رائمہ بتول اپنی جماعت میں ہمیشہ پہلی پوزیشن لیتی تھیں۔جب انہیں پیٹ کی بیماریوں اور ہپاٹائٹس کی تشخیص ہوئی تو اس وقت ان کی عمر آٹھ سال تھی۔
ہپاٹائٹس جگر کی بیماری کو کہتے ہیں۔اس میں جگر سوج جاتا ہے اور خون صاف کرنے کا کام پوری طرح نہیں کر پاتا۔
رائمہ بتول کی والدہ آسیہ بتول نارووال پبلک سکول میں بطور آیا کام کرتی ہیں۔
انہوں نے سجاگ کو بتایا کہ پانچ سال پہلے رائمہ اکثر پیٹ درد، بھوک کی کمی اور قے کی شکایت کرتی تھیں۔ پہلے ان کا مختلف ڈاکٹروں سے علاج چلتا رہا پھر تکلیف میں شدت کی وجہ سے انہیں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال منتقل کردیا گیا۔
"ڈاکٹروں نے رائمہ کو مختلف دوائیں دیں اور انجکشن لگائے مگر کوئی افاقہ نہ ہوا۔ وہ شدید تکلیف سے تڑپتی رہیں"۔
چار دن بعد رائمہ کا انتقال ہو گیا۔
آسیہ بتاتی ہیں کہ ڈاکٹروں کے بقول انہیں یہ بیماری آلودہ پانی پینے سے لاحق ہوئی تھی۔
جیلانی کالونی کی 35 سالہ نرگس بھی کئی سال سے ہر روز کھانا کھانے کے بعد پیٹ میں درد اور قے کی شکایت کے ساتھ شہر بھر کے ڈاکٹروں اور حکیموں کے پاس علاج کرواتی رہی تھیں لیکن انہیں کوئی افاقہ نہیں ہو رہا تھا۔
ایک دن اپنی عزیزہ کے مشورے پر وہ میڈیکل سپیشلسٹ کے پاس چلی گئیں۔
ڈاکٹر نے نرگس کا تفصیلی چیک اپ کیا اور ٹیسٹ بھی کروائے جن کی رپورٹوں سے انکشاف ہوا کہ وہ معدے اور جگر کے امراض میں مبتلا ہیں۔
ڈاکٹر نے انہیں سرکاری نلکے کا پانی پینے سے روک دیا اور فلٹریشن پلانٹ سے پانی لا کر استعمال کرنے کا مشورہ دیا۔
ڈاکٹر نے بتایا کہ میونسپل کمیٹی نارووال کی طرف سے گھروں کو سپلائی کیا جانے والا پینے کا پانی آلودہ ہونے کی وجہ سے نرگس کی ایسی حالت ہوئی ہے۔
دو لاکھ آبادی پر مشتمل نارووال شہر پینے کے صاف پانی جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہے۔
یہاں کے لوگوں کو پینے کا صاف پانی مہیا کرنے کے لیے 1972ء میں زیر زمین واٹر سپلائی پائپ لائن بچھائی گئی تھی۔ اکاون سال قبل بچھائی گئے یہ پائپ جگہ جگہ سے ٹوٹ چکے ہیں اور صاف پانی میں سیوریج کا پانی شامل ہو رہا ہے۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال کا حلقہ انتخاب بھی نارووال ہے۔ انہوں نے شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے لیے 2014ء میں 18 کروڑ 50 لاکھ روپے کی لاگت سے واٹر سپلائی سکیم شروع کی تھی۔
اس مقصد کے لیے پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ نے شہر کو آٹھ حصوں میں تقسیم کیا۔ ہر زون میں ایک واٹر پمپ ہاؤس بنایا جانا تھا جہاں سے گھروں تک پائپ لائن بچھائی جانا تھی۔ منصوبے کی تکمیل کے لیے دو سال کا وقت مقرر کیا گیا۔
1972 میں بنائی گئی واٹر سپلائی پائپ لائن جگہ جگہ سے ٹوٹ چکی ہے جس میں سیوریج کا پانی شامل ہو رہا ہے
نارووال چار یونین کونسلوں پر مشتمل ہے اور پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ نے پہلے مرحلے میں یونین کونسل نمبر چار میں کام شروع کرتے ہوئے میونسپل کمیٹی آفس سے ملحقہ احاطے میں ڈیپ ویل لگایا اور شہر کے محلہ اسلام پورہ، محمد پورہ کھجور والی گلی سمیت دیگر علاقوں میں زیر زمین پائپ لائن بچھائی اور شہریوں کو کنکشن فراہم کردیے۔ یہ کام 2014ء میں شروع ہو کر 2015ء میں مکمل ہو گیا تھا۔
محکمے نے دیگر یونین کونسل میں بھی واٹر زون پر کام شروع کروایا مگر 2016ء میں مالی وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے وہاں کام روک دیا گیا۔ اس طرح ان علاقوں کے لوگوں کو یہ سہولت میسر نہ آ سکی۔
برگزیدہ بٹ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ میں ایس ڈی او ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس منصوبے کے لیے 10 سال میں صرف 116 ملین روپے جاری کیے گئے جبکہ ایک دہائی پہلے اس پر اٹھنے والی لاگت کا تخمینہ 18 کروڑ 50 لاکھ روپے لگایا گیا تھا۔
"اب اس منصوبہ کی تکمیل پر کل لاگت سے دو گنا زیادہ خرچ ہو گا"۔
وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ اس منصوبے کی تکمیل میں بدانتظامی کا بھی اہم کردار ہے۔
"منصوبے کے تحت شہر کو آٹھ زون میں تقسیم کیا گیا تھا۔ایک زون کے علاوہ باقی میں واٹر پمپ لگانے اور پمپ ہاؤس تعمیر کرنے کے لیے نہ تو زمین مختص کی گئی اور نہ ہی خریدی گئی تھی"۔
نارووال شہر کی 65 فیصد آبادی کو میونسپل کمیٹی کی طرف سے پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ بعض لوگوں نے گھروں میں واٹر پمپ لگوا لیے ہیں جبکہ بہت بڑی تعداد فلٹریشن پلانٹ سے پانی حاصل کرتی ہے۔
جیلانی کالونی کے 45 سالہ امجد علی مزدور پیشہ ہیں۔ وہ روزانہ فلٹریشن پلانٹ سے پانی بھرتے ہیں۔
"سارا دن سخت مزدوری کے بعد رات کو پانی بھرنے جب فلٹریشن پلانٹس جاتا ہوں تو وہاں لمبی قطاریں دیکھ کر ہمت جواب دے جاتی ہے"۔
انہوں نے بتایا اس طرح پینے کا صاف پانی تو مل جاتا ہے لیکن کھانے اور نہانے کے لیے کمیٹی کے نل سے آنے والے گندے بدبودار پانی سے کام چلانا پڑتا ہے۔
ڈپٹی کمشنر محمد اشرف کہتے ہیں کہ حکومت کی تبدیلی اور فنڈز کی عدم دستیابی پر واٹر سپلائی کا منصوبہ تباہ و برباد ہو چکا ہے۔
"سکیم کی دوبارہ منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ البتہ جاری منصوبے پر انتظامیہ جو کچھ ہو سکا ضرور کرے گی۔''
یہ بھی پڑھیں
پیاس جب بڑھتی ہے تو ڈر لگتا ہے پانی سے: حیدرآباد میں آلودہ پانی کے استعمال سے بیماریوں اور اموات میں اضافہ۔
میونسپل کمیٹی کے چیف آفیسر ریحان سلیم کہتے ہیں کہ پرانی پائپ لائن کی مرمت کروانا ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے لیے میونسپل کمیٹی نے شہر میں 13 واٹر فلٹریشن پلانٹ لگا رکھے ہیں۔
آلودہ پانی پینے سے شہر میں جگر کے مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال کے مطابق 22-2021 میں 26 ہزار 320 مریضوں کا معائنہ کیا گیا تھا جن میں سات ہزار 533 مریض جگر کی مختلف بیماریوں میں مبتلا پائے۔
نرگس کا علاج کرنے والے ڈاکٹر شیراز کا کہنا ہے کہ شہری فلٹریشن پلانٹ کا پانی استعمال کرکے ایسے امراض سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
ایسوسی ایشن آف ہیومن رائٹس نارووال کے نائب صدر میاں محمد رفیق کہتے ہیں کہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی حکومت کی اولین ذمہ داری اور شہریوں کا بنیادی حق ہے۔ نارووال شہر کے لیے 13 فلٹریشن پلانٹ بہت کم ہیں۔ یا تو انتظامیہ صاف پانی کی سکیم مکمل کرے یا فلٹریشن پلانٹس کی تعداد بڑھائی جائے۔
تاریخ اشاعت 11 مارچ 2023