بلوچستان کے باغبان سیب کی کاشت ترک کر کے سبزیاں کیوں اگا رہے ہیں؟

postImg

عبدالرحمن خلجی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

بلوچستان کے باغبان سیب کی کاشت ترک کر کے سبزیاں کیوں اگا رہے ہیں؟

عبدالرحمن خلجی

loop

انگریزی میں پڑھیں

بلوچستان کے ضلع زیارت کی تحصیل سنجاوی جانے والوں کو قدرتی نظاروں کے ساتھ کئی طرح کے پھلوں کے باغات دیکھنے کا موقع بھی ملتا ہے۔ سنجاوی کی معیشت میں سیب کے باغات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں گاجا، تور کولو، شین کولو، قمرائی اور گولڈن کے علاوہ بھی سیب کی اقسام کاشت ہوتی ہیں۔ البتہ کچھ عرصے سے سیبوں کے باغبان مشکل میں ہیں۔

مقامی باغبان محمد ہاشم کے مطابق ان کے باغ میں ایک ایکڑ رقبے پر سیب کے درخت تھے۔ بدقسمتی سے تمام درخت خشک ہو گئے ہیں۔ اب وہ کم مدت میں تیار ہونے والی فصلیں کاشت کرنے پر مجبور ہیں۔

ایک اور کاشت کار ملک جمعہ خان دمڑ کا کہنا ہے کہ سنجاوی کے مکلور، ریگوڑہ، گیواڑی، نسک اور چلیز نامی علاقوں میں سیب کے تقریباً آدھے درخت اکھاڑ دیے گئے ہیں۔

"چند سال پہلے خشک سالی زرعی شعبے کی زبوں حالی کی بڑی وجہ تھی۔ اب بجلی کی 12 سے 15 گھنٹے طویل لوڈشیڈنگ ہونے لگی ہے۔

باغبانوں اور کاشت کاروں کا انحصار بجلی کے ٹیوب ویل پر زیادہ ہے کیونکہ شمسی ٹیوب ویل بیشتر کاشت کاروں کی قوت خرید سے باہر ہیں۔ علاوہ ازیں زیادہ استعمال ہونے والی کھاد ڈی اے پی کی بوری کی قیمت چند برس میں بہت بڑھ گئی ہے جبکہ مختلف اقسام کی دیگر کھاد کی قیمتوں میں بھی 60 فیصد کے قریب اضافہ ہوا ہے۔"

ان کا کہنا ہےکہ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے کاشت کاروں نے مہنگائی، بجلی کی لوڈشیڈنگ اور کھاد کی قیمتوں میں اضافے کے سبب سیب کے باغات ختم کر کے سبزیاں اگانا شروع کر دی ہیں تاکہ کم مدت میں فصل اگا کر روزی کما سکیں۔

حکومت کی عدم توجہی کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ زرعی اداروں کے اہلکار یہاں آتے ہیں، مسائل حل کرنے کا وعدہ کرتے ہیں اور غائب ہو جاتے ہیں۔

سنجاوی کے شہری علاقے میں باغبانی کرنے والے حسن شاہ سنجاوی کہتے ہیں کہ ان کا دو ایکڑ پر مشتمل سیب کا باغ چند سال پہلے خشک سالی سے تباہ ہو گیا۔ اب اس زمین پر مارکیٹ بنائی ہے جس سے کاشت کاری کی نسبت سے زیادہ منافع ہوتا ہے۔

"اگر پیداوار اچھی نہ ہو اور مارکیٹ میں ریٹ بھی اچھا نہ ملے تو کم رقبے والا زمین دار نقصان برداشت نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے کم مدت میں اگنے والی فصلیں مثلاً مٹر، ٹماٹر، آلو، دھنیا اور لہسن فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔"

ان کے باغ میں کام کرنے والے مزدور سمیع اللہ نے بتایا کہ باغ مالکان کو اگر فائدہ نہ ہو تو انھیں اپنی مزدوری مشکل سے ملتی ہے۔ ان کے مطابق "پنجاب اور سندھ سے آئے ہوئے مزدور کم اجرت پر کام کرتے ہیں جس کے باعث مقامی مزدوروں کی مانگ کم ہو گئی ہے۔"

 درخت بیمار بھی ہو رہے ہیں۔ مقامی کاشت کار راز محمد کاکڑ کہتے ہیں کہ ان کے علاقے میں سیب کے درختوں کی جڑیں خشک ہو جاتی ہیں۔ اس کے بعد اس زمین پر کوئی دوسرا پھل دار درخت اگانا مشکل ہوتا ہے۔

بلوچستان پاکستان میں سب سے زیادہ سیب پیدا کرنے والا صوبہ ہے۔ اس پھل کی مجموعی ملکی پیداوار میں صوبے کا حصہ 94 فیصد ہے۔ بلوچستان میں ضلع قلعہ سیف اللہ میں صوبے کے مجموعی سیب کا 55 فیصد پیدا ہوتا ہے۔پشین، ژوب، قلعہ عبداللہ اور زیارت بھی سیب کی پیداوار کے لیے مشہور ہیں۔

کاشت کاروں کے مطابق پچھلے چند برس میں سیب کے زیر کاشت رقبے میں بہت زیادہ کمی ہوئی ہے۔ بلوچستان کے محکمہ زراعت کی ایک رپورٹ بھی اس کی تصدیق کرتی ہے جس کے مطابق صوبے میں 2011ء سے 2021ء تک سیب کے باغات میں 30 فیصد تک کمی ہوئی ہے۔

2011ء میں صوبہ بلوچستان میں دو لاکھ 52 ہزار 501 ایکڑ رقبے پر سیب کے باغات تھے جو 2021ء تک کم ہو کر ایک لاکھ 77 ہزار 635 ایکڑ رہ گئے۔ نیز صوبے کے سب سے زیادہ سیب پیدا کرنے والے ضلع قلعہ سیف اللہ میں پچھلے 10 برسوں میں اس پھل کا زیر کاشت رقبہ 35 فیصد کم ہوا ہے۔

تاہم کسانوں کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار 2021ء میں آنے والے سیلاب سے پہلے کے ہیں، سیلاب سے کئی اضلاع میں سیبوں کے باغات کو بہت زیادہ نقصان پہنچا تھا جس سے زیرکاشت رقبہ مزید کم ہوا ہے۔

سیب کی طلب پوری کرنے کے لیے درآمدات کے اعداد بھی یہی بتاتے ہیں کہ زیر کاشت رقبے میں کمی ہونے کے ساتھ پاکستان کو اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے بیرون ملک سے زیادہ مقدار میں سیب منگوانے کی ضرورت پڑ رہی ہے۔

2011ء میں 41 کروڑ پانچ لاکھ روپے کے سیب ملک میں درآمد کیے گئے جبکہ 2020ء میں یہ رقم بڑھ کرچھ ارب 22 کروڑ ہو گئی۔ 2021ء میں چار ارب 88 کروڑ روپے کے سیب درآمد کرنا پڑے۔

زیارت میں زراعت سے وابستہ عبدالصبور نے بتایا کہ زمین داروں کو غیر معیاری زرعی ادویات اور ان کے استعمال کے بارے میں آگاہی کی کمی ہے۔ ان کا بلا ضرورت اور بے وقت استعمال نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ ڈی اے پی کھاد کی قیمت زیادہ ہے اس لیے زمین دار سستی اور غیر معیاری کھاد بھی استعمال کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

سیلاب نے کان مہترزئی میں سیب کے ہزاروں درخت بانجھ کر دیے: زمیندار زندگی دوبارہ شروع کرنے کے لیے حکومتی سہارے کے منتظر۔

ان کے مطابق سیب کی خالی پیٹی کی قیمت 70 سے 100 روپے ہے جبکہ بھرائی کے لیے کاغذ، بھوسہ، کیلیں اور دیگر سامان کے ساتھ یہ قیمت دو سو روپے تک پہنچ جاتی ہے۔ منڈی اور مزدوروں کے اخراجات کے علاوہ فارم سے منڈی تک مال پہنچانے کے اخراجات تقریباً دو سو روپے فی کریٹ ہیں۔ سب ملا کر منڈی تک ایک پیٹی سیب تقریباً 400 روپے میں پڑ جاتا ہے۔ کبھی کبھار اچھا ریٹ نہ ملنے پر کاشت کار نقصان اٹھا لیتا ہے لیکن ہر بار نہیں۔

"سنجاوی سے ملتان، فیصل آباد اور لاہور تک ایک ٹرک پہلے سے کئی گنا زیادہ کرایہ لے رہا ہے، جبکہ سیب کی قیمت وہی ہے جو آج سے آٹھ سال پہلے تھی۔"

ایک فروٹ ایجنٹ و ٹرانسپورٹ کمپنی کے مالک نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے آڑھتی ہمیں قبل از وقت معقول رقم دیتے ہیں تاکہ ہم ان باغبانوں کو دیں اور پھل تیار ہونے پر واپس لیں۔ اگر باغبان پھل نہ دے تو ہم مشکل میں پڑ جاتے ہیں۔ ان کے مطابق " باغبانوں کی مشکلات سے وہ، کمپنی ایجنٹ اور آڑھتی تینوں متاثر ہوتےہیں۔"

تاریخ اشاعت 20 اکتوبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

عبدالرحمن خلجی کا تعلق زیارت، بلوچستان سے ہے۔ عبدالرحمن نے بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ سے صحافت میں ماسٹر ڈگری حاصل کی ہوئی ہے۔ گزشتہ دو سال سے عملی صحافت سے وابستہ ہیں۔

مزدور انصاف مانگتا ہے، عدالت تاریخ دے دیتی ہے

thumb
سٹوری

گناہ بے لذت: گلگت بلتستان میں لوڈشیڈنگ کم کر نے کے لیے ڈیزل جنریٹرز، بجلی تو پھر بھی نہ آئی اور آلودگی بڑھ گئی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر

برطانیہ کی پنجابی دشمنی ہمارے حکمران لے کر چل رہے ہیں

thumb
سٹوری

'کسان کھڑی فصلوں پہ ہل چلا رہے ہیں، سبزیوں کی اتنی بے قدری کبھی نہیں دیکھی'

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ریاض
thumb
سٹوری

شینا کوہستانی یا انڈس کوہستانی: اصلی 'کوہستانی' زبان کون سی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر توروالی
thumb
سٹوری

پاکستان میں لسانی شناختوں کی بنتی بگڑتی بساط: مردم شماریوں کے ڈیٹا کی نظر سے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceطاہر مہدی
thumb
سٹوری

'میواتی خود کو اردو کا وارث سمجھتے تھے اور اسے اپنی زبان مانتے رہے': ہجرت کے 76 سال بعد میواتی کو زبان کا درجہ کیسے ملا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceافضل انصاری
thumb
سٹوری

بڑے ڈیمز اور توانائی کے میگا منصوبےکیا واقعی ملک اور معیشت کے لیے ضروری ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان

درخت کاٹو یہاں سے بجلی گزرے گی

خزانے کے لالچ میں بدھ مت کے مجسموں کو خطرہ

thumb
سٹوری

'مادری زبان کے نام پر ہم پہ فارسی نہ تھوپیں، ہزارگی علیحدہ زبان ہے فارسی کا لہجہ نہیں'

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی

راوی کو پانی چاہئیے, روڈا نہیں

Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.