قابل تجدید توانائی کی طرف تیزی سے منتقل ہوتا پاکستان دنیا کی چھٹی سب سے بڑا سولر انرجی مارکیٹ بن چکا ہے جس نے بین الاقوامی توجہ حاصل کر لی ہے ۔ کوئی اسے انقلابی تبدیلی تو کوئی معجزہ کہہ رہا ہے، ورلڈ اکنامک فورم نے اس پیشرفت کو 'ترقی پذیر ممالک کے لیے اہم سبق' قرار دیا۔
پاکستان نے گذشتہ چار سال کے دوران لگ بھگ چار ارب ڈالر کے سولر پینلز درآمد کیے ہیں۔ بلومبرگ کی پچھلے نومبر کی رپورٹ بتاتی ہے کہ صرف 2024ء میں چین سے مجموعی طور پر تقریباً دو ارب ڈالر کی سولر مصنوعات منگوائی گئیں۔
"اس مالی سال کے پہلے نو ماہ میں چین سے 1.7 ارب ڈالر کے شمسی آلات کی حیران کن خریداری کی گئی جو 17 گیگا واٹ کی پیداوار کے مساوی اور مجموعی ملکی پیداواری صلاحیت کے ایک تہائی سے زیادہ بنتی ہے۔"
بعض ماہرین اس بے مثال تبدیلی کا سبب چینی مصنوعات پر امریکی پابندیوں، کچھ ماحولیاتی تحفظ کے لیے عالمی کوششوں اور بعض حکومتی پالیسیوں میں ڈھونڈ دے رہے ہیں۔
تاہم حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں سولرائزیشن کو فروغ کسی ایک وجہ سے نہیں ملا بلکہ ملک میں مہنگی بجلی سمیت کئی عوامل نے مل کر نئے منظرنامے کی تشکیل میں کردار ادا کیا ہے۔

آسمان کو چھوتے بل: ہم کپیسٹی پیمنٹس کے گرداب میں کیسے پھنسے؟
پچھلے عشرے میں بجلی کے سنگین بحران کے باعث ملک اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے عجلت میں درآمدی ایندھن (کوئلہ، ایل این جی، ڈیزل وغیرہ) پر چلنے والے تھرمل پلانٹس متعارف کرائے گئے جو بعد میں یہ خود مسئلہ بن گئے۔
نئے بجلی گھروں میں سے بیشتر غیر ملکی سرمایہ کاری سے لگائے گئے ان منصوبوں کو ریاست کی جانب سے مکمل تحفظ کی ضمانت (sovereign guarantees) دی گئی تھی۔ ان معاہدوں کی تمام ادائیگیاں ڈالر سے منسلک رکھی گئی تھیں اور ان میں 'ٹیک اور پے' (take or pay)کی شرط بھی شامل تھی۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ بجلی کی کھپت ہو یا نہ ہو، ان پلانٹس کو ہر حال میں ان کی پیداواری صلاحیت کے برابر ادائیگی (کیپیسٹی پیمنٹس) کی جاتی رہے گی اور کیونکہ ان معاہدوں کی ضامن ریاست پاکستان ہے اس لیے اگر یہ ادائیگیاں شرائط کے مطابق نہ کی گئیں تو دنیا میں پاکستان کو دیوالیہ تصور کیا جائے گا جس سے ملکی معیشت اور ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔
رینیوایبل فرسٹ اور ہیرالڈ اینالیٹکس کی رپورٹ 'دی گریٹ سولر رش' کے مطابق کیپیسٹی پیمنٹس کا مسئلہ اس وقت مزید گھمبیر ہوا جب ملک میں بجلی کی پیداواری صلاحیت تقریباً 45 ہزار میگاواٹ تک جا پہنچی جبکہ طلب 30 ہزار میگاواٹ سے آگے نہیں بڑھی۔ گویا ہمیں 30 ہزار میگاواٹ بجلی خرچ کر کے 45 ہزار کی قیمت چکانی پڑی یہ اضافی بوجھ ظاہر ہے صارفین پر ہی پڑا۔
پھر 2021ء کے بعد ڈالر کے مقابلے میں روپیہ کی قدر بہت زیادہ گری اب کیپسٹی پیمنٹ کیونکہ ڈالروں میں کی جاتی ہے اس لیے روپے میں بجلی مزید مہنگی ہو گئی اور تین سال میں اس کے نرخ 155 فیصد سے زیادہ بڑھ گئے۔

نیٹ میٹرنگ پالیسی اور مراعاتی سکیموں نے ہی شمسی توانائی کو 'طلوع' کیا
بجلی بحران کے دوران 2015ء میں حکومت نے نیٹ میٹرنگ شروع کرنے کا فیصلہ کیا جس کا ہدف شہریوں کو شمسی توانائی میں سرمایہ کاری کی طرف راغب کرنا تھا۔ اس کے دو مقاصد تھے۔ ایک تو مہنگی تھرمل بجلی پر انحصار کم کرکے زرمبادلہ بچانا اور دوسرا بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانا۔
نیٹ میٹرنگ پالیسی پر 2017ء میں عمل شروع ہوا جس کے تحت صارفین کو چھوٹے پیمانے پر قابل تجدید توانائی کے سسٹمز لگانے کی اجازت دی گئی۔ بعدازاں25 کلو واٹ سے کم سسٹمز کو جنریشن لائسنس کی شرط سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں صارف خود پیدا کنندہ بھی بن گئے۔
توانائی اور ماحولیات پر کام کرنے والے ادارے رینیوایبل فرسٹ کے مطابق نیٹ میٹرنگ کے ضوابط کے تحت منظور شدہ لوڈ سے ڈیڑھ گنا تک کا سولر سسٹم لگانے کی اجازت نے مالی فوائد کو مزید بہتر کیا۔ اس کی بدولت صارف کی لاگت صرف دو سے چار سال میں واپس آ جاتی ہے۔
صرف نیٹ میٹرنگ پالیسی ہی نہیں سولر توانائی کے فروغ میں حکومتی مراعاتی سکیموں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان نے 2016ء میں قابل تجدید توانائی کے لیے فنانسنگ سکیم شروع کی جس میں چھ ارب روپے تک کے منصوبوں کو چھ فیصد مارک اپ پر12 سال کے لیے قرضے دیے گئے۔ اس رقم سے دو ہزار600 سے زائد منصوبوں کے لیے سرمایہ فراہم کیا گیا۔
"ستمبر 2024ء تک پاکستان کی آن گرڈ نیٹ میٹرنگ کے تحت شمسی توانائی کی مجموعی گنجائش تقریباً 3.2 گیگاواٹ تک پہنچ چکی تھی، یہ تخمینہ ہے اصل اس سے کہیں زیادہ ہو سکتا ہے۔"

چین امریکہ کشمکش: دو ہاتھیوں کی لڑائی میں ہمارا بھلا کیسے ہوا؟
چین سولر سازی یا پولی سلیکون کی پیداوار کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ دنیا کو 80 فیصد سے زائد پینلز یا ان کے پارٹس چین ہی سپلائی کرتا ہے۔امریکا اور یورپی ممالک کی سولر درآمدات کا انحصار چین پر رہا ہے۔
ساؤتھ ایشیا پیس ایکشن نیٹ ورک (ساپن نیوز) کی ایک رپورٹ کے مطابق چین کووڈ کے دوران امریکا میں سولر کی بڑھتی مانگ کو پورا کرنے میں ناکام رہا جبکہ دنیا میں اس وقت فوسل فیول(پٹرولیم، کوئلہ وغیرہ) کے استعمال میں کمی پر زور دیا جا رہا تھا۔
اس دوارن وہاں 2022ء اور 2024ءکے درمیان سولر ریٹ تین گنا بڑھ گئے۔ اس کی دو وجوہات تھیں، پہلی وجہ ایک بڑی چینی فیکٹری کی مرمت کے لیے بندش تھی اور دوسری سنکیانگ سے آنے والی مصنوعات پر امریکی پابندیاں تھیں۔
کچھ عرصہ بعد چین میں بند فیکٹری چل پڑی اور وہاں ایک نئی سولر فیکٹری نے بھی پیداوار شروع کر دی جبکہ امریکی پابندیاں برقرار رہیں۔ چین کی پیداوار اور ان پابندیوں کے باعث سولر ریٹ انتہائی کم سطح پر آ گئے جس کا فائدہ ایشیائی ممالک خاص طور پر بھارت اور پاکستان کو ہوا۔
"پاکستان نے اس صورت حال کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا۔ یہاں 2022ء تک سولر اپنانے کا رحجان باقی ممالک کے برابر تھا لیکن 2024ء میں یہ دنیا کی چھٹی بڑی سولر مارکیٹ بن گیا۔ اس کی بنیادی وجہ چینی پینلز کی غیرمتوقع اضافی سپلائی ہے۔"
پاکستان میں نیٹ میٹرنگ صارفین کی تعداد اب دو لاکھ 83 ہزار سے بڑھ چکی ہے جن کی نصب شدہ سولر صلاحیت چار ہزار 124 میگاواٹ بتائی جا رہی ہے۔ لاکھوں آف گرڈ سولر صارفین ان کے علاوہ ہیں۔ یعنی وہ افراد جو نیٹ میٹرنگ کے بغیر سولر پینلز سے براہِ راست بجلی حاصل کر رہے ہیں جیسے زرعی صارفین سولر کے ذریعے ٹیوب ویل چلا رہے ہیں۔

نئی پالیسی: سولر نے بجلی سیکٹر کے انجرپنجر کو ہلا کر رکھ دیا ہے
توانائی کے سیکٹر کا سب سے بڑا مسئلہ بجلی کی پیداواری صلاحیت (انسٹالڈ کپیسٹی) کے مقابلے میں کھپت کا کم ہونا تھا۔ اب کیونکہ صارفین نے سولر کے ذریعے خود بے تحاشا بجلی پیدا کرنی شروع کردی ہے تو ایک طرف بجلی کی پیداوار بڑھ گئی ہے اور دوسری طرف بجلی کمپنیوں کی آمدن بھی کم ہو گئی ہے لیکن کیپسٹی پیمنٹس کا عفریت نہ صرف جوں کا توں موجود ہے بلکہ دن بدن زیادہ دہشتناک ہوتا جا رہا ہے۔
اس صورت حال میں حکومت نے چند روز قبل نئی سولر پالیسی کا اعلان کیا ہے جس کے تحت اب نئے نیٹ میٹرنگ صارفین سے سولر بجلی 10 روپے یونٹ خریدی جائے گی۔اس سے قبل ڈسٹری بیوشن کمپنیاں نیٹ میٹرنگ صارفین سے 27 روپے یونٹ بجلی خرید رہی ہیں۔

وفاقی وزیر برائے توانائی اویس لغاری کہتے ہیں کہ حکومت شمسی توانائی کی حوصلہ شکنی نہیں کررہی بلکہ سولر سے ہر سال ایک ہزار 200 میگاواٹ بجلی کی توقع کر رہی ہے۔
وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نیٹ میٹرنگ کی نئی پالیسی کے باوجود سولر لگانے والے ساڑھے تین سے چار سال میں اپنا پیسہ وصول کرلیں گے۔
عارف حبیب لمیٹڈ کے ڈپٹی ریسرچ ہیڈ راؤ عامر علی سمجھتے ہیں کہ نئی پالیسی سے پیسہ وصولی کی مدت (پے بیک پیریڈ) دس سے پندرہ سال ہو جائے گی۔
تاہم رینیوایبل فرسٹ کے ماہرین کا ماننا ہے کہ سولر انرجی پر لاگت اور گرڈ بجلی کے ریٹ میں اتنا فرق ہے کہ نیٹ میٹرنگ سے نیٹ بلنگ کی پالیسی ہو یا خریداری (بائی بیک ریجیم) کا مکمل خاتمہ کر دیا جائے، تب بھی سولر کی اقتصادی کشش برقرار رہے گی اور سرمایہ واپسی کا عرصہ پانچ سال سے کم رہنے کا امکان ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ملک میں گرڈ بجلی کی طلب میں نمایاں کمی آئی ہے اس لیے طلب و رسد کے تخمینوں پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو اپنانے اور گرڈ کی جدیدکاری کے لیے حکمت عملی میں تبدیلیاں ناگزیر ہو چکی ہیں۔
تاریخ اشاعت 21 مارچ 2025