بلوچستان کے ضلع کیچ کی تحصیل تربت میں خواتین کا پولیس سٹیشن قائم کیا گیا ہے جس میں لیڈی ایس ایچ او کی قیادت میں 47 اہلکار، خواتین کی شکایات سن کر ان پر کارروائی کریں گی۔ یہ صوبے میں اس طرح کا دوسرا پولیس سٹیشن ہے۔ اس سے پہلے بلوچستان میں خواتین کو یہ سہولت صرف کوئٹہ میں میسر تھی۔
تربت کی آبادی 10 لاکھ ہے۔ مکران ڈویژن کا سیاسی طور پر متحرک علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں خواتین کو بلوچستان کے قبائلی علاقوں کی طرح کڑی سماجی پابندیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ لیکن کم عمری کی شادی، گھریلو تشدد اور طلاق جیسے مسائل یہاں بھی عام ہیں اور تھانوں میں خواتین کی جانب سے درج کرائے گئے مقدمات کی شرح ایسے مسائل کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہے۔ اس پولیس سٹیشن کے قیام سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ اب کم از کم تربت اور گردونواح میں خواتین کے خلاف جرائم میں بڑی حد تک کمی آئے گی۔
اس پولیس سٹیشن کی ایس ایچ او میسرہ بلوچ بتاتی ہیں کہ علاقے میں خواتین کے لیے تھانے جانا اور خاص طور پر جنسی زیادتی یا ہراساں کیے جانے کی کھل کر شکایت درج کرانا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے تاحال خواتین کے اپنے خلاف ظلم پر تھانے جا کر شکایت درج کرانے کی مضبوط رویت نہیں رہی۔ اسی طرح گھریلو تشدد کے بھی بہت کم واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔
انہوں ںے کہا کہ خواتین کے لیے مخصوص پولیس سٹیشن کے قیام سے اس صورتحال میں تبدیلی کی توقع ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ خواتین کے اس تھانے کو ایک تربیتی مرکز کے طور پر بھی چلائیں گی جہاں خواتین کو ان کے قانونی حقوق کے حوالے سے رہنمائی دی جائے گی۔
یہ پولیس سٹیشن عطا شاد ڈگری کالج روڈ پر چلڈرن پارک کے سامنے قائم ہے۔ اس کے مرکزی دروازے پر چار پولیس اہلکار ڈیوٹی دیتے ہیں جبکہ چار دیواری کے اندر تمام عملہ خواتین پر مشتمل ہے۔ پولیس سٹیشن میں اہلکاروں کے چھوٹے بچوں کی نگہداشت کے لیے بے بی کیئر روم اور فیڈنگ روم بھی بنائے گئے ہیں۔

پولیس سٹیشن کے قیام کے بعد خواتین آسانی سے مقدمات درج کرا سکیں گی
مکران ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی رکن رضوانہ ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ علاقے میں طلاق، گھریلو تشدد اور کم عمری میں شادی کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ ایسے واقعات کی روک تھام یا خواتین کو ان مسائل پر بہتر داد رسی کے لیے اس مخصوص تھانے سے بہت مدد ملے گی۔
انہوں ںے بتایا کہ تربت میں طلاق اور خواتین پر تشدد کے تقریباً سو سے زیادہ مقدمات مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب عورتوں میں اپنے مسائل کا مقابلہ کرنے کا شعور بیدار ہو رہا ہے۔ خواتین کے مخصوص پولیس سٹیشن کے قیام کے بعد عام خواتین خود پر تشدّد یا بچیوں کی کم عمری میں زبردستی شادی پر آسانی سے مقدمات درج کرا سکیں گی۔
اس پولیس سٹیشن کی جانب سے لڑکیوں کے مقامی سکولوں میں طالبات کو تشدد اور ہراسانی کے خلاف آگاہی دینے کی مہم چلانے کی منصوبہ بندی بھی کی گئی ہے۔ خواتین پولیس اہلکار طالبات کو بتائیں گی کہ انہیں جنسی یا جسمانی تشدد اور ہراساں کیے جانے کے واقعات سے بچنے اور ایسے واقعات پیش آنے کی صورت میں قانونی کارروائی کے لیے کیا کرنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں

لب پہ رہ جاتی ہے آ آ کے شکایت میری: 'پولیس کے ڈر اور اس پر عدم اعتماد کے باعث خواتین خود پر ہونے والی تشدد کی رپورٹ درج نہیں کراتیں'۔
تربت میں انسانی حقوق کمیشن کی کارکن شہناز شبیر کہتی ہیں کہ پولیس سٹیشن کے قیام سے ہو سکتا ہے کہ خواتین کے لیے اپنی شکایات درج کرانا قدرے آسان ہو جائے لیکن اب بھی بیشتر خواتین کے لیے خود تھانے جا کر دادرسی کے حصول پر آمادہ ہونے میں وقت لگے گا۔ جب تک خواتین معاشرے میں عدم تحفظ کے احساس کا شکار رہیں گی اس وقت تک ایسے اقدامات کے حقیقی مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے۔
میسرہ بلوچ کہتی ہیں کہ جن خواتین کے لیے پولیس سٹیشن آ کر اپنی شکایت درج کرانا آسان نہیں ہے ان کے لیے ایک ٹول فری نمبر شروع کیا جائے گا اور خواتین گھر بیٹھے اس نمبر پر اپنا مسئلہ بیان کر سکتی ہیں جس پر ہر ممکن کارروائی کی جائے گی۔
ضلع کیچ کے ایس ای پی محمد بلوچ نے لوک سجاگ کو بتایا کہ خواتین پولیس سٹیشن کو ہرطرح سے بااختیار بنایا گیا ہے اور جہاں بھی اسے مزید پولیس فورس کی ضرورت ہو گی وہ مہیا کی جائے گی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وقت کے ساتھ خواتین کا اس پولیس سٹیشن پر بھروسہ بڑھ جائے گا اور اس سے مقامی سطح پر خواتین کے خلاف جرائم میں نمایاں کمی آئے گی۔
تاریخ اشاعت 21 اپریل 2023