خفیہ سرکاری رپورٹ کے اہم انکشافات: ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم کی تعمیر میں نقائص اور تاخیر کے 'ذمہ دار لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے'۔

postImg

تیمور خان

postImg

خفیہ سرکاری رپورٹ کے اہم انکشافات: ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم کی تعمیر میں نقائص اور تاخیر کے 'ذمہ دار لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے'۔

تیمور خان

اکتوبر 1998 میں پاکستان کے خلاف کھیلے جانے والے ایک ٹیسٹ میچ کی پہلی اننگز کے دوسرے روز آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم کے کپتان مارک ٹیلر تین سو سے زیادہ رنز بنا چکے تھے۔ ان کے مداحوں کو امید تھی کہ اب وہ تین سو 76 رنز بنا کر ویسٹ انڈیز کے برائن لارا کا ایک اننگز میں سب سے بڑے انفرادی سکور کا ریکارڈ توڑ دیں گے۔ لیکن انہوں نے تین سو 34 رنز پر ہی اپنی اننگز ختم کر دی کیونکہ ان کے ہم وطن سر ڈان بریڈ مین نے 1930 میں ایک اننگز میں اتنے ہی رنز بنائے تھے اور مارک ٹیلر احتراماً ان سے آگے نہیں بڑھنا چاہتے تھے۔ 

جن لوگوں نے ٹیلی وژن پر یا گراؤنڈ میں انہیں یہ اننگز کھیلتے دیکھا ہے انہیں یاد ہے کہ انہوں نے یہ کارنامہ پشاور کے ارباب نیاز سٹیڈیم میں انجام دیا تھا جسے اس وقت ایک بین الاقوامی کرکٹ سنٹر کی حیثیت حاصل تھی۔ 1984 میں تعمیر کیے گئے اس سٹیڈیم میں آسٹریلیا کے خلاف کھیلے جانے والے اُس ٹیسٹ کے علاوہ پانچ مزید ٹیسٹ اور 17 ایک روزہ میچ بھی منعقد کیے گئے ہیں۔ 

تاہم 2006 میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان کھیلا گیا ایک روزہ میچ یہاں ہونے والا آخری بین الاقوامی مقابلہ ثابت ہوا کیونکہ اُسی سال ملک میں دہشت گردی کی ایک ایسی لہر اٹھی جس کے باعث غیرملکی ٹیمیں پاکستان آنے سے ہچکچانے لگیں۔ حتیٰ کہ مارچ 2009 کے اوائل میں مسلح دہشت گردوں نے لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملہ کر کے اس کے متعدد کھلاڑیوں کو زخمی کر دیا جس کے نتیجے میں اگلے کئی سال کسی غیر ملکی ٹیم نے پاکستان کا دورہ تک نہ کیا۔

اگرچہ پچھلے چند سالوں سے کئی ملکوں کے کھلاڑی اور ٹیمیں دوبارہ یہاں آنے لگے ہیں لیکن پشاور کو ابھی تک کسی بین الاقوامی میچ کی میزبانی کا موقع نہیں ملا۔ اس کی ایک وجہ اس کا پاک-افغان سرحد کے قریب ہونا ہے جس کے باعث یہاں دہشت گردی کا خطرہ ملک کے دوسرے حصوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ تاہم اس کی دوسری اہم وجہ ارباب نیاز سٹیڈیم میں بین الاقوامی معیار کی سہولتوں کی عدم موجودگی بھی رہی ہے۔ 

اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے اس سٹیڈیم کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا جس کے لیے 20 ستمبر 2017 کو ایک ارب 37 کروڑ 78 لاکھ روپے کی منظوری دی گئی۔ 4 اپریل 2018 کو اس منصوبے پر کام کے آغاز کا سرکاری حکم نامہ (ورک آرڈر) بھی جاری کر دیا گیا جس کے مطابق اسے جولائی 2020 میں مکمل ہونا تھا۔

لیکن دو سال کا اضافی عرصہ گزرنے کے باوجود اس کا تعمیراتی کام ابھی تک نامکمل پڑا ہوا ہے۔ 

تاخیر کا سبب: غفلت یا کوڈ؟

سٹیڈیم کی تعمیرِنو کا ٹھیکہ دو کمپنیوں، جی ایچ سی انٹرنیشنل (جسے پہلے غلام حبیب اینڈ کمپنی کہا جاتا تھا اور جس کا صدر دفتر پشاور میں ہے) اور ایم جی ایچ انجینئرنگ اینڈ کنٹرول کو دیا گیا (جس کا مرکزی دفتر لاہور میں ہے)۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق ان میں سے پہلی کمپنی کے ذمے تعمیراتی کام لگائے گئے جن کی کل مالیت ایک ارب 18 کروڑ 44 لاکھ روپے طے کی گئی اور انہیں مکمل کرنے کا عرصہ تین سال چار ماہ رکھا گیا۔ 

حکومت کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے مطابق اس کمپنی نے یہ کام 17 اکتوبر 2018 کو شروع کرنا تھے اور 16 جنوری 2021 کو تکمیل تک پہنچانا تھے۔ لیکن وہ انہیں وقت پر مکمل نہ کر سکی۔ نتیجتاً حکومت نے پہلے اسے دس ماہ کی اضافی مہلت دی اور پھر اس میں سات ماہ کا مزید اضافہ کر دیا۔ اس کے باوجود سٹیڈیم کی تعمیرات ابھی تک نامکمل ہیں۔ 

ایم جی ایچ کنٹرول اینڈ انجینئرنگ کمپنی کو ملنے والے کام کا تعلق بجلی کی پیداوار، ترسیل اور استعمال سے متعلق آلات اور مواصلاتی نظام کی تنصیب سے تھا۔ اس کام کی مالیت 53 کروڑ پانچ لاکھ روپے تھی اور اسے 31 جولائی 2021 کو شروع ہو کر 30 جون 2022 کو ختم ہونا تھا۔ لیکن سرکاری دستاویزات کے مطابق اس کا بہت بڑا حصہ ابھی تک نامکمل پڑا ہے۔

صوبائی محکمہ کھیل کے ڈائریکٹر جنرل خالد خان اور جی ایچ سی انٹرنیشنل کے پراجیکٹ منیجر نجیب الرحمان کا کہنا ہے کہ اس تاخیر کا سبب کسی کی غفلت یا نااہلی نہیں بلکہ  کووڈ۔19 وبا ہے۔ ان کے مطابق سٹیڈیم کی تعمیر مکمل کرنے کے لیے درکار بہت سا سامان دوسرے ملکوں سے منگوایا جانا تھا لیکن اس کی درآمد اور وصولی بروقت نہیں ہو سکی کیونکہ "دنیا بھر میں بہت سی صنعتیں اس وبا کی وجہ سے طویل عرصہ بند رہی ہیں"۔ 

اس تاخیر کی وجہ سے 31 مارچ 2021 کو صوبائی محکمہ ترقیات اور منصوبہ بندی کو سٹیڈیم کی تعمیر کی مجموعی لاگت میں 41 فیصد اضافہ کر کے اسے ایک ارب 94 کروڑ 61 لاکھ پچاس ہزار روپے کرنا پڑا۔

خامیاں اور نقائص

مارچ 2022 میں خیبرپختونخوا کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری سید شہاب علی شاہ نے محکمہ ترقیات اور منصوبہ بندی کے مانیٹرنگ یونٹ کو حکم دیا کہ وہ سٹیڈیم کی تعمیر کی جانچ پڑتال کر کے اس کے بارے میں انہیں ایک تفصیلی رپورٹ پیش کرے۔ اگرچہ مانیٹرنگ یونٹ نے ایک مہینے کے اندر اندر یہ رپورٹ انہیں جمع کرا دی تھی لیکن اسے ابھی تک منظرِعام پر نہیں لایا گیا۔

سرکاری ذرائع کے مطابق اسے خفیہ رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں سٹیڈیم کی تعمیرِنو کے حوالے سے متعدد انکشافات کیے گئے ہیں۔ ان میں سب سے اہم انکشاف یہ ہے کہ اس منصوبے پر کام کرنے کے لیے جن کمپنیوں اور جس کنسلٹنٹ، ایسوسی ایٹس اِن ڈویلپمنٹ پرائیویٹ لمیٹڈ،  کا انتخاب کیا گیا وہ اس کے لیے درکار معیار پر پورے ہی نہیں اترتے۔

رپورٹ کا کہنا ہے کہ ایسوسی ایٹس اِن ڈویلپمنٹ پرائیویٹ لمیٹڈ نے سٹیڈیم کا ڈیزائن بناتے وقت ایسے کئی عوامل کا خیال نہیں رکھا جو بین الاقوامی قواعدوضوابط کے تحت اس کا لازمی حصہ ہونے چاہئیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ سٹیڈیم میں بنائے جانے والے ہاسٹل کے ابتدائی ڈیزائن میں ہنگامی حالت میں باہر نکالنے کے لیے کوئی راستہ ہی نہیں رکھا گیا تھا۔ لیکن جب اس کی تعمیر کے دوران یہ بات سامنے آئی تو نہ صرف اس کے ڈیزائن میں تبدیلیاں کرنا پڑیں بلکہ اس کی تعمیر کے لیے درکار رقم میں بھی اضافہ ہو گیا۔ 

رپورٹ نے سٹیڈیم کے اندر بنائے گئے پویلین کے ڈیزائن میں بھی متعدد مسائل کی نشان دہی کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس میں نصب کی جانے والی کھڑکیاں اور دروازے غیر معیاری ہیں جنہیں تبدیل کرنے کی حکومتی ہدایات پر کوئی عمل درآمد نہیں کیا گیا جبکہ اس کی گراؤنڈ کے رخ بنی ہوئی شیشے کی دیوار کے سامنے ایسے ستون بنا دیے گئے ہیں جن کی وجہ سے اس کے اندر سے پورا گراؤنڈ نظر ہی نہیں آتا۔ اسی طرح، رپورٹ کے مطابق، سٹیڈیم میں بنائے جانے والے سوئمنگ پول میں اتنی تکنیکی خرابیاں ہیں کہ وہ سوئمنگ پول کے بجائے ایک چھ فٹ گہرا تالاب لگتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا: بہاولنگر میں میڈیکل کالج کی تعمیر آٹھ سال سے کیوں التوا کا شکار ہے؟

سٹیڈیم میں نصب کرنے کے لیے درکار ٹیلی ویژن، ایل ای ڈی سکرینیں، جنریٹر، کمیونیکیشن سسٹم، الارم اور فلڈ لائٹیں وغیرہ خریدتے وقت بھی محض ایک ہی کمپنی کی دی گئی معلومات پر انحصار کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مصنفین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ان سرکاری قواعدوضوابط کی خلاف ورزی ہے جن کے مطابق کسی حکومتی منصوبے کے لیے مطلوبہ سامان کی خریداری کرتے وقت کم از کم تین کمپنیوں سے اس کے معیار اور قیمت کے بارے میں معلومات لینا ضروری ہے۔ 

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس طرح کی واضح غلطیوں کے باوجود ٹھیکیدار کمپنیوں اور کنسلٹنٹ کو حکومت کی طرف سے کبھی نہیں پوچھا گیا کہ ان کے کام کا معیار اور اس کی رفتار غیر تسلی بخش کیوں ہے بلکہ، اس کے برعکس، کنسلٹنٹ کا معاوضہ ایک کروڑ 54 لاکھ 65 روپے سے بڑھا کر پانچ کروڑ 28 لاکھ 49 ہزار روپے کر دیا گیا۔ 

اس طرح کے انکشافات کی بنا پر ان مصنفین نے سفارش کی ہے کہ ایسوسی ایٹس اِن ڈویلپمنٹ پرائیویٹ لمیٹڈ کو ادا کیا جانے والا معاوضہ اس سے واپس لیا جائے اور کام کی تکمیل میں تاخیر کے ذمہ دار تمام لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔

تاریخ اشاعت 17 اگست 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

تیمور خان کا تعلق پشاور سے ہے وہ گزشتہ 9 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں وہ گورننس، صحت اور سیاست پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.