کوئی بھی رُت ہو ملی ہے دکھوں کی فصل ہمیں: 'گزشتہ دو دہائیوں میں بلوچستان میں آب پاشی کے لیے بنائے گئے آدھے کاریز خشک ہو گئے ہیں'۔

postImg

رفیع اللہ مندوخیل

postImg

کوئی بھی رُت ہو ملی ہے دکھوں کی فصل ہمیں: 'گزشتہ دو دہائیوں میں بلوچستان میں آب پاشی کے لیے بنائے گئے آدھے کاریز خشک ہو گئے ہیں'۔

رفیع اللہ مندوخیل

مولوی میرا خان کی آلو کی فصل پانی کی کمی کے باعث خراب ہو گئی ہے جس کی وجہ سے انہیں بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ 

انہوں نے اِس سال مارچ میں لگ بھگ تین لاکھ روپے خرچ کر کے تین ایکڑ اراضی پر آلو کاشت کیے تھے جس سے انہیں تقریباً ایک سو 50 من (چھ ہزار کلو گرام) فی ایکڑ پیداوار کی توقع تھی۔ ان کا خیال تھا کہ اس فصل کو بیچ کر وہ تقریباً سات لاکھ روپے کما سکیں گے لیکن ان کی تمام توقعات دھری کی دھری رہ گئی ہیں کیونکہ ان کی فصل کو افزائش کے لیے درکار پانی ہی نہیں مل سکا۔    

بلوچستان کے شمال مغربی ضلع ژوب کے گاؤں کلی گردہ بابر میں رہنے والے 50 سالہ میرا خان کا خاندان کئی پشتوں سے کاشتکاری کرتا چلا آ رہا ہے جس کے لیے وہ کاریزوں کا پانی استعمال کرتے ہیں جو دراصل زمین دوز نالیاں ہیں جن کے ذریعے پہاڑوں کی چوٹیوں پر یا ان کے دامن میں واقع قدرتی چشموں کا پانی فصلوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ یہ نالیاں سطحِ زمین پر بنے کنوؤں کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑی ہوتی ہیں جو ان میں بہنے والے پانی کو ہوا اور روشنی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں صاف ستھرا رکھنے کے لیے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ آب پاشی کے اس طریقے سے نہ صرف پانی کو بخارات بن کر اڑنے سے بچایا جا سکتا ہے بلکہ اسے ٹھنڈا اور گردوغبار سے محفوظ بھی رکھا جا سکتا ہے۔ 

لیکن پچھلی ایک دہائی میں خشک سالی کے متعدد ادوار کے باعث بلوچستان کے شمال مغربی اضلاع میں واقع کاریزوں میں پانی کی مقدار بہت کم ہو گئی ہے۔ یہاں تک کہ ان میں سے کئی ایک خشک بھی ہو گئے ہیں۔ ان میں ژوب کے ضلعی صدر مقام سے 17 کلو میٹر شمال مشرق میں واقع کلی گردہ بابر میں موجود 10 کاریز بھی شامل ہیں۔ 

چونکہ تقریباً 10 ہزار آبادی پر مشتمل اس گاؤں کے بیشتر مکینوں کا ذریعہ معاش زراعت اور گلہ بانی ہے جن کے لیے ہی وہ انہی کاریزوں کے پانی پر انحصار کرتے ہیں اس لیے ان کے خشک ہو جانے سے مقامی لوگوں کا روزگار بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔

یہاں رہنے والے 75 سالہ قطب خان اس مسئلے کی ایک اور وجہ کی نشان دہی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "کاریزوں کو خشک ہونے سے بچانے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ ان کی باقاعدگی سے صفائی کی جائے اور انہیں کشادہ رکھا جائے۔  یہی وجہ ہے کہ ہمارے آباؤاجداد راتوں کو لالٹین کی روشنی میں ہاتھوں اور کدالوں سے یہ کام کرتے تھے"۔ لیکن، ان کے مطابق، "اب جدید مشینری دستیاب ہونے کے باوجود مقامی کاشت کار اس جانب توجہ نہیں دیتے جس سے کاریزوں میں پانی کے بہاؤ کی گنجائش ماضی کی نسبت بہت کم ہو گئی ہے"۔

اسی گاؤں کے رہنے والے 65 سالہ مولوی صالح کا بھی یہی کہنا ہے۔ وہ اپنی زمین پر گندم، جَو، پیاز، بھنڈی، کدو اور دیگر سبزیاں اگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ "بہت سا پانی ٹوٹے پھوٹے اور خستہ حال کاریزوں کے اندر ہی ضائع ہو جاتا ہے"۔ اس لیے وہ تجویز کرتے ہیں کہ ان کے اختتامی سروں پر پکے تالاب بنائے جائیں اور ان سے پکی نالیاں نکال کر زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کا بندوبست کیا جائے تاکہ "پانی کا ضیاع روکا جا سکے"۔ 

تاہم کاریزوں کے بحالی کے اس جیسے واضح اور مربوط لائحہ عمل کی عدم موجودگی میں لوگ ایسے حل تلاش کر رہے ہیں جو مہنگے ہونے کے ساتھ ساتھ ناپائیدار بھی ہیں۔ ژوب کے رہنے والے ایک نوجوان نجیب اللہ کے مطابق حالیہ بارشوں سے پہلے کئی مقامی کاشت کاروں نے ایک برساتی ندی کے کنارے 20 سے 30 فٹ گہرے گڑھے کھودے تاکہ وہ ان میں جمع ہونے والے پانی کو ٹیوب ویلوں کی مدد سے اپنی زمینوں تک لے جا سکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "اس طریقے سے فصلیں تو سیراب ہو گئیں لیکن اس میں بہت سا وقت، پیسہ اور محنت خرچ ہوئے"۔

کاریز بنائیں، زراعت بچائیں

کاریز کا آغاز تقریباً تین ہزار سال پہلے ایران میں ہوا تھا۔ اس کی نادر انجینئرنگ کی وجہ سے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور ثقافت (یونیسکو) نے 2016 میں اسے عالمی تعمیراتی ورثے کی فہرست میں بھی شامل کر لیا ہے۔  

کاریز کسی کی نجی ملکیت نہیں ہوتے بلکہ ان کی تعمیر اور استعمال دونوں اجتماعی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ ان میں بہنے والا پانی بھی ان سے سیراب ہونے والے علاقے کی مشترکہ ملکیت ہوتا ہے اس لیے ان کی مرمت اور صفائی ستھرائی بھی اس علاقے میں رہنے والے سبھی لوگوں کی مشترکہ ذمہ داری ہوتی ہے۔

بلوچستان کے محکمہ زراعت کے ڈائریکٹر محمد انور دوتانی کا کہنا ہے کہ ان کے محکمے کے ریکارڈ کے مطابق قیام پاکستان کے وقت بلوچستان میں چھ ہزار کاریز تھے۔ تاہم، ان کے مطابق، "گزشتہ دو دہائیوں میں ان میں سے تقریباً نصف ختم ہو گئے ہیں"۔

قطب خان سمجھتے ہیں کہ اس صورتِ حال کہ ذمہ داری محض خشک سالی پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ ان کے خیال میں بارشوں میں کمی کے علاوہ کچھ دیگر عوامل نے بھی مقامی کاریزوں کو متاثر کیا ہے جن میں سب سے نمایاں آبادی میں اضافہ ہے۔ ان کے بقول "مقامی آبادی کے بڑھنے سے زیرِکاشت رقبے میں اضافہ ہو گیا ہے جس سے پانی کی طلب اس کی رسد کے مقابلے میں بہت بڑھ گئی ہے"۔

ژوب سے تعلق رکھنے والے زرعی امور کے ماہر ازمیر خان بھی ان سے متفق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "خشک سالی، بڑھتی ہوئی آبادی اور دیہات سے شہروں کی طرف آبادی کی نقل مکانی کے باعث بلوچستان کے قدرتی ماحول اور آبی وسائل پر شدید منفی اثرات پڑ رہے ہیں"۔ ان اثرات کا ایک اہم نتیجہ یہ نکلا ہے کہ "بڑی تعداد میں کاریز خشک ہوگئے ہیں اور جو باقی بچے ہیں وہ بھی ختم ہونے کو ہیں"۔ 

تاہم محمد انور دوتانی کی نظر میں ان کے خشک ہو جانے کی وجہ کچھ اور بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ''قیام پاکستان سے پہلے کاریزوں کے قریب کنوؤں کی تعمیر ممنوع تھی تاکہ اُن کی وجہ سے زیرِزمین پانی کی سطح نیچے نہ جائے اور کاریزوں میں پانی کے بہاؤ پر کوئی منفی اثر نہ پڑے"۔ لیکن، ان کے مطابق، "اب کاشت کاروں نے آب پاشی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے جا بجا ٹیوب ویل لگا لیے ہیں حالانکہ ان پر پابندی کا قانون اب بھی موجود ہے"۔ 

ان کا کہنا ہے کہ ژوب کے نواحی ضلع "قلعہ سیف اللہ میں ہی تین ہزار سے زیادہ ٹیوب ویل لگے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے زیرِزمین پانی کی سطح بہت نیچے چلی گئی ہے اور نتیجتاً کاریزوں کے ماخذ کے طور پر کام کرنے والے قدرتی چشمے خشک ہو گئے ہیں"۔

ان کے خیال میں اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ مزید "ٹیوب ویل لگانے کے بجائے کاریزوں کے نظام کو بحال کیا جائے"۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے "نہ صرف زراعت کے لیے درکار پانی کی کمی کا مسئلہ حل ہو جائے گا بلکہ زیرزمین پانی کی سطح کو بھی مزید نیچے جانے سے روکا جا سکے گا"۔ 

ایک غیرسرکاری تنظیم، بلوچستان رورل سپورٹ پروگرام، نے یہی کیا ہے۔ 2014 میں اس نے نے ژوب کے ایک گاؤں کے لوگوں کو مالی اور تکنیکی امداد فراہم  کی تاکہ وہ ایک مقامی کاریز کو پختہ کر سکیں۔ اس کے اہل کار نقیب اللہ کہتے ہیں کہ اس سے نہ صرف کاریز میں پانی کی مقدار میں اضافہ ہو گیا بلکہ یہ پانی دور دراز زمینوں تک بھی پہنچنے لگا۔ اسی تجربے کی بنا پر ان کا کہنا ہے کہ "اگر ژوب میں موجود تمام کاریز فعال ہو جائیں تو اس ضلعے کی موجودہ زرعی اراضی کو سیراب کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے تل نامی علاقے میں پڑی ایک لاکھ دس ہزار ایکڑ بنجر اراضی کو بھی قابل کاشت بنایا جا سکتا ہے"۔

تاریخ اشاعت 8 ستمبر 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

رفیع اللہ مندوخیل گزشتہ بارہ سال سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ اس دوران وہ انڈیپنڈنٹ اردو، وائس آف امریکا، ڈان، ایکپسریس ٹریبیون، فرنٹیئرپوسٹ، پاکستان آبزرور، بلوچستان ٹائمز، نوائے وقت اور روزنامہ نئی بات کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.