لوئر کوہستان: غیرت کے نام پر بچے اور خاتون سمیت تین افراد قتل

postImg

عمر باچا

postImg

لوئر کوہستان: غیرت کے نام پر بچے اور خاتون سمیت تین افراد قتل

عمر باچا

گزشتہ ماہ کی 14 تاریخ کو خیبر پختونخوا کے ضلع لوئر کوہستان کے ایک ہی علاقے جیجال میں ایک عورت سمیت تین افراد کو قتل کر دیا گیا۔ پولیس اور مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ تینوں قتل غیرت کے نام پر کیے گئے۔

مقتولین میں شامل 19 سالہ صفیہ 11 جنوری 2022 کو اپنے گھر سے بھاگ کر قریبی ضلع شانگلہ میں مقیم اپنے جاننے والے لوگوں کے ہاں چلی گئیں۔ اگلے دن یہ لوگ انہیں تحصیل بِشام کے ایک تھانے میں لے گئے جہاں پولیس کو اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنا گھر اس لیے چھوڑا ہے کہ ان کی ساس اور شوہر ان پر تشدد کرتے تھے۔ 

ایک دن بعد پولیس نے صفیہ کو ایک مقامی سیشن جج کے سامنے پیش کیا جس نے پہلے تو حکم دیا کہ انہیں دارالامان بھیجا جائے لیکن جب عدالت میں موجود ان کے والد عمر دراز نے درخواست کی کہ ان کی بیٹی کو ان کے ساتھ جانے کی اجازت دی جائے تو جج نے یہ درخواست قبول کر لی۔

لیکن صفیہ کبھی اپنے والدین کے گھر نہ پہنچ سکیں۔ 

پولیس کا کہنا ہے کہ جب وہ اپنے والد کے ساتھ جیجال واپس جا رہی تھیں تو راستے میں گھات لگا کر بیٹھے ہوئے ان کے سسرالی رشتہ داروں نے انہیں اغوا کر لیا۔ پولیس کی درج کردہ ایک ابتدائی اطلاعاتی رپورٹ کے مطابق ایک دن بعد ان کے خاوند تاج محمد نے انہیں قتل کر دیا۔ 

اسی روز جیجال بازار میں 13 سالہ صلاح الدین کو بھی قتل کر دیا گیا۔ اس کے والد شیر محمد کہتے ہیں کہ ان کا آٹھویں جماعت کا طالب علم بیٹا صبح کے وقت سکول جا رہا تھا جب اسے فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا۔ مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ یہ قتل بھی تاج محمد نے کیا تھا کیونکہ اسے شک تھا کہ اس کی بیوی صفیہ اور صلاح الدین کے درمیان ناجائز تعلقات تھے۔ 

اس دن تیسرا قتل ایک مقامی پولیس اہلکار فضل الرحیم کا ہوا۔ وہ صلاح الدین کی جائے قتل سے شواہد اکٹھے کرنے کے بعد واپس تھانے جا رہے تھے کہ محمد حق نامی ایک شخص نے اپنے دیگر ساتھیوں کی مدد سے انہیں قتل کر دیا۔

مقتول اہلکار کے چچا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے ان کے خاندان کا محمد حق کے خاندان کے ساتھ پانی کی ایک سرکاری سکیم کی تنصیب پر جھگڑا ہوا تھا جو کہ اس قتل کی وجہ ہو سکتا ہے۔ تاہم کچھ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کی حقیقی وجہ فضل الرحیم پر کچھ برس پہلے لگا یہ الزام تھا کہ ان کے محمد حق کی ایک قریبی رشتہ دار خاتون کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے۔

مقتول صلاح الدین کی عمر 13 سال تھیمقتول صلاح الدین کی عمر 13 سال تھی

لوئر کوہستان کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ذوالفقار جدون ان تینوں واقعات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان میں مجموعی طور پر چھ افراد کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق "پولیس ان میں سے چار کو گرفتار کر چکی ہے جبکہ محمد حق اور اس کا بیٹا ابھی تک مفرور ہیں"۔ 

روایات کے قیدی

خیبر پختونخوا کے شمال مشرقی پہاڑی علاقے کوہستان کے اضلاع لوئر کوہستان، اپر کوہستان اور کولئی پالس (وسطی کوہستان) میں اُن مردوں اور عورتوں کے قتل کے مقدمات شاذ ہی عدالت تک پہنچتے ہیں جن پر ایک دوسرے سے ناجائز تعلقات کا الزام ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو مقامی طور پر 'چور' کہا جاتا ہے اور مقامی روایات کے مطابق ایک 'چور' عورت کے خاندان کو اجازت ہے کہ وہ اُسے قتل کرنے کے بعد اس سے مبینہ طور پر وابستہ 'چور' مرد کو بھی مار دے۔ 

صفیہ اور صلاح الدین کے والدین بھی ان روایات کی پاس داری کر رہے ہیں۔ اس لیے، ذوالفقار جدون کے مطابق، "وہ نہ تو پولیس کو کوئی بیان دینے پر تیار ہیں اور نہ ہی انہوں نے مقتولین کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم کرایا ہے"۔ 

اپر کوہستان سے تعلق رکھنے والے ایک سماجی کارکن، حفیظ الرحمان، کا کہنا ہے کہ 'چور' مردوں اور عورتوں سے نمٹنے کا یہ روایتی طریقہ کوہستان کے تمام حصوں میں رائج ہے۔ وہ وسطی کوہستان کی پالس وادی میں 2012 میں پیش آنے والے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں اب تک دس افراد قتل کیے جا چکے ہیں جن میں پانچ عورتیں بھی شامل ہیں۔ اس خون ریزی کی ابتدا ایک وڈیو کے منظرِ عام پر آنے سے ہوئی تھی جس میں چند خواتین کو ایک نوجوان کے رقص پر تالیاں بجاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ 

مقامی پولیس کی جانب سے اکٹھے کیے گئے اعدادوشمار بھی ظاہر کرتے ہیں کہ پچھلے چند سال میں کوہستان میں اس طرح کے کئی واقعات ہو چکے ہیں۔ ان کے مطابق 2018 سے اب تک صرف لوئر کوہستان ضلع میں 14 مختلف واقعات میں 10 خواتین اور نو مردوں کو 'چور' قرار دے کر قتل کیا جا چکا ہے۔  

تاہم حفیظ الرحمان کہتے ہیں کہ حقیقت میں ایسے واقعات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ اس طرح مارے جانے والے اکثر لوگوں کے اہلِ خانہ پولیس یا میڈیا کو کچھ بتاتے ہی نہیں۔

تاریخ اشاعت 4 فروری 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

عمر باچا خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ سے تعلق رکھنے والے ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔ انسانی حقوق، سماجی مسائل، سیاحت اور معیشیت کے حوالے سے رپورٹنگ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.