پنجاب میں نقلی بیجوں کی خرید و فروخت: کسانوں کی شکایت پر کوئی کارروائی نہِیں کی جاتی۔

postImg

آصف ریاض

postImg

پنجاب میں نقلی بیجوں کی خرید و فروخت: کسانوں کی شکایت پر کوئی کارروائی نہِیں کی جاتی۔

آصف ریاض

 

اوائلِ جنوری 2021 کی ایک دھندلی صبح ایک دکان کے اندر کچھ لوگوں میں بحث و تکرار ہو رہی ہے۔ ان میں سے ایک شخص بار بار کہہ رہا ہے 'تم بس رسید دو' جبکہ ایک دوسرا شخص اسے ایک ثالث کی آمد تک صبر کرنے کا کہہ رہا ہے۔

رسید کا مطالبہ کرنے والے منور اسلم نامی کسان ہیں جن کا تعلق ضلع حافظ آباد کے گاؤں چھینہ سے ہے جبکہ ان کو صبر کی تلقین کرنے والے فصلوں کے بیج بیچنے والے ڈیلر ظفر اسلم ہیں جن کی دکان رسول پور تارڑ نامی قصبے میں ہے جو حافظ آباد سے پنڈی بھٹیاں جانے والی سڑک پر ان دونوں شہروں کے بیچ میں واقع ہے۔ بحث و تکرار انہی کی دکان میں ہو رہی ہے۔

منور اسلم کا کہنا ہے کہ انھوں نے دو ماہ پہلے ظفر اسلم سے اینگرو کمپنی کے گندم کے بیج ٹی ڈی 1 کے 74 تھیلے ساڑھے 34 سو روپے فی تھیلہ کے حساب سے دو لاکھ 55 ہزار تین سو روپے میں خریدے لیکن ظفر اسلم نے انہیں اس خریداری کی کوئی رسید فراہم نہیں کی۔

منور اسلم کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ان کا خریدا ہوا بیج ناقص نکلا کیونکہ اس کے ہر سو دانوں میں سے صرف 20 پودے اگے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ  انہوں نے یہ بیج 74 ایکڑ اراضی پر کاشت کیا تھا جسے فصل کے لئے تیار کرنے پر ان کے 30 لاکھ روپے خرچ ہوئے جو سارے کے سارے بیج کی قیمتِ خرید کی طرح ضائع ہو گئے ہیں۔   

انہی کے گاؤں کے رہنے والے کسان محمد طفیل نے بھی تین ایکڑ رقبے پر یہی بیج لگایا تھا۔ ان کی زمین میں بھی اس کے اگاؤ کا تناسب 20 فیصد سے زیادہ نہیں۔

منور اسلم کہتے ہیں کہ ایک ماہ پہلے وہ پہلی بار اپنی شکایت لے کر ظفر اسلم کے پاس گئے جس نے انہیں کچھ دن اور انتظار کرنے کا کہا اور وعدہ کیا کہ اگر اگاؤ میں بہتری نہ آئی تو پھر وہ بیج تیار کرنے والی کمپنی سے بات کریں گے۔

جب انہوں نے ظفر اسلم  سے دوبارہ رابطہ کیا تو 'اس نے مجھے اینگرو کمپنی کے حافظ آباد کے ایریا مینیجر رانا بشیر احمد کا فون نمبر دیا۔ میں نے ان سے رابطہ کر کے انہیں ساری صورتِ حال بتائی جس کے بعد وہ خود فصل کا معائنہ کرنے کے لیے آئے۔ اس معائنے کے بعد انہوں نے تسلیم کیا کہ بیج کا اگاؤ واقعی بہت کم ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے کمپنی سے بات کرنے کا وعدہ بھی کیا'۔  

رانا بشیر احمد محمد طفیل کی فصل کا معائنہ بھی کر چکے ہیں۔ تاہم دونوں کسانوں کا کہنا ہے کہ اس کے بعد کمپنی نے ان کی شکایت ہر کوئی کارروائی نہِیں کی۔

رانا بشیر احمد تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے منور اسلم کی فصل کا معائنہ کیا لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہوں نے اس کے بارے میں ایک رپورٹ تیار کر کے کمپنی کو ارسال کر دی تھی جس پر کمپنی نے انہیں ہدایت کی تھی کہ وہ حافظ آباد کے دیگر علاقوں میں سروے کر کے معلوم کریں کہ آیا وہاں بھی کسان یہی شکایت کر رہے یا نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'میں نے بیج بیچنے والے ڈیلروں کے علاوہ کسانوں سے بھی بات کی لیکن کسی بھی اور جگہ بیج کے بارے میں کوئی شکایت نہیں پائی گئی'۔ 

رانا بشیر احمد کے مطابق منور اسلم کی فصل کا اگاؤ کم ہونے کی وجوہات بیج کے معیار کے علاوہ بھی ہو سکتی ہیں۔ 'ہو سکتا ہے جب انہوں نے بیج کاشت کیا اس وقت زمین میں نمی کا تناسب کم ہو کیونکہ بیج کو اگنے کے لیے نرم زمین چاہیئے۔ اس کا ایک حل یہ بھی ہو سکتا تھا کہ وہ بیج کو بونے سے پہلے اسے پانچ سے چھ گھنٹے پانی میں بھگو دیتے'۔

اگرچہ ایسی کوئی ہدایات ٹی ڈی 1 کے تھیلے پر درج نہیں لیکن زراعت کے بارے میں تحقیق کرنے والے وفاقی ادارے، پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل، کے مطابق ٹی ڈی 1 صوبہ پنجاب کے لئے موزوں ہی نہیں بلکہ اسے صرف صوبہ سندھ میں کاشت کیا جانا چاہیئے۔

بیجوں کی تصدیق کرنے والے وفاقی ادارے، فیڈرل سِیڈ سرٹیفیکیشن اینڈ رجسٹریشن ڈیپارٹمنٹ، کے لاہور میں متعین ریجنل ڈائریکٹر اعظم خان کے مطابق اس بیج کو بوائی کے وقت 21 درجے سینٹی گریڈ یا اس سے زیادہ ٹمپریچر چاہیئے اور اس کی بوائی بھی اکتوبر میں کی جانی چاہیئے۔ یہ دونوں شرائط پنجاب میں پوری نہیں ہو سکتیں کیونکہ اس صوبے میں بوائی نومبر میں شروع ہوتی ہے جب ٹمپریچر عام طور پر اکیس درجے سے کم ہوتا ہے۔  

ناقص بیج، ناقص کمپنیاں

ضلع قصور کے علاقے ٹھینگ موڑ کے نواحی گاؤں ٹھٹھی جٹاں کے محمد اقبال مقصود بھی بیج کے ناقص معیار کے متاثرین میں شامل ہیں۔

انہوں نے پچھلے سال دس ایکٹر رقبے  پر مکئی کی فصل کاشت کی جس کا اُگاؤ تو بہت اچھا تھا لیکن اس کا سِٹہ چھوٹا بھی رہا اور اس میں دانہ بھی نہ پڑا۔ ان کے بقول انہوں نے اس فصل کا بیج ٹھینگ موڑ کے ایک ڈیلر سے سات ہزار پانچ سو روپے فی تھیلہ کے حساب سے خریدا تھا-

اقبال مقصود نے جب ڈیلر کو بیج کے معیار کے بارے میں شکایت کی تو اس نے بیج بنانے والی کمپنی سے رابطہ کیا جس کے افسران نے کہا کہ ان کے ایریا مینیجر فصل کے معائنے کے لیے آئیں گے۔ 'لیکن بار بار رابطہ کرنے کے باوجود کمپنی کے حکام فصل کے معائنے کے لئے نہیں آئے'۔ 

ٹھینگ موڑ ہی کے رہنے والے ایک کسان اور بیج کے ڈیلر محمد نعیم احمد کا بھی کہنا ہے کہ کچھ سال پہلے انھوں نے گوجرانوالا کی ایک کمپنی سے مکئی کا بیج خریدا جس کا 'دعویٰ تھا کہ اس کا بیج کسی بھی غیر ملکی کمپنی کے بیج سے کم نہیں ہے اور اگر اس کی فی ایکڑ پیدوار کم نکلے تو وہ کسانوں کے فصل پر آنے والے تمام اخراجات ادا کرے گی'۔

لیکن محمد نعیم احمد کے مطابق اس بیج کی پیداوار غیر ملکی کمپنیوں کے بیجوں کی نسبت نصف سے بھی کم رہی۔ 'جب ہم نے کمپنی سے رابطہ کیا تو اس کے افسران حیلے بہانے کرنے لگے۔ بہت سے کسان مل کر ان کے پاس بھی گئے لیکن اس کا کچھ اثر نہیں ہوا'-

اسی طرح پچھلے سال قصور کے کچھ علاقوں میں ایک خاص کمپنی کا مکئی کا بیج فروخت ہوتا رہا۔ محمد نعیم احمد کے بقول انہوں نے بھی یہ بیج 17 ایکٹر پر کاشت کیا لیکن 'اس کے پودوں میں سِٹہ نہیں بنا'۔ جب انہوں نے کمپنی کے سیلز مینیجر سے رابطہ کیا تو اس نے فصل کا معائنہ کرنے کا وعدہ کیا لیکن 'پھر ایک دن اس کا فون بند ہو گیا اور اس کے بعد اس سے رابطہ ہی ممکن نہیں رہا'۔

 محمد نعیم احمد کہتے ہیں کہ جب وہ بالآخر کمپنی کے مالک سے ملے 'تو اس نے یہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ متعلقہ سیلز مینیجر کا اس کی کمپنی سے کوئی تعلق ہے یا متنازعہ بیج اس کی کمپنی کا تیار کردہ ہے'۔

ٹھینگ موڑ پر بیج کے ڈیلر کے طور پر کام کرنے والے شہزاد علی اسی بیج کے بارے میں ایک اور انکشاف کرتے ہیں۔ ان کے مطابق انہوں نے پچھلے سال اس کے 15 تھیلے فروخت کیے لیکن جب اسے بیجنے والے تمام کسانوں نے اس کے ناقص ہونے کی شکایت کی تو انہوں نے لاہور میں کمپنی کے دفتر سے رابطہ کیا لیکن 'وہاں موجود لوگ ٹال مٹول سے کام لے رہے تھے'۔ اس پر انہوں نے خود اس کے دفتر جانے کا فیصلہ کیا۔ 'لیکن جب میں اس کے دیے ہوئے پتے پر پہنچا تو وہاں کمپنی کا دفتر موجود ہی نہیں تھا'۔

انتظامی اور عدالتی پیچیدگیاں

اعظم خان کے مطابق دسمبر 2020 کے آخر تک ان کے زیرِ انتظام ریجن سے انہیں ناقص اور جعلی بیج کی فروخت کے بارے میں 309 شکایات موصول ہوئی ہیں جبکہ سِیڈ سرٹیفیکیشن اینڈ رجسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کے ساہیوال ریجن کے ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالحئی کہتے ہیں کہ انہوں نے جولائی 2019 سے جنوری 2020 کے وسط تک 279 ایسے لوگوں کے خلاف مقدمات درج کیے ہیں جو جعلی یا ناقص بیج فروخت کر رہے تھے۔

لیکن اعظم خان کا کہنا ہے کہ اس طرح کی شکایات عام طور پر بیج میں ملاوٹ سے متعلق ہوتی ہیں جبکہ بیجوں کے اگاؤ کا تناسب کم ہونے کی شکایات شاذ و نادر ہی سامنے آتی ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ منور اسلم اور محمد طفیل کو 'ہمارے علاقائی دفتر میں شکایت درج کرانی چاہیئے تا کہ ہمارے فیلڈ انسپکٹر ان کی فصل کا معائنہ کر کے ایک رپورٹ بنا سکیں'۔

اگر اس رپورٹ میں بیج کا غیر موزوں یا ناقص ہونا ثابت ہو جائے تو کیا متاثرہ کسانوں کو فصل پر آنے والے اخراجات واپس مل جائیں گے؟ اعظم خان کہتے ہیں کہ ان کے محکمے کا کام صرف یہ پتہ چلانا ہے کہ آیا بیج ناقص ہے یا نہیں۔ ان کے بقول 'خسارہ پورا کرنے کے لئے کسانوں کو صارفین کے لئے قائم کی گئی عدالت میں درخواست دینا ہوگی'۔

لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عدالت میں کسانوں کو ثابت کرنا پڑے گا کہ بیج اسی کمپنی کا ہے جس کا وہ دعویٰ کر رہے ہیں اور یہ کہ انہوں نے اسے ایک منظور شدہ ڈیلر سے خریدا ہے۔

منور اسلم کو ایک وکیل نے بھی مشورہ دیا ہے کہ اگر وہ بیج کی خریداری کی رسید لے لیں گے تو کمپنی کے خلاف عدالت میں کیس دائر کیا جا سکتا ہے۔ وہ رسید کے حصول پر اسی لئے اصرار کر رہے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ 'اگر میرے پاس رسید نہیں ہو گی تو میں کیا کر لوں گا؟'

لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عدالت سے رجوع کرنے کا طریقہ کار بہت پیچیدہ ہے۔ 'ہونا تو یہ چاہیئے کہ حکومت کا کوئی ادارہ اس سارے معاملے کی خود جانچ کرے اور موقعہ پر ہی کمپنی کے خلاف کارروائی کرے'۔

محمد نعیم احمد کہتے ہیں کہ کمپنیاں عدالتی کارروائی کی پیچیدگیوں کو اپنے حق میں اس طرح استعمال کرتی ہیں کہ کسانوں کے لئے اپنا دعویٰ ثابت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ان کے مطابق کمپنیوں کی کوشش ہوتی ہے کہ 'معاملے کو زیادہ سے زیادہ طول دیا جائے تا کہ کسان نا تو وقت پر سیڈ سرٹیفیکیشن ڈیپارنمنٹ کے پاس جا سکیں اور نا ہی عدالت کو اپنی فصل دکھا سکیں۔ فصل کا موسم گزرنے کے بعد اگر کسان عدالت میں چلا بھی جائے تو اس کے لیے اپنا نقصان ثابت کرنا مشکل ہوجاتا ہے'۔

محمد نعیم احمد کا یہ بھی کہا ہے کہ اگر کمپنیوں کو محسوس ہو کہ کسان کے پاس عدالت میں جانے کے لئے کافی ثبوت ہیں تو 'ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کسان کو کچھ نہ کچھ دے دلا کر معاملے کو عدالت سے باہر ہی ختم کردیا جائے'۔

پچھلے پانچ سال میں صارف عدالتوں کو جعلی بیجوں سے متعلق سیکڑوں شکایات موصول ہو چکی ہیں۔

 اس کے باوجود پنجاب میں صارفین کے لئے بنائی گئی عدالتوں میں بیجوں سے متعلق کئی سو مقدمے دائر ہیں۔ درحقیقت اگر پچھلے پانچ سالوں میں درج ہونے والے ایسے مقدمات کی تعداد پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہر سال ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

2019 میں دائر کیے گئے ایسے 423 مقدمات میں سے 143 ایسے ہیں جن کا تعلق بیجوں کے معیار سے ہے جبکہ 280 بیجوں کی خرید و فروخت میں ہیر پھیر جیسے معاملات سے متعلق ہیں۔

یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 16 جنوری 2021  کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔

تاریخ اشاعت 10 جنوری 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد آصف ریاض رپورٹر ہیں اور ان کا کام کھیت سے منڈی اور صارف تک زرعی شعبے کے جملہ امور اور مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔

سینٹ کے پیچیدہ طریقہ انتخاب کی آسان ترین وضاحت

فیصل آباد: کرسمس کے بعد ایسٹر پر بھی مسیحی ملازمین تنخواہوں سے محروم

گندم: حکومت خریداری میں سنجیدہ نہیں، کسانوں کو کم قیمت ملنے کا خدشہ

thumb
سٹوری

گولاڑچی کے بیشتر کسان اپنی زمینوں کے مالک کیوں نہیں رہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضا آکاش

مسکان مسیح کے والدین کی "مسکان" کس نے چھینی؟

معذوروں کے چہرے پر خوشیاں بکھیرتے کمپیوٹرائزڈ مصنوعی اعضا

thumb
سٹوری

کیا قبائلی اضلاع میں سباون سکولز انشی ایٹو پروگرام بھی فلاپ ہو جائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
thumb
سٹوری

ضلع میانوالی کے سرکاری کالجوں میں طلباء کی تعداد کم کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفیصل شہزاد

ڈیجیٹل امتحانی نظام، سہولت یا مصیبت؟

سندھ: ہولی کا تہوار، رنگوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

thumb
سٹوری

پانی کی تقسیم پر آگ کا کھیل: ارسا آرڈیننس، سندھ، پنجاب کی تکرار کو جھگڑے میں بدل سکتا ہے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

وادی تیراہ میں کھاد کی ترسیل اور امن و امان کے درمیان کیا تعلق ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.