پورے ضلع صحبت پور میں ایک لیڈی ڈاکٹر: 'ایسا نہ ہوتا تو بیٹی کے سر پر ماں کا سایہ سلامت ہوتا'

postImg

رضوان الزمان منگی

postImg

پورے ضلع صحبت پور میں ایک لیڈی ڈاکٹر: 'ایسا نہ ہوتا تو بیٹی کے سر پر ماں کا سایہ سلامت ہوتا'

رضوان الزمان منگی

صحبت پور کے شوکت علی اپنے خاندان کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے کہ ان کی اہلیہ بچی کو جنم دینے کے بعد طبی پیچیدگیوں کے باعث دم توڑ گئیں اور ان کی دنیا اندھیر ہو گئی۔

شوکت موٹر سائیکل مکینک ہیں۔ ان کا گھر بلوچستان کے ضلع صحبت پور کی تحصیل مانجھی پور میں ہے لیکن وہ کوئٹہ میں کام کرتے ہیں۔ تقریباً پانچ سال پہلے ان کی اہلیہ پہلی مرتبہ امید سے ہوئیں تو وہ انہیں معمول کے معائنے کے لیے مانجھی پور کے بنیادی مرکز صحت میں لے جاتے تھے۔ تاہم وہاں سہولتوں کے فقدان کے باعث ان کی اہلیہ نے 45 کلومیٹر دور جیکب آباد کے ہسپتال میں چیک اپ کرانا شروع کر دیا۔

15 مارچ 2020ء کی صبح جب بچے کی پیدائش کا وقت آیا تو شوکت کوئٹہ میں تھے۔ شوکت کے والدین ان کی اہلیہ کو فوری طور پر ایک پرائیویٹ گائنی کلینک میں لے گئے جہاں ایمرجنسی میں ان کی ڈلیوری ہوئی۔

شوکت بتاتے ہیں کہ رات گئے انہیں  گھر سے فون پر اطلاع دی گئی کہ ان کی اہلیہ کی طبعیت اچانک خراب ہوگئی ہے۔

"ڈلیوری کے دوران زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے اہلیہ کی طبعیت بگڑتی چلی گئی۔ میرے والدین انہیں لے کر جیکب آباد روانہ ہوئے لیکن اس نے راستے میں ہی دم توڑ دیا۔''

مانجھی پور کے سرکاری مراکز صحت میں ایمرجنسی، لیبر روم اور بنیادی نوعیت کے لیبارٹری ٹیسٹوں کی سہولت کا فقدان ہے۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ وہاں کوئی لیڈی ڈاکٹر ہی نہیں ہے۔ مانجھی پور تو ایک طرف، پورے ضلع صحبت پور میں ڈھنگ کا کوئی ذچہ بچہ مرکز نہیں ہے جس کی وجہ سے خواتین کو حمل اور بیماری میں کڑی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ ان حالات میں بیشتر خواتین جیکب آباد کے ہسپتالوں کا رخ کرتی ہیں۔

بچے کی پیدائش کے لیے زیادہ تر خواتین گھریلو دائیوں پر انحصار کرتی ہیں جبکہ کسی پیچیدگی یا ایمرجنسی کی صورت میں وہ بھی مریضہ کی مدد نہیں کر سکتیں۔

امیر بخش بروہی چھوٹے پیمانے پر کاشتکاری کرتے ہیں۔ وہ مانجھی پور سے تقریبا تین کلومیٹر کے فاصلے پر گوٹھ ملیر میں اپنی اہلیہ پیروزاں اور 26 سالہ بیٹے علی گل کے ساتھ رہتے ہیں۔

چند سال پہلے ان کی اہلیہ کی طبعیت بہت زیادہ خراب ہو گئی۔ وہ دو برس تک مقامی ڈاکٹروں سے علاج کراتے رہے لیکن افاقہ نہ ہوا۔ بالاآخر انہوں ںے جیکب آباد کے ایک نجی ہسپتال میں چیک اپ کروایا تو ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کی اہلیہ کی بیضہ دانی میں گلٹیاں بن گئی ہیں۔

ڈاکٹروں کے مشورے پر انہوں نے اپنی اہلیہ کا آپریشن کروا لیا لیکن اب ان کے پیٹ میں دوبارہ گلٹیاں بننے لگی ہیں۔

"میری بیوی دن رات درد سے تڑپتی رہتی ہے۔ جب درد ناقابل برداشت ہوتا ہے تو ہم قصبے کے بنیادی مرکز صحت پر جاتے ہیں جہاں ہمیں درد کش دوا دے کر رخصت کر دیا جاتا ہے۔''

 امیر بخش کہتے ہیں کہ مانجھی پور میں کوئی اچھا ہسپتال نہیں ہے اور وہ اپنی بیوی کو کسی بڑے شہر کے ہسپتال میں لے جا کر اس کا علاج کرانے کی سکت نہیں رکھتے۔

گزشتہ سال اگست میں آنے والے سیلاب میں صحبت پور بری طرح متاثر ہوا جہاں ہزاروں ایکڑ زری اراضی برباد ہو گئی۔ امیر بخش بھی سیلاب سے متاثرہ کاشتکاروں میں شامل ہیں جو چھ ماہ تک سیلابی پانی جمع رہنے کے باعث اپنی زمین کو بحال نہیں کر سکے اور مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ ان حالات میں وہ اپنی بیوی کی حالت دیکھ کر کڑھنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

اپنا شریکِ درد بنائیں کسی کو کیا: چھاتی کے کینسر میں مبتلا خواتین کیسے گھٹ گھٹ کر مر رہی ہیں۔

صحبت پور کو 2013 میں ضلع کا درجہ دیا گیا تھا اور اس وقت شہر کی آبادی تقریباً دو لاکھ ہے۔ ضلع میں 26 بنیادی مراکز صحت، سات سول ڈسپنسریاں اور ایک ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال ہے جس کی عمارت تک نہیں بن سکی اور اسے ایک پرانے مرکز صحت کی عمارت میں چلایا جا رہا ہے۔

 محکمہ صحت کے مطابق 26 بنیادی مراکز صحت میں صرف جھنڈا تالاب کے مرکز پر ایک لیڈی ڈاکٹر تعینات ہے اور باقی جگہوں پر کوئی خاتون ڈاکٹر یا گائناکالوجسٹ نہیں ہوتی۔

شہر کے دور دراز علاقوں میں اگر کسی مریض کی حالت خراب ہو تو اسے سندھ کے شہروں میں ریفر کرنا پڑتا ہے جبکہ صحبت پور سٹی کے علاوہ کسی بنیادی مرکز صحت میں ایمرجنسی کی سہولت نہیں ہے۔ ایسے میں بہت سے مریض دوسرے ہسپتالوں کو جاتے ہوئے راستے میں دم توڑ جاتے ہیں جن میں بڑی تعداد حاملہ خواتین کی ہوتی ہے۔

غلام محمد مہر میڈیکل کالج سکھر کے ڈاکٹر محمد عمران سومرو کا کہنا ہے کہ بچے کی پیدائش کے دوران زیادہ خون بہہ جانا اور پیدائش میں تاخیر کے نتیجے میں جسم میں زہر کا پھیلنا زچہ کی زندگی کے لیے شدید خطرات کا باعث ہوتا ہے۔

زچگی میں خواتین کے علاج  کے لیے کوالیفائیڈ لیڈی ڈاکٹر اور ایسے میٹرنٹی ہوم کا ہونا ضروری ہے جہاں چوبیس گھنٹے آپریشن کی سہولت، نومولود بچوں کے لیے آکسیجن، انکیوبیٹر اور پیڈیاٹریشن کی سہولت موجود ہو۔

شوکت علی کی بیٹی کی عمر اب چار سال ہو گئی ہے۔ وہ حسرت بھرے لہجے میں کہتے ہیں کہ اگر مانجھی پور کے سرکاری ہسپتال میں بنیادی سہولیات میسر ہوتیں تو ان کی بیٹی کے سر پر ماں کا سایہ بھی سلامت ہوتا۔

تاریخ اشاعت 10 اپریل 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

رضوان الزمان منگی کا تعلق بلوچستان کے ضلع صحبت پور سے وہ 10 سالوں سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مختلف اداروں کیلئے کام کرتے رہے ہیں۔

thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

thumb
سٹوری

"ہماری عید اس دن ہوتی ہے جب گھر میں کھانا بنتا ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قصور کو کچرہ کنڈی بنانے میں کس کا قصور ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

افضل انصاری
thumb
سٹوری

چڑیاں طوطے اور کوئل کہاں غائب ہو گئے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنادیہ نواز

گیت جو گائے نہ جا سکے: افغان گلوکارہ کی کہانی

پاکستان کے پانی کی بدانتظامی اور ارسا کی حالیہ پیش رفت کے ساختی مضمرات: عزیر ستار

ارسا ترمیم 2024 اور سندھ کے پانیوں کی سیاست پر اس کے اثرات: غشرب شوکت

جامعہ پشاور: ماحول دوست شٹل سروس

خیبر پختونخوا: پانچ اضلاع کو جوڑنے والا رابطہ پُل 60 سال سے تعمیر کا منتظر

thumb
سٹوری

پرائیویٹ سکول میں تعلیم: احساس برتری یا کچھ اور ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.