اترتا، چڑھتا پارہ اور بے وقت کی برسات: گندم کے گھر جنوبی پنجاب میں پیداوار کا بحران کیا رنگ لائے گا؟

postImg

صہیب اقبال

postImg

اترتا، چڑھتا پارہ اور بے وقت کی برسات: گندم کے گھر جنوبی پنجاب میں پیداوار کا بحران کیا رنگ لائے گا؟

صہیب اقبال

حاصل خان بزدار ضلع ڈیرہ غازی خان کے علاقے چوٹی زیریں کے ایک چھوٹے کاشت کار ہیں۔ان کے خاندان کی خوراک اور معاش کا انحصار پانچ ایکڑ زمین کے ایک ٹکڑے پر ہے۔لیکن پچھلے دو سال سے وہ اس میں فکریں بو کر پریشانیاں کاٹ رہے ہیں۔

حاصل نے لوک سجاگ کو بتایا کہ انہوں نے پچھلے سال جو گندم کاشت کی تھی وہ سخت گرمی کی وجہ سے متاثر ہوئی تھی۔ اس بار سخت گرمی سے بچنے کے لیے انہوں نے اسے اپنے معمول سے پہلے یعنی نومبر کے شروع میں ہی کاشت کیا تھا لیکن ان کی یہ تدبیر بھی الٹی پڑ گئی۔ اس بار ان کی تیار فصل کو مارچ کی بارش اور ژالہ باری نے برباد کر دیا۔

ان کو خدشہ ہے کہ ان کی فی ایکڑ پیداوار میں پانچ سے سات من تک کی کمی ہو جائے گی۔

ایسا ہی بپتا ملتان کے محمد رمضان کی بھی ہے۔ نواحی علاقے ساہی چاون میں ان کی آٹھ ایکڑ پر کھڑی گندم تباہ ہو چکی ہے۔"بارش اور ژالہ باری اس وقت ہوئی جب سٹے میں دانے بن رہے تھے"۔

رمضان کا خیال ہے کہ اب ان کا فصل پر ہونے والا خرچ بھی پورا نہ ہو پائے گا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ایک ایکڑ گندم پر ان کا 60 ہزار روپیہ خرچ ہوچکا ہے جبکہ کٹائی، تھریشر اور اسے سرکاری خریداری مرکز تک پہنچانے کے اخراجات ابھی باقی ہیں۔ "یہ کل ملا کر ایک لاکھ روپے فی ایکڑ تک جا پہنچے گا"۔

حکومت پنجاب نے اس بار گندم کی سرکاری/امدادی قیمت تین ہزار 900 روپے فی من مقرر کی ہے یعنی اگر فی ایکڑ پیداوار 26 من آئے اور یہ سرکاری قیمت پر بک جائے تو کاشت کے صرف اخراجات پورے ہوتے ہیں۔

گذشتہ سال پاکستان بھر میں گندم کی اوسط پیداوار 30 من فی ایکڑ کے قریب تھی۔ اس میں کمی کا سیدھا مطلب تو یہی ہے کہ کاشتکاروں کو گندم سے کوئی آمدن نہیں ہوگی۔

لیکن معاملہ اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے کیونکہ جنوبی پنجاب کے گندم کے کاشتکاروں کو ہونے والے نقصان کا خمیازہ پورے ملک کو بھگتنا پڑے گا۔

جنوبی پنجاب کی گندم زیادہ اہم کیوں ہے؟

جنوبی پنجاب کے چار ڈویژن (بہاولپور، ڈیرہ غازی خان، ملتان اور میانوالی) ملک کا وہ واحد خطہ ہیں جو اپنی مقامی ضرورت سے زیادہ گندم پیدا کرتا ہے۔

<p>مارچ کی بارش اور ژالہ باری نے گندم کی فصل کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے<br></p>

مارچ کی بارش اور ژالہ باری نے گندم کی فصل کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے

2017ء تک پاکستان گندم میں خودکفیل تھا لیکن گذشتہ پانچ سالوں میں ملکی پیداوار ضرورت سے کم رہی ہے۔ 2022ء میں ملک میں گندم کی طلب دو کروڑ 92 لاکھ ٹن اور پیداوار اس سے 28 لاکھ ٹن کم تھی۔

پیداور اور طلب/ضرورت کی علاقائی تقسیم کچھ اس طرح تھی۔

گذشتہ سال سندھ نے اپنی ضرورت کے نصف گندم پیدا کی تھی، پختونخوا نے ایک چوتھائی اور بلوچستان نے دو تہائی۔

پنجاب واحد صوبہ ہے جو اپنی ضرورت سے زائد گندم پیدا کرتا ہے لیکن پنجاب کی اضافی پیداوار بھی جنوبی پنجاب کے چار ڈویژن میں ہی مرکوز ہے۔

2022ء میں پنجاب نے دو کروڑ ٹن سے زائد گندم پیدا کی تھی جس میں سے نصف حصہ جنوبی پنجاب کے چار ڈویژن کا تھا اور باقی نصف دیگر سات ڈویژن کا تھا۔

وسطی اور شمالی پنجاب کے سات ڈویژن میں گندم کی طلب ایک کروڑ پانچ لاکھ ٹن تھی اور پیداوار اس سے ساڑھے سات لاکھ ٹن کم تھی۔ البتہ جنوبی پنجاب نے اپنی ضرورت سے دو گنا زائد گندم پیدا کی تھی۔ ان چار ڈویژن کی گندم کی اپنی طلب 55 لاکھ ٹن تھی جبکہ پیداوار ایک کروڑ تین لاکھ ٹن تھی۔

گویا جنوبی پنجاب کی پیداوار اس کی ضرورت سے 48 لاکھ ٹن زیادہ تھی جبکہ باقی ملک کی پیداوار اس کی ضرورت سے 76 لاکھ ٹن کم تھی۔

پورے ملک میں گندم کی کل کمی کا دوتہائی  جنوبی پنجاب کی اضافی پیداوار نے پورا کیا اور باقی 28 لاکھ ٹن ہمیں بیرونی ممالک سے منگوانی پڑی۔

اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اس سال جنوبی پنجاب میں گندم کی پیداوار میں کمی سے ہمارا درآمد شدہ گندم پر انحصار بڑھ جائے گا جو موجودہ ملکی مالی صورتِ حال اور خاص طور پر ڈالر کی کمیابی کے تناظر میں ایک کٹھن کام ہو گا۔

نقصان کا گھیرا اور گہرائی

سیکرٹری زراعت جنوبی پنجاب ثاقب علی عطیل تصدیق کرتے ہیں کہ ملتان اور ڈی جی خان ڈویژن سمیت جنوبی پنجاب میں زیر کاشت 68 لاکھ ایکڑ میں سے تین لاکھ ایکڑ  گندم کی فصل حالیہ بارشوں اور ژالہ باری سے متاثر ہوچکی ہے۔

ان کے مطابق ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں چوٹی زیریں (جو حاصل بزدار کا علاقہ ہے) مظفر گڑھ میں مراد آباد، جتوئی اور روہیلانوالی، کوٹ ادو اور راجن پور کے بعض علاقے شدید متاثر ہوئے ہیں۔

<p>رواں سال میں پورے ملک میں گندم کے زیر کاشت رقبے میں تقریباً 14 لاکھ ایکڑ کمی واقع ہوئی ہے<br></p>

رواں سال میں پورے ملک میں گندم کے زیر کاشت رقبے میں تقریباً 14 لاکھ ایکڑ کمی واقع ہوئی ہے

ملتان ڈویژن میں ساہی چاون ( جو محمد رمضان کا علاقہ ہے)، بستی ملوک، شجاع آباد، چھ ٹرپائی، ضلع خانیوال کی تحصیلوں جہانیاں اور کبیر والہ کے نواحی علاقوں ٹھٹھہ صادق آباد اور سلار وہن، ضلع وہاڑی میں دانے وال، میلسی کے نواحی علاقے، ضلع لودھراں کی تحصیل دنیا پور اور میاں پور، قطب پور میں بارش نے فصل کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔

اس غیر معمولی موسم نے پورے پنجاب میں ہی گندم کی فصل کو نقصان پہنچایا ہے۔ یعنی جو اضلاع پہلے ہی اپنی ضرورت کے برابر یا اس سے کم گندم پیدا کر رہے تھے وہ اب اپنی ضرورت سے کہیں کم پیدا کر پائیں گے۔

فصلوں کے زیر کاشت رقبے اور پیداوار کا تخمینہ لگانے والے محکمہ زراعت پنجاب کے ذیلی ادارے کراپ رپورٹنگ سروس نے 25 مارچ کو ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ پورے صوبے میں بارش اور ژالہ باری سے چھ لاکھ 91 ہزار ایکڑ رقبے پر لگی گندم کی فصل متاثر ہوئی ہے۔

جس کی وجہ سے کسانوں کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا ہے۔

اس رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ اب متاثرہ رقبے کی فی ایکڑ پیداوار چھ من تک کم ہوسکتی ہے۔

پریشانیوں کا یہ سلسلہ یہاں تھما نہیں۔

پیداوار کی اسی غیریقینی کے باعث پنجاب میں پچھلے سال کے نسبت رواں سال میں گندم دو لاکھ ایکڑ رقبہ کم پر کاشت ہوئی ہے جبکہ پورے ملک میں گندم کے زیر کاشت رقبے میں تقریباً 14 لاکھ ایکڑ کمی واقع ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

'اب جانور بھوکے ہیں اور میری جیب خالی ہے': منڈی بہاو الدین میں ژالہ باری نے گندم کی فصل کے ساتھ کسان کو بھی اجاڑ دیا

زیرکاشت رقبے اور فی ایکڑ پیداوار میں کمی کے تخمینوں کے مطابق اس بار پاکستان کو کم از کم 50 لاکھ ٹن گندم بیرون ملک سے منگوانا پڑے گی۔

نواز شریف زرعی یونیورسٹی کے شعبہ تدریس سے وابستہ پروفیسر اور زرعی ماہر  ڈاکٹر حافظ محمد محکم کو ڈر ہے کہ اگر مزید بارش ہوگئی تو کسانوں کی بچی کھچی محنت پر بھی پانی پھر جائے گا۔

ان کے بقول حالیہ بارشوں اور ژالہ باری سے جو فصل گر چکی ہے۔ اس پر مزید بارش کے نتیجے میں سٹے میں دانہ جو پہلے ہی کمزور ہوچکا ہوگا ہو گل جائے گا۔ جو کچھ دانے بچ جائیں گے وہ کٹائی کے دوران زمین پر گر جائیں گے۔

حاصل بزدار کہتے ہیں: "میرے پاس اس بچی کچھی گندم کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ اب مزید بارش ہوگئی تو پھر سال بھر اپنے خاندان کو کہاں سے کھلاؤں گا؟"

تاریخ اشاعت 2 اپریل 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

صہیب اقبال عرصہ دس سال سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں مختلف اخبارات میں کالم اور فیچر لکھتے ہیں اور چینلز کے لیے رپورٹنگ کرتے ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.