چالیس سالہ محمد عثمان کھیت مزدور ہیں۔ وہ کشمور میں کندھ کوٹ سے دس کلو میٹر دور رسالدار گاؤں کے رہائشی ہیں۔ ان کا پانچ سالہ بیٹا بیمار ہے جسے لے کر وہ ڈسٹرکٹ ہسپتال کندھ کوٹ لائے ہیں اور آؤٹ ڈور میں بیمار بچے کو گود میں لیے کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ صبح ہی یہاں پہنچ گئے تھے۔بیٹے کو دکھانے کے لیے گھنٹوں ڈاکٹروں کا انتظار کیا۔اب بتایا گیا ہے کہ یہاں تو بچوں کا ڈاکٹر ہی نہیں ہے۔ اگر نجی ہسپتال کی فیس بھرنے کے پیسے ہوتے تو وہ بچے کو کبھی یہاں نہ لاتے۔
اس ہسپتال کے آؤٹ دوڑ میں مریضوں کی طویل قطار دکھائی دیتی ہے۔ ہسپتال آنے والے 60 سالہ نور محمد نے بتایا کہ وہ 12کلو میٹر دور تنگوانی سے آئے ہیں اور انہیں آنکھوں میں تکلیف ہے۔ باری آنے پر وہ اندر گئے تو او پی ڈی میں موجود ڈیوٹی ڈاکٹر نے حسب معمول پرچی پر دوا لکھ دی۔
نور محمد پرچی ہاتھ میں لیے ہسپتال کی فارمیسی پہنچے۔وہاں موجود ڈسپنسر نے پرچی دیکھی اور کہا "چاچا باہر جاؤ، میڈیکل سٹور سے قطرے مل جائیں گے"۔ان کی جیب میں 50 روپے تھے اور سٹور والے نے ڈراپس کی قیمت 220روپے بتائی۔نور محمد مایوسی سے ہسپتال کی طرف دیکھا اور گھر کو چل دیئے۔
ڈسٹرکٹ ہسپتال کندھ کوٹ میں روزانہ درجنوں لوگ اسی طرح علاج کے لیے آتے ہیں اور دوا لیے بغیر واپس لوٹ جاتے ہیں۔
کشمور کو 2004 ءمیں ضلع جیکب آباد سے الگ کر کےضلع کا درجہ دیا گیا۔2023ء کی آدم شماری کے مطابق تین صوبوں کے سنگم پر واقع ضلع کشمور (سرکاری نام کشمور ایٹ کندھ کوٹ)کی کل آبادی 12لاکھ 33 ہزار ہے۔ یہ ضلع تین تحصیلوں کندھ کوٹ، کشمور اور تنگوانی پر مشتمل ہے۔
کندھ کوٹ پہلے کشمور کا تحصیل ہیڈ کوارٹر تھا۔اس وقت یہاں تعلقہ ہسپتال (ٹی ایچ کیو )کام کر رہا تھا۔کشمور ضلع بننے کے ایک سال بعد تعلقہ سپتال کو بھی ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر (ڈی ایچ کیو)ہسپتال کا درجہ دے دیا۔
ضلع کشمور میں کہنے کو تو ایک ڈی ایچ کیو، ایک ٹی ایچ کیو ہسپتال،چار دیہی اور 46 بنیادی صحت مراکز ہیں۔مگر ایک ہسپتال میں بھی زچگی کی سہولت میسر نہیں ہے۔
ڈسٹرکٹ ہسپتال میں روزانہ ایک ہزار سے زیادہ مریض آتے ہیں۔ ریکارڈ کے مطابق گزشتہ سال یہاں 22ہزار 332 مریض علاج کے لئے آئے۔ایک ہزار 115کو ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ ضلع کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال میں ماہر امراض نسواں کی سیٹ تو خالی ہے ہی، زچہ بچہ وارڈ سمیت پورا شعبہ بھی غیرفعال ہے۔
انتظامیہ کے مطابق یہاں لیڈی ڈاکٹروں کی 39 اسامیوں میں سے 37 خالی پڑی ہیں۔ دو خواتین میڈکل افسر تعینات کی گئی ہیں جو او پی ڈی میں بیٹھتی ہیں۔مگر یہ بات پیرا میڈیکل یونین کے ضلعی صدر علی حسن قمبرانی نہیں مانتے۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے کبھی لیڈی ڈاکٹر کو اس ہسپتال میں نہیں دیکھا۔
دستاویزات کے مطابق ڈسٹرکٹ ہسپتال میں میڈیکل اور پیرامیڈیکل سٹاف کی 120 اسامیاں خالی ہیں۔یہاں کل 23 ڈاکٹر تعینات ہیں۔ان میں سے چار طویل رخصت پر اور دو پوسٹ گریجوایشن کے لیے گئے ہوئے ہیں۔ یوں صرف 17 ڈاکٹر دستیاب ہیں۔
ایم ایس کے سوا گریڈ19 کے ڈاکٹروں کی سات اور گریڈ 18 کے ڈاکٹروں کی 38 میں سے37 پوسٹیں خالی پڑی ہیں۔ اسی طرح گریڈ17 کے ڈاکٹروں اور لیڈی ڈاکٹروں کی 68 میں سے 48 سیٹیں خالی ہیں۔گریڈ 16 کی نو سٹاف نرسز اور دیگر پیرامیڈکس کی 43 اسامیوں پر بھی کوئی تعیناتی نہیں کی گئی۔
ڈی ایچ کیو میں ڈاکٹروں کی عدم دستیابی کے باعث ڈینٹل سرجری، آنکھ کان اور گلہ، انستھیزیا، پتھالوجی، امراض نسواں، امراض دل ،شعبہ اطفال اور امراض جلد سمیت تمام اہم شعبے اور آپریشن تھیٹر غیر فعال ہیں۔بیشترمریضوں کو سکھر (105 کلو میٹر)، لاڑکانہ (100کلو میٹر) یا رحیم یار خان(140کلو میٹر ) ریفر کر دیا جاتا ہے۔
ڈسٹرکٹ ہسپتال کی ایکسرے مشین اور واحد الٹراساؤنڈ مشین دونوں خراب ہیں۔ مریضوں کو پرائیویٹ لیبارٹریوں اور کلینکس میں جانا پڑتا ہے۔میڈیکو لیگل کے لیے زخمیوں اور پوسٹ مارٹم کے لیے لاش کو سو کلو میٹر دور لاڑکانہ بھیج کر جان چھڑا لی جاتی ہے۔
لیب ٹیکنیشن یار علی ڈومکی ہسپتال کی ایمرجنسی میں ڈیوٹی کرتے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ انڈس ہائی وے پر روزانہ حادثے ہوتے ہیں۔ زخمیوں کو یہاں ابتدائی طبی امداد کے بعد دوسرے شہر روانہ کر دیا جاتا ہے۔حالانکہ ڈاکٹر ہوں تو بیشتر لوگوں کا علاج یہیں ہو سکتا ہے۔
سماجی رہنما اور رکن سندھ بار کونسل عبدالغنی بجارانی بتاتے ہیں کہ حادثے کی صورت میں یہاں ایمبولنس بھی نہیں ملتی۔ ہسپتال کی تین میں سے دو ایمبولینس خراب ہیں ۔صرف ایک گاڑی چل رہی ہےاس میں بھی کبھی پٹرول نہیں ہوتا تو کبھی کوئی اور مسئلہ ہوتاہے۔شدید زخمیوں کو بھی ٹیکسی میں سکھر یا لاڑکانہ لے جانا پڑتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ہسپتال میں ان ڈور شعبے کی حالت مزید ابتر ہے۔یہاں میں دس دس بیڈز کے مردانہ اور زنانہ وارڈ ہیں۔لیکن ان کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ چادریں تو جیسے برسوں سے تبدیل نہیں ہوئیں۔ واش رومز کی حالت اس قدر خراب ہے کہ ان کے قریب بھی کوئی نہیں جا سکتا۔
24-2023ءکی بجٹ دستاویز کے مطابق ہسپتال میں گزیٹڈ اورنان گزیٹڈ سٹاف کی منظور شدہ تعداد 143 ہے۔یہاں کے لیے سالانہ بجٹ میں 10 کروڑ ساڑھے 49 لاکھ مختص کیے گئے ہیں جبکہ ادویات کی مد میں صرف سات لاکھ 37 ہزار روپے رکھے گئے ہیں۔
ایم ایس کندھ کوٹ ڈاکٹر عبدالفتح شکوہ کرتے ہیں کہ اس ہسپتال کو 18 سال قبل ڈی ایچ کیو کا درجہ دیا گیا تھا مگر بجٹ ابھی تک تعلقہ ہسپتال کا ہی مل رہا ہے۔ روزانہ سیکڑوں مریضوں کی ادویات کے لیے بجٹ بہت ہی کم ہے۔
یہ بھی پڑھیں
'ہسپتال ہے مگر علاج نہیں'، تھرپارکر کے باسی ٹی ایچ کیو اسلام کوٹ سے مایوس
انہوں نے انکشاف کیا کہ ڈسٹرکٹ ہسپتال، ٹی ایچ کیو کشمور اور چار دیہی مراکز صحت کی 37 لیڈی ڈاکٹر غیر حاضر ہیں۔طویل غیر حاضری کے باعث ڈائریکٹرز ہیلتھ لاڑکانہ اور سکھر کے پاس ان تمام کی انکوائریاں چل رہی ہیں۔
ڈاکٹر عبدالفتح نے دعویٰ کیا کہ ہسپتال میں دن رات کی شفٹ میں ڈاکٹر موجود ہوتے ہیں ۔ البتہ مخصوص شعبوں کے ڈاکٹروں کی انتہائی ضروری اسامیاں خالی ہیں۔ جن کے لیے انہوں نے ڈپٹی کمشنر اور ڈی جی ہیلتھ کو بار بار آگاہ کیا ہے۔
ڈسٹرکٹ افسر ہیلتھ ڈاکٹر بابو لال نے اس سارے معاملات پر یوں بے بسی کا اظہار کیا کہ "حکومت سندھ کچھ نہیں کرتی تو ہم کیا کرسکیں گے"۔
ڈپٹی کمشنر کشمور فرخ قریشی اعتراف کرتے ہیں کہ ڈی ایچ کیو ہسپتال کودرجنوں مسائل کا سامنا ہے اور وسائل کم ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ آپریشن تھیٹر سمیت دیگر مسائل کو حل کرنے سے قبل غیرحاضر ڈاکٹروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ وہ خالی اسامیوں پر ماہر ڈاکٹروں کی تعیناتی کے لیے سیکریٹری ہیلتھ کو خط لکھیں گے اور ادویات کی فراہمی بھی یقینی بنائیں گے۔
سماجی و سیاسی کارکن شبانہ ملک ڈسٹرکٹ ہسپتال کی حالت کا ذمہ دار انتظامیہ کو سمجھتی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ ڈاکٹر سیاسی اثرو رسوخ کی وجہ سے ڈیوٹیاں نہیں کرتے۔ انہوں کئی بار شکایت کی ہے مگر کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔
تاریخ اشاعت 3 اکتوبر 2023