابق انھوں نے اس حوالے سے تیار کی جانے والی تفصیلی رپورٹ حکومت کو ارسال کردی ہے۔
فصلوں کے زیر کاشت رقبے اور پیداوار کا تخمینہ لگانے والے صوبائی ادارے کراپ رپورٹنگ سروس کی 25 مارچ کو جاری ہونے والے ایک رپورٹ کے مطابق منڈی بہاؤالدین میں ہونے والی اس ژالہ باری نے پانچ ہزار آٹھ سو ایکڑ رقبے پر لگی گندم کی فصل کو شدید متاثر کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
پنجاب اور سندھ میں کھاد کی قلت: کیا ملک میں گندم کا نیا بحران آنے والا ہے؟
کسانوں کا دعوی ہے کہ ان کے ضلع میں جہاں بھی ژالہ باری ہوئی ہے وہاں فصل مکمل طور پر خراب ہوگئی ہے۔
ضلع منڈی بہاؤالدین میں رواں ربیع سیزن میں تین لاکھ 30 ہزار ایکڑ رقبے پر گندم کی فصل کاشت ہوئی ہے جبکہ یہاں پچھلے تین سال کی اوسط فی ایکڑ پیداوار تقریباً 30 من ہے۔
اگر مقامی کسانوں کے گندم کی تباہی والے دعوے کو مدنظر رکھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس سال گندم کی قومی پیداوار میں ایک لاکھ 74 ہزار من (6 ہزار 9 سو 60 میٹرک ٹن) کمی واقع ہوگی۔
اس نقصان کا روپوں میں اندازہ لگایا جائے یہ 67 کروڑ 86 لاکھ روپے بنتے ہیں۔
تاریخ اشاعت 30 مارچ 2023