راولپنڈی میں اس سال فروری اور اپریل میں دو خواجہ سرا افراد کو ایک ہی انداز میں قتل کئے جانے کے واقعات پیش آئے۔ دونوں وارداتوں میں مقتولین کو پہلے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، انہیں بجلی کے جھٹکے دیے گئے اور پھر ازار بند سے گلا گھوٹ کر ہلاک کر دیا گیا۔
طریقہ واردات میں مماثلت سے تفتیش کاروں نے اخذ کیا کہ نہ تو یہ واقعات ایک دوسرے سے علیحدہ ہیں اور نہ ہی قاتل کوئی عام اناڑی مجرم ہے بلکہ وہ کسی نفسیاتی مسئلے کا شکار سفاک سیریل کلر ہے۔
راولپنڈی کے علاقے صادق آباد میں خواجہ سرا افراد کی بڑی تعداد رہتی ہے۔ پولیس نے قاتل کی تلاش کے لئے اس علاقے کی نگرانی شروع کر دی لیکن اس کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔
راولپنڈی پولیس کے شعبہ تفتیش کی انچارج زونیرا اظفر نے لوک سجاگ کو بتایا کہ دو وارداتوں کے بعد پولیس کی کوشش تھی کہ ملزم کو مزید جرم کرنے سے پہلے ہی گرفتار کر لیا جائے۔
ان کے مطابق قاتل کے طریقہ واردات سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ غصے اور اشتعال کی کیفیت میں ہونے کے علاوہ نہایت ہوشیار چالاک بھی ہے کیونکہ جائے واردات پر اس نے کوئی ایسے شواہد نہیں چھوڑے تھے جن کے ذریعے اس تک پہنچا جا سکے۔
تاہم ہر ملزم کی طرح اس نے بھی ایک غلطی کی جو یہ تھی کہ وہ پہلی واردات کے بعد مقتول ظہور احمد کا موبائل فون اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ پولیس نے اس فون نمبر پر آبزرویشن لگا دی لیکن فون مسلسل بند جاتا رہا۔
زونیرا اظفر بتاتی ہیں کہ واردات کے تقریباً تین ماہ بعد پہلی مرتبہ وہ فون رحیم یار خان میں کچھ دیر کے لئے آن ہوا اور پھر بند ہو گیا۔ اس طرح پولیس ملزم تک تو نہ پہنچ سکی لیکن یہ بات ضرور سامنے آ گئی کہ ملزم کا رحیم یار خان سے کوئی تعلق ضرور ہے۔
ملزم نے سیف الرحمان نامی جس دوسرے ٹرانس جینڈر کو قتل کیا تھا وہ ظہور کے مقدمے کا مدعی بھی تھا۔ مقتول ظہور اور سیف اللہ دونوں دوست اور راولپنڈی کے علاقے صادق آباد میں ایک گھر میں رہتے تھے۔
کچھ عرصہ کے بعد ظہور کا فون کچھ دیر کے لئے اسلام آباد میں آن ہوا تو پولیس نے اس کی لوکیشن نوٹ کر کے اس علاقے کی نگرانی شروع کر دی اور بالآخر اسے گرفتار کر لیا گیا۔
وہ سفاک قاتل کیسے بنا؟
زونیرا اظفر بتاتی ہیں کہ ملزم علی حسن پولیس کی توقع سے زیادہ چالاک اور شاطر تھا۔ اس سے پوچھ گچھ بہت مشکل ثابت ہوئی جس میں اس نے انکشاف کیا کہ اس نے دونوں مقتولین کو قتل کرنے سے پہلے جنسی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا تھا اور اس سے پہلے وہ رحیم یار خان میں سعید نامی ایک شخص کو بھی قتل کر چکا ہے۔
ملزم نے بتایا کہ بارہ سال کی عمر میں جب وہ رحیم یار خان کے ایک مدرسے میں زیر تعلیم تھا تو ایک استاد نے اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ ملزم کے ذہن پر اس واقعے کے منفی اثرات اب بھی موجود ہیں۔
"اس واقعے کے بعد ایک ایسے شخص نے بھی اس سے زیادتی کی تھی جسے وہ نعتیں سنایا کرتا تھا۔ ملزم اس قدر مشتعل ہوا کہ ایک روز اس نے ڈنڈے کے وار کر کے اسے قتل کر دیا"۔
انہوں نے بتایا کہ ملزم کو گرفتار کر لیا گیا مگر کیس کی عدم پیروی اور راضی نامے کی بنیاد پر چند ہی روز کے بعد اسے جیل سے رہائی مل گئی جس کے بعد اس نے اسلام آباد میں رہائش اختیار کر لی جہاں وہ رنگ و روغن کا کام کرنے لگا۔
زونیرا کا کہنا ہے ملزم کو اپنے ساتھ پیش آئے زیادتی کے واقعات کا بے حد رنج تھا اور وہ ہر وقت لوگوں اور معاشرے سے بدلہ لینے کی تدابیر سوچتا رہتا تھا۔ اس کی یہ کیفیت تاحال برقرار ہے۔
راولپنڈی میں قتل ہونے والے دونوں ٹرانس جینڈر افراد کے لواحقین ملزم کے خلاف مقدمے کی پیروی میں دلچسپی نہیں رکھتے اس لئے متوقع طور پر حکومت اس مقدمے کی پیروی کرے گی۔ تاہم ابھی ان مقدموں کا ٹرائل شروع نہیں ہوا۔
جنسی زیادتی کا شکار بچوں کو کیسی مدد درکار ہوتی ہے؟
بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے ساحل سے وابستہ قانون دان امتیاز احمد سومرو کہتے ہیں کہ نوعمری میں جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے لوگ غصے اور انتقام کے جذبات میں کوئی بھی قدم اٹھا سکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ایسے بچوں کو مناسب کونسلنگ فراہم کرنے اور انہیں صدمے کی کیفیت سے باہر لانے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ انہیں معاشرے کا صحت مند حصہ بنایا جا سکے لیکن بدقسمتی سے بچوں کے ساتھ زیادتی کے بیشتر واقعات سامنے ہی نہیں آتے۔
ساحل کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 2022ء میں بچوں سے جنسی زیادتی یا ایسی کوشش، ان کی غیراخلاقی ویڈیو بنانے اور زیادتی کے بعد انہیں قتل کئے جانے کے چار ہزار 253 واقعات رپورٹ ہوئے۔ ایسے بیشتر واقعات کے ملزم ان بچوں کے قریبی رشتہ دار تھے۔
جنسی تشدد کا سامنا کرنے والے ان بچوں میں 55 فیصد لڑکیاں اور 45 فیصد لڑکے شامل ہیں۔ جبکہ ایسے 47 فیصد واقعات دیہی اور 53 فیصد شہری علاقوں سے رپورٹ ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں
خبردار! یہ مردہ ٹرانس جینڈر ہے، اسے اس قبرستان میں دفن نہیں کیا جا سکتا!
امتیاز سومرو کہتے ہیں کہ جس بچے کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے وہ خوف اور شرم کے مارے اپنے والدین کو اس سے آگاہ نہیں کر پاتا۔
"والدین کا اپنے بچوں کے ساتھ رویہ دوستانہ نہ ہو تو زیادتی کا سامنا کرنے والا بچہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر اس نے انہیں آگاہ کیا تو الٹا اسے ہی قصوروار سمجھا جائے گا۔ چنانچہ ایسے بچے غصے اور صدمہ کی کیفیت سے نکل نہیں پاتے اور بڑے ہو کر جرائم کی راہ پر چل نکلتے ہیں"۔
امتیاز سومرو کا کہنا ہے کہ بچوں سے جنسی زیادتی کے جو واقعات رپورٹ ہوتے ہیں ان میں سے بیشتر میں متاثرہ کو انصاف بھی نہیں ملتا۔عدالتی عمل اس قدر طویل اور پیچیدہ ہوتا ہے کہ کئی متاثرہ اس دوران مزید ٹراما اور مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔
"انہی مسائل کی وجہ سے سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ ایسے بچوں کی کونسلنگ کروانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایسے واقعات کی تفتیش ایس پی سطح کے افسر سے بالاحتیاط کرانے کا حکم دیا تھا۔ لیکن ان دونوں احکامات پر عملدرآمد نہیں ہوا"۔
تاریخ اشاعت 20 جون 2023