یہ مائیں، یہ بہنیں، یہ بیٹیاں: 'چار دیواری تک محدود' جنوبی وزیرستان کی عورتوں کی انتخابی میدان تک رسائی کیسے ممکن ہو گی؟

postImg

مہرین خالد

postImg

یہ مائیں، یہ بہنیں، یہ بیٹیاں: 'چار دیواری تک محدود' جنوبی وزیرستان کی عورتوں کی انتخابی میدان تک رسائی کیسے ممکن ہو گی؟

مہرین خالد

جب سات بچوں کی ماں شاہ ترینہ نے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو ان کے علاقے کی قبائلی روایات کے تحت انہیں جلسہ کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ چنانچہ انہوں نے گھر گھر جا کر انتخابی مہم چلائی، خواتین کو اپنے سیاسی مقاصد اور منصوبوں سے آگاہ کیا اور انہیں ووٹ دینے پر آمادہ کیا۔ یوں خیبرپختونخوا میں 31 مارچ 2022 کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں وہ خواتین کے لیے مخصوص کی گئی ایک نشست پر ولیج کونسلر منتخب ہوگئیں۔ 

ان کی عمر 38 سال ہے اور ان کا تعلق قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان سے ہے جو صوبے کے کئی دوسرے علاقوں کی طرح پچھلے 20 سال مذہبی شدت پسندی کا شکار رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں انتخاب میں حصہ لینے کا مشورہ ان کے 50 سالہ شوہر محمد ہمایوں نے دیا تھا جو ٹیکسی ڈرائیور کے طور پر کام کرتے ہیں اور، شاہ ترینہ کے بقول، "ایک کھلا دل و دماغ رکھنے والے انسان ہیں"۔ 

ان کا تعلق وزیر قبیلے کی ذیلی شاخ توجئے خیل سے ہے اور وہ کڑیکوٹ نامی دیہی علاقے میں رہتی ہیں۔ ان کے ضلعے میں پہلے کبھی بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے اس لیے ان کے لیے یہ بات خاصی حیران کن تھی کہ ان کے قبیلے کے عمائدین نے ان کے انتخاب میں شرکت کے فیصلے کو نہ صرف سراہا بلکہ ان کی ہر طرح سے مدد بھی کی۔ ان کے مطابق "جب میں نے انتخابی مہم چلائی تو علاقے کے مردوں نے بھی لوگوں کو میرے لیے ووٹ دینے پر قائل کیا"۔ 

تاہم وہ کہتی ہیں کہ وہ قبائلی روایات سے بغاوت نہیں کرنا چاہتیں بلکہ مقامی رسوم و رواج کو مدِنظر رکھتے ہوئے خواتین کے مسائل حل کرنے کی خواہش مند ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے علاقے میں خواتین کی تعلیم کو فروغ دینے اور عورتوں کے لیے ہسپتال بنانے کے مطالبات کو اجاگر کرنے کے لیے انتخابات میں حصہ لیا ہے کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ "اپنے حقوق کے حصول کے لیے فیصلہ کن جدوجہد خواتین کو خود ہی کرنا ہو گی"۔

رسم و رواج کی پابند سیاست

جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا میں خواتین ووٹروں کی تعداد 47 ہزار پانچ سو 42 ہے جن میں سے آٹھ ہزار چھ -- یا 18.5 فیصد -- نے مارچ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔ اسی طرح 2018 کے عام انتخابات میں بھی ہر سو مقامی خواتین ووٹروں میں سے تقریباً 16 نے ووٹ ڈالے تھے جو پاکستان بھر کے قومی اسمبلی کے حلقوں میں پانچویں پست ترین شرح تھی۔

جنوبی وزیرستان کے الیکشن کمشنر محمد بلال کہتے ہیں کہ ماضی میں یہ علاقہ شدت پسندی اور دہشتگردی کا شکار رہا اس لیے یہاں انتخابات کرانا اور ان میں خواتین کی شرکت یقینی بنانا ایک بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات میں خواتین کی بطور امیدوار شرکت اس بات کی عکاس ہے کہ مقامی لوگوں کی سوچ بدل رہی ہے اور وہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے جمہوری اور سیاسی راہ اپنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ 

تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے جاری کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق جنوبی وزیرستان کی 106 ولیج کونسلوں میں خواتین کے لیے مخصوص اتنی ہی نشستوں میں سے 24 پر کسی امیدوار نے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے تھے۔ اسی طرح 48 مزید نشستوں میں سے ہر ایک پر صرف ایک ہی خاتون امیدوار تھی جو ووٹ لیے بغیر منتخب ہو گئی۔ یوں صرف 34 نشستوں پر دو یا دو سے زیادہ خواتین میں مقابلہ ہوا۔ 

وانا سے تقریباً ایک سو 37 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع جنوبی وزیرستان کی تحصیل لدھا میں بلامقابلہ منتخب ہونے والی ایک ولیج کونسلر (جو اپنا نام ظاہر کرنا نہیں چاہتیں) کا کہنا ہے کہ ان کے ضلع میں خواتین کے انتخابات میں حصہ لینے کے راستے میں دو بڑی رکاوٹیں ہیں۔ ان میں سے پہلی یہ ہے کہ "اس علاقے میں قبائلی روایات کے تحت خواتین عموماً گھر کی چار دیواری تک ہی محدود رہتی ہیں" جبکہ دوسری یہ ہے کہ "تعلیم کی کمی کے باعث مقامی لوگوں کا سیاسی شعور پختہ نہیں اس لیے خواتین کے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کو انتہائی معیوب خیال کیا جاتا ہے"۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

خواتین امیدواروں کی عام انتخابات میں کامیابی: بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا۔

وہ خود بھی انتخابات میں اس لیے حصہ لے پائیں کہ ان کے خاندان کے مرد ان کا ساتھ دے رہے تھے۔ بلکہ، ان کے مطابق، انہیں کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کا مشورہ ان کے والد نے ہی دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں اپنے محسود قبیلے کے مرد زعما کی طرف سے بھی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ 

تاہم عورتوں کے حقوق کے حوالے سے اس قبیلے کے مرد جنوبی وزیرستان میں رہنے والے دوسرے قبیلے، وزیر، کے مردوں کی نسبت زیادہ قدامت پرست ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی ذیلی شاخ شمن خیل سے تعلق رکھنے والے 49 سالہ اجمال محسود سمجھتے ہیں کہ "انتخابات میں خواتین کی شرکت سے علاقائی رسوم، رواج اور روایات متاثر ہوں گی"۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ مقامی لوگوں کو ان کا سیاست میں حصہ لینے کا حق تسلیم کرنے میں "ابھی تھوڑا وقت لگے گا"۔

تاریخ اشاعت 22 جون 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

مہرین خالد کا تعلق ضلع بنوں سے ہے۔ وہ گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان سے ابلاغِ عامہ کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

thumb
سٹوری

گناہ بے لذت: گلگت بلتستان میں لوڈشیڈنگ کم کر نے کے لیے ڈیزل جنریٹرز، بجلی تو پھر بھی نہ آئی اور آلودگی بڑھ گئی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر

برطانیہ کی پنجابی دشمنی ہمارے حکمران لے کر چل رہے ہیں

thumb
سٹوری

'کسان کھڑی فصلوں پہ ہل چلا رہے ہیں، سبزیوں کی اتنی بے قدری کبھی نہیں دیکھی'

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ریاض
thumb
سٹوری

شینا کوہستانی یا انڈس کوہستانی: اصلی 'کوہستانی' زبان کون سی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر توروالی
thumb
سٹوری

پاکستان میں لسانی شناختوں کی بنتی بگڑتی بساط: مردم شماریوں کے ڈیٹا کی نظر سے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceطاہر مہدی
thumb
سٹوری

'میواتی خود کو اردو کا وارث سمجھتے تھے اور اسے اپنی زبان مانتے رہے': ہجرت کے 76 سال بعد میواتی کو زبان کا درجہ کیسے ملا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceافضل انصاری
thumb
سٹوری

بڑے ڈیمز اور توانائی کے میگا منصوبےکیا واقعی ملک اور معیشت کے لیے ضروری ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان

درخت کاٹو یہاں سے بجلی گزرے گی

خزانے کے لالچ میں بدھ مت کے مجسموں کو خطرہ

thumb
سٹوری

'مادری زبان کے نام پر ہم پہ فارسی نہ تھوپیں، ہزارگی علیحدہ زبان ہے فارسی کا لہجہ نہیں'

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی

راوی کو پانی چاہئیے, روڈا نہیں

ماحولیاتی تبدیلی: پاکستان نے اہداف طے کر لئے ہیں بس دنیا کی طرف سے فنڈز کا انتظار ہے۔…

Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.